counter easy hit

ہمارے مزدور اور استحصالی نظام

Labor

Labor

تحریر : محمد ذوالفقار
یوں تو کسی بھی ملک میں مزدور ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میںان کو بہت زیادہ اہمیت نہیںدی جاتی۔دنیا کا دستور ہے کہ سرمایہ دار اپنے کاروبار کو چلانے کے لیے لوگوںکی خدمات حاصل کرتاہے ۔جسکے بدلے میںان کو مناسب اجرت دیتا ہے اور ساتھ میں شکریہ کے چند الفاظ بھی۔کیوںکہ دنیا میں کچھ لواور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں مالک اور نوکر کا فرق بہت کم ہے۔اور کسی بھی ملک میں ترقی کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ وہاں امیر اور غریب دونوںکے بنیادی حقوق ایک جیسے ہیں۔جن میں تعلیم ،صحت، روزگار اور انصاف بنیادی عوامل ہیں۔کسی بھی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے باشندوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے مگر کیوںکہ ترقی پزیر ممالک میںیہ ممکن نہیں کہ سرکاری سطح پر سب کو روزگار دیا جا سکے اس لیے نجی سطح پر بہت سارے کارخانے لگائے جاتے ہیں۔جس میںلوگوں کو روزگار کے مواقع ملنے کے ساتھ ساتھ انکی دوسری بنیادی ضروریات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ان ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے ان نجی کارخانوں کامختلف اداروںسے الحاق ہوتا ہے۔

جو ادارے مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے کا م کرتے ہیں جن میں سوشل سکیورٹی E.O.B.I. قابل ذکر ہیں ۔پاکستان میں زیادہ تر اداروں میں بھرتیوں کا کوئی خاص طریقہ کار نہیں ماسوائے چند ایک بڑی کمپنیوں کے۔ پاکستان میں مزدوروں کا استحصال کن طریقوں سے کیا جاتا ہے چند ایک نقاط درج ذیل ہیں۔١۔کسی بھی کمپنی میں جب بھی آسامیاں نکلتی ہیں تو یہ ضروری نہیں سمجھا جاتاکہ اشتہار دیا جائے بلکہ اپنے تعلق کی بناء پر بھرتیاں کی جا تی ہیں جس سے عام آدمی کا استحصال کیا جاتا ہے۔٢۔ اور اگر کوئی کمپنی اشتہار دے بھی دے تو اس پر تنخواہ اور دیگر مراعات واضح نہیں ہوتیںاور بعض اوقات تجربہ کی شرائط اس قدر سخت ہو تی ہیں کہ عام آدمی خواہ وہ کتنا ہی ذہین کیوں نہ ہو معیار پر پورا نہیں اترتا اور اگر یہ تمام شرائط پوری ہونے کے باوجود کوئی بندہ منتخب ہو بھی جاے تو اس کو نہ تو کوئی( JOINING LETTER)دیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی یقین دہا نی کرائی جاتی ہے کہ جس سے اسے وہ اپنے آپ کو مطمعین کر سکے اس طرح جب ان کا جی چاہے مزدور کو فارغ کر دیں

اس کے پاس قانونی چارہ جوئی کا کوئی حق حاصل نہیں ہوتا ۔٣۔زیادہ تر ہمارے مزدور کئی مقاصد کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اگر کوئی شخص الیکٹریشن کے عہدہ پر بھرتی کیا جاتا ہے مگر اس سے کیی دوسرے کام، پلمبر ویلڈر جنریٹر آپیٹر وغیرہ لیے جاتے ہیں مگر وہ اس سے انکار بھی نہیں کر سکتا ۔اگر وہ کرتا ہے تو اسے نوکری سے فارغ ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔یوں اس طرح ایک فرد سے تین افراد کا کام بھی لیا جاتا ہے اور محکوم بھی بنا کر رکھا جاتا ہے اور جب جی چاہے فارغ کر دیا جاتا ہے۔4۔اور اگر خدا خدا کر کے کچھ لوگ نوکری پہ پکے کر دیے جائیںتوان سے متعلقہ فلاحی اداروں کو صیح معلومات فراہم نہیں کی جاتیں۔ مثلاً سوشل سیکیورٹی کے ادارے میں کمپنی کی طرف سے بہت سے اافراد رجسٹر ڈ ہی نہیں کروائے جاتے اور اگر کچھ افراد کورجسٹر ڈکروانا مقصود ہو تو بہت سے شادی شدہ افراد کو غیرشادی شدہ کے طور پہ رجسٹر ڈکروایا جاتا ہے۔

