counter easy hit

لاڑکانہ میں ایڈز کی وباو عالمی ٹیم پاکستان آئے گی، رپورٹ اصغر علی مبارک

larkana, aids, disease, international, team, will, visit, Pakistan, report, asghar ali mubarak

 

رپورٹ :(اصغر علی مبارک سے) وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کا ماننا ہے کہ سندھ کے شہر لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کی وجہ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال ھو سکتا ھے۔ اسلام آباد میں ایک گفتگوکے دوران معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے انکشاف کیا کہ رتوڈیرومیں ایچ آئی وی کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ تشویش ناک ہے۔ لاڑکانہ میں 21 ہزار 375 افراد کے خون کے نمونے حاصل کئے۔ جن میں سے 681 میں ایچ آئی وی پازیٹیو کی تصدیق ہوئی ہے۔ سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ تصدیق شدہ مریضوں میں 537 بچے ہیں اور ان کی عمریں 2 سے 15 سال تک ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس حد تک ایچ آئی وی ایڈز کی تشخیص ہونا تشویشناک ہے۔ یہ معاملہ اسے اور بھی پراسرار بنا رہا ہے کہ اتنے زیادہ بچوں میں یہ بیماری کیوں ہے۔ اس حوالے سے راقم الحروف نے وزیر صحت کو مشورہ دیا کہ اس معاملے پر بھی غور کیا جائے کہ کہیں ناک کان چھیدوانے سے اور عطائیوں کی وجہ سے تو نہیں یہ وبا تو نہیں پھیل رہی جس پر وزیر صحت نے کہا کہ اس معاملہ پر بھی غور کیا جائے گا ان کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی ایڈز کاعلاج تو کرلیں گے لیکن یہ کہاں سے آیا یہ پتہ لگانا نہایت ضروری ہے، جب تک وجوہات کو نہیں ڈھونڈیں گے یہ مرض پھیلتا جائے گا، اگر ماں کو ایڈز ہو اور وہ بچے کو دودھ پلارہی ہے تو بچے کو بھی ایڈز ہوسکتا ہے لیکن ان بچوں کے والدین ایچ آئی وی نیگیٹیو ہیں۔ استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال مرض کے پھیلنے کی پہلی وجہ ہوسکتی ہے کیونکہ استعمال شدہ سرنجوں کو دوبارہ پیک کرکے مارکیٹ میں بیچا جاتا ہے۔معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت مسئلے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے، سندھ میں 3 ٹریٹمنٹ سینٹر بنائے جارہے ہیں، عالمی ادارہ صحت سے 50 ہزار کٹس طلب کی ہیں۔ ہم نے فوری طورپر بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم بلائی ہے جو چند روز میں کراچی پہنچے گی، یہ ٹیم مقامی ڈاکٹرز کے ساتھ مل کر تحقیقات کرے گی، اقوام متحدہ کے ماہرین کی ٹیم ایڈز کے پھیلاؤ کی وجوہات جاننے کی کوشش کرے گی۔

ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ایچ آئی وی ایڈز کےایک لاکھ 63 ہزارمریض ہیں جب کہ 25 ہزار مریض نیشنل ایڈز پروگرام کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، پاکستان میں ایڈز کیسز کی اصل تعداد سامنے آنے والے کیسز سے کہیں زیادہ ہوسکتی ھے۔ایچ آئی وی بنیادی طور پر چیمپنزی بندر کو نشانہ بنانے والا وائرس ہے۔ افریقہ میں بہت سے لوگ ان بندروں کا گوشت کھاتے ہیں۔ لہٰذا وہ بھی اس وائرس کا شکار ہو گئے۔ افریقی باشندوں کے ذریعے پھر یہ رفتہ رفتہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔ یہ وائرس انتقال خون ‘ ناجائز جسمانی ملاپ اور شیرِ مادر کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے کو منتقل ہوتا ہے ۔ وائرس انسانی جسم کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے والے ٹی خلیے  مار ڈالتا ہے۔ ان خلیوں کی عدم موجودگی سے انسان پھر مختلف خطرناک امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ بیماریوں کا نشانہ بننے کی کیفیت ’’ایڈز‘‘ کہلاتی ہے۔ ایڈز کا کوئی علاج نہیں اور اس میں مبتلا انسان آخر کار سسک سسک کر قبر میں پہنچ جاتا ہے۔یہ 1987ء کی بات ہے‘ جب پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا حامل پہلا مریض سامنے آیا۔ تب سے پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔ وجہ یہی کہ یہ وائرس جس انسان کے جسم میں داخل ہو جائے تو پھر ساری زندگی اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ مریض کو تاعمر خصوصی ادویہ کھانا پڑتی ہیں تاکہ وائرس اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ مریض جیسے ہی ادویہ چھوڑے یا انہیں لینے میں کوتاہی برتے‘ تو ایچ آئی وی وائرس چند ہفتوں میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ یہ وائرس پھر ٹی خلیوں پر حملہ کر کے نہایت تیزی سے اپنی نقول تیار کرتا اورانسانی مامون نظام   تباہ و برباد کرنے لگتا ہے۔ تب کوئی دوا اس وائرس کا راستہ روک نہیں پاتی۔ پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ نہایت تشویش ناک امر ہے۔ وجہ یہ کہ اکثر موذی بیماریاں مثلاً کینسر، ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطس، امراض قلب، فالج، امراض تنفس وغیرہ ایک انسان سے دوسرے کو منتقل نہیں ہوسکتیں۔ مگر ایچ آئی وی وائرس اور ہیپاٹائٹس سی کے وائرس مریض سے صحت مند انسانوں میں منتقل ہوکر ان کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ اسی لیے ایچ آئی وائی نہایت خطرناک وائرس ہے اور پاکستانی معاشرے میں اس کے پھیلنے کا مطلب ہے کہ ہمارے کروڑوں بچے بڑے اس کی زد میں آچکے ھیں۔پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس پھیلنے کے بنیادی اسباب مختلف ہیں۔ پاکستان میں ایچ آئی وائی وائرس پھیلنے کی بڑی وجہ انجکشن کا ناروا استعمال ہے۔لہذا یہ یقینی بنانا ہر شخص کے ضروری ہے کہ ڈاکٹر یا نرس مریض پہ نیا انجکشن اور سوئی ہی استعمال کر رہی ہے۔ انجکشن کے ذریعے منشیات لینے والے نشئی اکثر ایک دوسرے کی سرنج استعمال کرتے ہیں۔ یوں ایچ آئی وائی وائرس کا شکار نشئی اپنا وائرس صحت مند انسان کے بدن میں منتقل کر دیتا ہے۔ بہت سے نشئی اپنا خون بیچ کر پیسہ کماتے ہیں۔ایسے لوگ اکثر غیر قانونی بلڈ بینک میں جا کر اپنا خون بیچتے ہیں۔ یہ بلڈ بینک غریبوں کو کم قیمت پر خون فروخت کرتے ہیں۔ یوں متاثرہ کا وائرس زدہ خون دوسرے انسانوں کے جسم میں بھی دوڑنے لگتا اور انہیں بھی ایچ آئی وی کا مریض بنا دیتا ہے۔عطائی ڈاکٹرز بھی ایچ آئی وی وائرس پاکستانی قوم میں پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکے ۔ یہ خصوصاً دیہی معاشرے میں جابجا ملتے ہیں۔ رتوڈیرو میں ایچ آئی وی وائرس میں مبتلا کئی مریض سامنے آئے‘ تو انکشاف ھوا کہ ضلع میں چار سے پانچ ہزار عطائی سرگرم ہیں۔ یہ کوئی معمولی تعداد نہیں، انہی کی وجہ سے دیہی سندھ میں ایچ آئی وی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ضلع شکار پور میں بھی وائرس کا نشانہ بنے لوگ دریافت ہو چکے۔یہ عطائی لیبارٹریوں، کلینکوں، بلڈ بینکوں ،میٹرنٹی ہومز اور باربر وغیرہ کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں موت بانٹتے پھرتے ہیں۔ عطائی رقم بچانے کے لیے ایک ہی انجکشن کئی مریضوں پر استعمال کرتے ہیں۔ مگر یہ نہایت خطر ناک عمل ہے۔ ایک ہی انجکشن کے بار بار استعمال سے ایچ آئی وی ہی نہیں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے وائرس بھی مریض سے صحت مند انسان کے بدن میں منتقل ہوتے اور اس کی زندگی خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ماہرین کاکہناھے کہ کلینکوں میں انجکشن لگانے پر پابندی لگائی جائے تاکہ ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکا جا سکے۔ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بھی پاکستان میں ایچ آئی وی وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے سرگرمی سے مہم نہیں چلائی۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو اس وائرس کی بابت شاذونادر ہی معلومات دی جاتی ہیں۔ لہٰذا عام لوگ یہی نہیں جانتے کہ کن طریقوں سے اس خطرناک وائرس کا پھیلاؤ روکنا ممکن ہے۔ اسی باعث پاکستان میں یہ وائرس ایک سے دوسرے اور تیسرے چوتھے تک پھیلتا چلا جارہا ہے۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1037758283094855&id=100005820781248

