لاہور (ویب ڈیسک) کالم نگاری کے شوقین افراد کو یاد ہوگا کہ عمران خان نے اس ملک کے لیے اپنی نظریاتی جنگ کا آغاز ایک کالم سے ہی شروع کیاتھا جس میں انہوںنے کہاتھا کہ “انگریز تو چلا گیا مگر اس کے لے پالک دیسی انگریز ابھی تک ہمارے حکمران ہیں ”
نامور کالم نگار حلیم عادل شیخ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔عمران خان نے اپنی نظریات کو پاکستان میں کسی بھی انداز میں انتہا پسندی سے دور کھا اور کوئی کام ایسا نہیں کیا جس سے ملک میں انتہا پسندی یا تشدد کو فروغ ملتا ہو بلکہ اس نے قطرے قطرے سے دریا بنانے کے فارمولے پر کام کیا۔ لوگوں نے اس کی باتوں کو بھی بہت ہلکا لیا کیونکہ نشے میں چور عوام سے دور حکمرانوں نے اس ملک کے اداروں میں اپنے چمچوں کا راج پاٹ قائم کیاہواتھا ،اس ملک میں قومی اداروں کی ہرزہ سرائی اور عدالتوں پر حملے کرنے کے باوجود نام نہاد جمہوری حکمران یوں ہی دندناتے پھرتے رہے کبھی ایک کی باری تو کبھی دوسرے کی باری اور قومی خزانہ لٹتا رہا ،عوام کے پاس اسپتالوں میں بستر تک نہیں تھا ۔ ”صاحب“ لوگوںعلاج لندن اور امریکا کے مہنگے ترین ہسپتالوں میں ہوتا رہا اور ایک نوجوان دنیا کی ہر نعمت اور شہرت ہونے کے باجود اس ملک کی بدبو دار اور بوسیدہ گلیوں میں گھومتا رہا اور چیختا رہا کہ لوگو! اس ظلم کے نظام کے خلاف اٹھ جاﺅاس نے حضرت عمر فاروق کے دور حکومت کو اپنا آئیڈیل قراردیا تو لوگوں نے اس
انقلابی نوجوان کو اور بھی غور سے سننا شروع کیا اس نے اس ملک میں صاف پانی ،صحت اور اور عوام کے بنیادی سہولیات کی ایک ہی رٹ لگائی رکھی اخبارات والے بھی تنگ آگئے کہ اس نئے نویلے انقلابی کے پاس اور کوئی بات نہیں ہے لیتا ہے ایک ہی بات کرتاہے کہ اس ملک میں صاف پانی نہیں اس ملک کی عوام کے پاس صحت نہیں ،لوگ کہنے لگے ہمیں تو عمران خان کے آتے ہی پتہ لگ جاتاہے کہ اس نے اب کیا تقریر کرنی ہے مگر پھر 22سال بیت گئے وقت کا پتہ ہی نہ چلا مگر وہ انقلابی نوجوان اب عمر کے ایک بڑے حصے میں پہنچ چکا تھامگردنیا حیران تھی کہ یہ شخص آج بھی وہ ہی الفاظ اداکررہاہے جو بائیس سال پہلے اداکیے تھے لوگ سوچ رہے تھے کہ یہ آدمی تھکتا نہیں اس کے لہجے میں آج بھی وہی دبدبہ ہے جو بائیس پہلے تھااورایک ہی طرح کی رٹ لگاتے ہوئے، مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اس انقلابی نوجوان کی جانب سے عوام کے لیے بنیادی سہولیات کو دلانے اور قوم کو انگریزوں کے لے پالکوں کے پاکستان سے نجات دلاکر قائداعظم اور علامہ اقبال کی سوچ کا پاکستان دینے کا نعرہ اب بہت مقبول ہوچکاتھا
اب لوگ اس عظیم نوجوان کو دیکھنے اور سننے کے لیے پنڈال سے کے اندر اور باہر کھڑے ہوتے تھے۔ اس نوجوان کی جدوجہد نے بڑے بڑے دانشوروں کو سرپکڑنے پر مجبور کردیا تھا دنیا بھر کی میڈیا کی ہیڈ لائنیں بھی اس انقلابی کی باتیں کرتی ہوئی دکھائی دیں اور پھر ایک دن یہ ہی انقلاب پاکستان کی راج دہانی کا سہرا سجانے کے لیے انتخابی میدان میں ایک بار پھر سے اترا اور اس ملک کے بڑے بڑے برجوں کو اس انقلابی شخص کے عام امیدواروں نے درخت کے پتوں کی طرح گرادیا اور اور پاکستان کی تاریخ کا وہ عظیم انقلابی پاکستان کی تقدیر کاوزیر اعظم بن گیا،لیکن اب اس تمہاری گفتگو کے بعد میں عمران خان سے مخاطب ہوا چاہتاہوں،کیونکہ اب وقت آچکاہے کہ اس ملک کے لٹیروں کو قانون کے تحت گرفتار کرکے انہیں بے رحمانہ احتسابی عمل سے گزاراجائے۔ آپ کی جیت ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوا ہے اس ملک کاہر شخص لٹیرے حکمرانوں سے نجات پانے پر خوش ہے ،ہمیں جو موقع اس وقت ملاہے اس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے وگرنہ یہ پانچ سال توآنکھیں بند کرکے بھی گزرجائیں گے وہ لوگ جو اس نئے پاکستان کی تکمیل کے لیے
اپنے اپنے انتخابی حلقوں سے جیتے ہیں ان سب پر واجب ہے کہ انہوںنے اپنی عوام سے جو وعدے کیئے ہیں وہ سب کے سب پورے کیے جائیں، یہ ہی وہ انسانی خدمت ہے جو نئے پاکستان کی بنیادوں کو مظبوط کرتی ہے ،قومی لٹیرے جانتے ہیں کہ عمران خان نے کامیاب ہوکر ان لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے کا وعدہ کیاتھا وہ قومی لوگ جو ملک وقوم کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹ کر دنیا بھر میں جائیدایں بناکر عیش وعشرت کی زندگیاں گزار رہے ہیں،ان سے قومی دولت واپس لانے کا بھی بھرپوربندوست ہونا چاہیے ،اس وقت یہ تمام قومی لٹیرے اپنی عبرت ناک شکست کے بعد خود کو احتساب سے بچانے کے لیے ایکا کیئے ہوئے ہیں ،گزشتہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جس انداز میں لوگوں کا استحصال ہواہے اس کا ازالہ اگر نہیں کیا گیا تو لوگ موجودہ حکومت کو بھی گزشتہ حکمرانوں کی طرح سمجھنے لگیں گے۔،گزشتہ حکمرانوں نے ہمیں الجھنوں اور قرضوں میں ڈوبا ہواپاکستان ورثے میں دیاہے آج یہ ملک اور اس میں بسنے والی قوم قومی خودانحصاری سے کوسوں دور ہوچکی ہے۔ دنیا بہت آگے نکل چکی ہے اور ہمارا ملک کرپٹ حکمرانوں کی وجہ سے مسلسل پیچھے کی طرف سفر کرتا رہاہے۔ آج اللہ پاک نے آپ کو آپ کی 22سالہ جدوجہد کا ثمر دیاہے۔
آج آپ اس ملک کی غریب عوام کے ووٹوں اوردعاﺅں کی وجہ سے وزیراعظم بن چکے ہیں آج آپ پر یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ اس ملک کی تقدیر بدل کر اسے بھی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل کردیں ۔ آج سابقہ حکمرانوں کے لالچ کی وجہ سے عالمی طاقتوں نے اپنے اداروں کے زریعے سے ہمارے ملک کی تمام تر پالیسیوں پر کنٹرول حاصل کیاہوا ہے ،عمران خان اگے بڑھیئے اور اٹھاکر اس ملک سے باہر پھینک دیئے۔ ان تمام سازشوں کو جو وطن عزیز کی دیواروں کو کھوکھلا کرتی رہی ہیں ،یہ قوم جانتی ہے کہ اس ملک کو استعماری طاقتوں سے صرف اور صرف آپ ہی نجات دلاسکتے ہیں۔ ،ہم جانتے ہیں کہ آپ وہ لیڈر نہیں ہیں جو دوسروں کے کہنے پر اپنی آنکھیں اور کان بند رکھتا ہے کیونکہ آپ ایک بہادر اور بے باک لیڈر ہیں جو ایک سول پوزیشن میں اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے لیے عذاب بنے رہے۔ لہٰذا بس ایک کام اور کردیں اس ملک کو خود مختاربنادیں اس ملک کو بھی دنیاکے ممالک کے ترقی یافتہ ممالک میں شامل کردیں جہاں کے عوام بھوکی نہیں مرتے جہاں غربت زدہ مائیں اپنے بچوں کے ساتھ خودکشیاں نہیں کرتیںجہاں اساتذہ کو اپنے مسائل کے حل کے لیے سڑکوں پر نہیں نکلنا پڑتا۔جہاں ڈاکٹروں اورنرسوں کو اپنے معاملات کے حل کے لیے سڑکیں بلاک نہیں کرنا پڑتیں۔