اور اسی طرح E.O.B.I)) ایک ایسا ادارہ ہے جس میں مزدوروں کو ریٹایئرمنٹ کے بعد پینشن کی سہولت دی جاتی ہے۔ بہت ساری نجی کمپنیاںمزدور کی مجموعی تنخواہ سے دو گنا کم تنخواہ ظاہر کرتی ہیں جس سے مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے۔ اور اس طرح کمپنی اپنا بہت سارا پیسہ بچا لیتی ہیں ۔ آخر میں سب سے اہم بات یہ کہ جتنی بھی ہماری نجی کمپنیاں ہیں جب چاہیں بغیر نوٹس دیئے اپنے مزدوروں کو فارغ کر دیں کوئی پوچھنے والا نہیں یہ تو تھی ان مزدوروں کی بات جن کو کچھ نا کچھ مل جاتا ہے۔اگر ان مزدوروں کی بات کی جائے جو بیچارے صبح سویرے اٹھ کر ہی دور دراز شہروں میں روزگار کے حصول کے لئیے نکل پڑتے ہیں۔اور پھر شہر کے کسی بازار میں خود کو بیچنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔اگر کوئی خریدار آجائے تو ان کو ساتھ لے جاتا ہے ورنہ ایسے ہی بے یارو مددگار گھر کو واپس آنا پڑتا ہے۔اپنے وطن عزیز میں مزدوروں کی یہ ابتر حالت دیکھ کر غلامی کا زمانہ یاد آجاتا ہے۔اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو خدا کی قسم ہماری اکثریت غلام ہے۔

اسکی ایک جھلک آپ بھٹہ مزدوروں کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔جو لوگ اپنے بچوںکا پیٹ پالنے کے لیے خود کو گروی رکھ دیتے ہیں۔اور پھر سب سے حیرت کی بات یہ کہ ان کو کوئی بھی بنیادی حق حاصل نہیں جو ان کے ٹھیکے دار یا کمپنی مالکان دیتے ہوں ۔جن میں صحت ،تعلیم وغیرہ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا۔کہ حکومتی سطح پر لیبر بیورو قائم ہوں ۔جن میں مزدوروں کی باقاعدہ رجسٹریشن ہو۔جو مزدوروں کے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ ان کے روزگارکی فراہمی کو یقینی بنا سکے۔مگر ایسا کچھ نہیں ہو سکا آج تک۔اور اگر کسی مزدور کا استحصال ہو رہا ہو تو وہ بیچارہ کہاں جائے؟

حکومت نے لیبر کورٹ تو متعارف کروائی ہے مگر خدا کے لیے کوئی یہ تو بتائے جو انسان مشکل سے اپنا گزارہ کرتا ہو وہ بھلا عدالتوں کے چکر لگائے یا پھر اپنے بچوں کی کفالت کرے ۔ بہت سارے افراد وسائل نا ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق کی بات نہیں کرتے ۔اگر مزدوروں کے معاشی حقوق اسی طرح غصب ہوتے رہے تو پھر کب تک اس ملک کو چلا سکوگے۔کیوں کہ ریڑھ کی ھڈی کے بغیر جسم کا وجود ممکن نہیں۔واضح رہے کہ یہاں مزدور سے مراد ہر وہ شخص ہے جو کہیں نا کہیں محنت مزدوری کرے خواہ وہ قلم کا مزدور ہو یا پھر محنت کش۔ حکام بالا کو چاہیے کہ وہ اپنے مزدور کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں ورنہ یہ نا ہو جیسے شاعر نے کہا تھا۔
پیتل کی بالیوں میں بیٹی بیاہ دی،
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں۔

تحریر : محمد ذوالفقار