ہر سال یکم دسمبر کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ایڈز سے آگاہی اور اس سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ ایڈ ز کا عالمی دن دنیا میں پہلی مرتبہ 1987ء میں منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد عوام الناس کو اس مہلک اور خطرناک مرض کے بارے میں شعور دینا ہے۔ یونیسیف کے مطابق، 2017ء میں 18بچے فی گھنٹہ کے حساب سے ایڈز کے مرض میں مبتلا ہوئے۔اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ معلومات کی کمی اور جنسی تشدد کے باعث نوجوانوں بالخصوص نوعمر لڑکیوں میں ایچ آئی وی وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہر تیسرے منٹ میں15سے 19برس کی ایک لڑکی ’ایچ آئی وی‘ کا نشانہ بن رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بلوغت میں جنسی تعلقات، جبراً جنسی عمل، غربت اور حفاظتی تدابیر کا علم نہ ہونا ہے۔
یونیسف کی سربراہ ہینریٹا ایچ فور کا کہنا ہے کہ معاشرے کے کمزور اور پسماندہ افراد زیادہ تر ایچ آئی وی سے متاثر ہوتے ہیں، جس کا مرکزی ہدف خاص طور پر نوجوان لڑکیاں بنتی ہیں۔

ایڈز (AIDS) کیا ہے؟

ایڈز   ایک ایسی بیماری ہے جوایچ آئی وی (ہیومن امیونو ڈیفی شنسی) کے ذریعے پھیلتی ہے اور جسم میں جاکردفاعی نظام کو ختم کردیتی ہے۔ اگر ایچ آئی وی کا بروقت علاج کے ذریعے خاتمہ نہ کیا جائےتو اس کے نتیجے میں اگلے مرحلے میں وہ شخص ایڈز کا شکارہوسکتا ہے۔

ایچ آئی وی جسم کیساتھ کیا کرتا ہے؟

ایچ آئی وی انسان کے مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے۔ مدافعتی نظام متعدی امراض کے خلاف لڑتا ہے اور بیمار ہونے سے محفوظ رکھتا ہے۔ ایچ آئی وی اس نظام کو کمزور کرتا ہے، جس کے بعد یہ کمزور نظام انسان کو بیماریوں سے محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ اگر متاثرہ شخص ایچ آئی وی کیلئے ادویات نہیں لیتا تو وہ ایڈز کا شکار ہوسکتا ہے۔

ایچ آئی وی کی تشخیص

صرف خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ہی ایچ آئی وی کا پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آنے کا مطلب ایچ آئی وی کا نہ ہونا ہے جبکہ ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے کا مطلب اس شخص کے خون میں ایچ آئی وی کا موجود ہونا ہے۔ لوگوں کو علم نہیں ہوتا کہ انہیں ایچ آئی وی ہے۔ لیکن جب پہلی بار کسی کو ایچ آئی وی لاحق ہوتا ہے تواسے درج ذیل مسائل پیش آ سکتے ہیں۔

•سر میں درد، بخار، تھکاوٹ، سوجے ہوئے غدود، خراب گلا، سرخ دھبے، پٹھوں اور جوڑوں کا درد، منہ میں زخم، جنسی اعضا پر زخم، رات کو پسینہ چھوٹنا اور دست وغیرہ۔ تاہم یہ علامات نزلے، شدید زکام یا دیگر بیماری کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ اگر کسی کو اپنے خون میں ایچ آئی وی کا خدشہ ہو تو اسے کسی ڈاکٹر سے رابطہ کرکے فی الفور ٹیسٹ کروانا چاہیے۔

ایچ آئی وی کیسے نہیں لگتا

گلے لگنے سے، کھانسی یا چھینکنے سے، مل کر خوراک یا مشروب پینے سے، ایسی خوراک کھانے سے جو کسی ایچ آئی وی زدہ شخص نے تیا ر کی ہو، صاف خون کے انتقال اور دیگر طبی عمل کروانے سے، وہی ٹوائلٹ یا شاور استعمال کرنے سے جو ایچ آئی وی زدہ شخص نے استعمال کیا ہو، حشرات یا جانوروں کے کاٹنے سے، ایچ آئی وی زدہ شخص سے روزمرہ واسطے سے اور سوئمنگ پول یا جم کے ذریعے۔ایچ آئی وی کا وائرس ایک تندرست انسان کے جسم میں داخل ہوسکتاہے۔ یہ وائرس جسم میں داخل ہونے کے بعد قوتِ مدافعت کے نظام کو مفلوج کردینے کے علاوہ اگر کوئی اورپُرانی بیماری موجود ہوتو اس کو بھی ہوا دیتے ہیں۔وائرس مریض کے خون میں ہر وقت موجود ہوتاہے ۔وہ لوگ جو بیمار ہونے پر اگر کسی ایڈز کے مرض میں مبتلا فرد کا خون لیں تو وہ بھی اس مرض کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ہسپتالوں میں غیر تصدیق شدہ خون کی فروخت بھی اس مرض کاسبب بنتی ہے۔منشیات کے عادی افراد ٹیکے کے ذریعے بھی نشہ کرتے ہیں، انکے ٹیکہ لگانے کی سرنج اور سوئیاں گندی اور غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ ایک ہی سرنج کا کئی بار استعمال کرنے سے یہ وائرس جسم میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر ایک ہی سرنج سے ٹیکے لگانے میں ایڈز کا ایک بھی مریض آجائے تو یہ بیماری سب میں پھیل جاتی ہے۔ ناک، کان چھیدنے والے اوزار، دانتوں کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات، حجام کے آلات اور سرجری کے لیے استعمال ہونے والے آلات کے ذریعے بھی یہ متاثرہ شخص سے دوسرے فرد میں منتقل ہوسکتا ہے۔جس عورت کو ایڈز ہو تو اس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی ایڈز میں مبتلا ہوسکتا ہے :مرض سے متعلق مناسب معلومات کا نہ ہونا اس کے پھیلنے کی ایک اہم وجہ ہے ۔ پاکستان میں ایڈز کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کردہ ادارے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق 1986ء سے اب تک پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 33ہزار سے زائد ہو گئی ہے۔ پاکستان میں یہ صورتِ حال اس لیے بھی تشویش ناک ہے کیونکہ مغربی دنیا میں ایڈز کم ہو رہا ہے، جب کہ پاکستان میں تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق جب تک ایڈز اور ایچ آئی وی کی سنگینی کے بارے میں بڑے پیمانے پر عوام کو آگہی فراہم نہیں کی جائے گی، اس وقت تک اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ادویات کے ذریعے اس کو قابو میں رکھناممکن ہے۔ ادویات سے وائرس کی تعداد خون میں اس قدر کم ہو جاتی ہے کہ انہیں خوردبین کے ذریعے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسے’ناقابل سراغ وائرل لوڈ‘ کہتے ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایچ آئی وی سے بیمار نہیں ہونگے اور نارمل لمبی زندگی گزاریں گے۔ اگر آپ مناسب طور پر ادویات لیتے رہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ سے کسی اور کو بھی ایچ آئی وی منتقل نہیں۔۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت کا کہنا ہےکہ ایڈز کا مرض دنیا بھر میں صحت کا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے اب تک ساڑھے تین کروڑ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔گذشتہ برس میں ایک کروڑ افراد ایڈز کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔
ابھی تقریباً تین کروڑ ستر لاکھ ایسے ہیں جو اس وائرس کا شکار ہیں ان میں سے 70 فیصد افریقہ میں ھے۔دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے پاکستان سے تعاون کی درخواست قبول کرلہ ھےعالمی ادارہ صحت کو رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کیسز کی وبائی صورتحال پر قابو پانے کے لیے وزیر صحت کئ تعاون کی درخواست قبول کرلی ھے۔لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے وبائی صورت اختیار کرنے پر پاکستان نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیوایچ او) سے تعاون کی درخواست کی تھی، اس حوالے سے وزیر اعظم کے معاون خصوصی قومی صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ڈبلیو ایچ او کو مراسلہ بھی بھیجا تھا۔ عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کی تعاون فراہمی کی درخواست قبول کر لی ہے اور پاکستان کو ایڈز کی تشخیصی کٹس فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔…

larkana, aids, disease, international, team, will, visit, Pakistan, report, asghar ali mubarak