counter easy hit

اسلامی یونیورسٹی میں طلبا کی تذلیل و تحقیر

Students Protest

Students Protest

تحریر : عتیق الرحمن
معاشرے کی ترقی کے پیچھے نسل نو کا اہم کردار پنہاں ہوتاہے نوجوان نسل کی درست نہج پر تعلیم و تربیت ضروری ہوتی ہے ۔اس فریضہ میں معمولی سی کوتاہی و کاہلی صدیوں تک تاریک و بد نتائج کا اثر چھوڑجاتی ہے۔طلبہ ایک ایسی نازک کلی کی مانند ہوتے ہیں جسے ذرا سی بے احتیاطی ہونے سے ضائع ہوجاناامر واقع ہے۔اس لیے ان کو سنبھال سنبھال کر اور احتیاط کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کرنا ازحد ضروری ہوجاتاہے اس میں نہ تو شدت و سختی کے اختیار کرنے کی حاجت ہوتی ہے کہ اگر اس کو آزادی میسر آجائے تو اس میں جرائم کو قبول کرنے کی رغبت تیزی کے ساتھ پیدا ہوجائے یا پھر وہ ڈر و خوف کے سبب اپنے اندر موجود عطیہ الٰہی کی پوشیدہ صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے احتراز کرے۔اسی طرح طلبہ کو شطر بے مہار کی طرح، مادر پدر کی آزادی مہیا کرنا بھی کسی صورت مناسب و درست نہیں بلکہ مضر و نقصان دہ ہے۔یہ افراط و تفریط کے معاملے کا برتائو ہم اپنے معاشرہ میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں ۔لازمی بات ہے کہ والدین ،اساتذہ اور تعلیمی ادارے نوجوان نسل کی تعلیم وتربیت میں اعتدال کے اصول پر گامزن ہوں۔ میں اپنی گذشتہ تحریر میں اسلامی یونیورسٹی میں پنپنے اور دن بدن پھیلتی خرابیوں اور بے اعتدالیوں کی نشاندہی کی تھی اور ساتھ میں یہ بھی درج کیا تھا کہ میں آئندہ ان امراض میں سے ایک ایک پر مستقل الگ مضمون میں بات کروں گا ۔اس سلسلہ میں پہلے اور سب سے اہم مسئلہ پر آج کی نشست میں بات کرنی ہے۔تعلیمی ادارہ چونکہ نوجوان نسل کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار اداکرتے ہیں اور یہ نوجوان اپنی باقیہ زندگی میں اس مرحلہ میں گذرے ہوئے لمحات و تجربات سے استفادہ کرتارہتاہے۔اگراس مرحلہ تعلیمی میں اس کو اچھے اساتذہ ،اچھے دوست ،بااخلاق و حسن معاملہ سے پیش آنے والے احباب میسر آجائیں تو اس کی بقیہ زندگی روشن و تابناک ہوتی ہے ۔اگر اس مرحلہ میں بداخلاق اساتذہ،کرپٹ و بددیانت افراد اوربرے دوست مل جائیں تو یقینا ناصرف اس نوجوان کی زندگی تاریک ہوجاتی ہے بلکہ وہ معاشرے میں خرابیوں، بیماریوں اور فساد فی الرض کوفروغ دینے کا موجب بن جاتاہے۔

بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ایک ایسامنفرد و مایہ ناز تعلیمی ادارہ ہے کہ جس کے نام سے ہی اس کی اہمیت و افادیت اور اس کے منہج و مقصد کی وضاحت ہو جاتی ہے۔اس امر میں کوئی دورائے نہیں کہ جب انسانی معاشرہ اپنی فطرتی اساس و پاکیزگی سے روگردانی اختیار کرلیاور اس میں اللہ کا ڈر و خوف جاتا رہے تو اس کی بری حرکات و جرائم کشش و اثر سے کوئی بھی معاشرے کا فرد اور ادارہ محفوظ نہیں رہ سکتا۔البتہ اس بات سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتاہے کہ ان خرابیوں و بیماریوں کو دور کرنے کا فریضہ معاشرہ کے اہل علم و عمل اور اہل حل و عقد پر لازم ہوجاتاہے ۔ایسے میں وہ ادارہ جو خالص اسلامی نظریہ پر قائم ہواہو تو اس پ رپہلے مرحلہ میں ضروری ہوجاتاہے کہ وہ انسانی معاشرے میں نیکی کے فروغ اور اس کو رواج دینے میں اپنا قائدانہ کردار اداکرے۔مگر ماتم کیا جائے اس امر پر یا کیا کہا جائے کہ اگر وہی ادارہ بجائے اس کے کہ اس برے معاشرے کو درست کرنے کی بجائے بذات خود اس میں اضافہ کرنے کے جرم میں شریک ہوجائے …………؟اختصار شدید کے ساتھ یہاں وہ امراض ذکر کرتاہوں جن کا سامنا اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کو مسلسل کرنا پڑرہاہے اور جس کے سبب اس معاشرہ سے قائد و رہبر تیار ہونے کی بجائے مادہ پرست اور ہوس پرست افراد تیار ہورہے ہیں اور وہی نوجوان معاشرہ کو مزید گندگی کا ڈھیر بنانے میں اپنا برابر حصہ لے رہے ہیں۔

اسلامی یونیورسٹی میں طلبہ کو جو مسائل درپیش ہیں اور جس طریقہ سے ان کی تذلیل و تحقیر کی جاتی ہے اس کو تفصیل کے ساتھ الگ الگ ذکر کرنا مشکل ہے مختصر اتنا کہا جاسکتاہے کہ صدر جامعہ سے لے کر نائب قاصد تک کے تمام انتظامی و تعلیمی مناصب پر فائز احباب طلبہ کی تذلیل و تحقیر کرنا اپنا فریضہ یا اپنے منصب کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔صدر جامعہ نے طلبہ اور اپنے مابین شیش محل تعمیر کرکے دوریاں ہی پیدا نہیں کی ہوئی بلکہ جس راستہ میں یا جس مقام پر صدر جامعہ نے بیٹھنا ہو یا گذرنا ہووہاں سے طلبا کو گذرنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی ۔صدر جامعہ اور طلبا کے راستے جدادجدا ہیں جیسے یہ ایک دوسرے کے حریف ہوں۔صدر جامعہ سے ملاقات کرنا اور اپنے مسائل و ضروریات سے آگاہ کرنے کا وقت لینا تو محال ہے ہی۔عجب بات ہے کہ ایک ادارے میں بسنے والے افراد ایک خاندان کی مثل ہیں ان کے مابین کسی طرح کا بھی حجاب ناممکن ہوتاہے مگر یہ معاملہ اسلامی یونیورسٹی میں آپس کی محبت کی بجائے مومن کے مابین نفرت کا مظہر پیش کرتاہے۔ امتحان سیکشن و فنانس سیکشن میں موجود بڑے و چھوٹے سبھی طلبہ سے بداخلاقی و بدتہذیبی،استہزاء کا رویہ اختیار کرنا اور طلبہ کو نظر حقارت سے دیکھنااپنا فرض منصبی گردانتے ہیں جبکہ خود اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ دفتری اوقات میں فیس بک کا استعمال ،اخبارات کا مطالعہ ،اور میٹنگ و کھانے کے نام پر طلبہ کو گھنٹوں انتظار میں ذلیل کرتے ہیں اور جب اپنی کرسی پر پہنچ جائیں تو سب و شتم اور طلبہ پر الزامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔جب کہ ان بندگان ِ خدا کو اتنا بھی لحاظ و خیال نہیں ہوتاکہ اگر طلبہ اس ادارے میں موجود ہیں توہی ان کویہ رزق بھی مل رہاہے۔اساتذہ کی صورت حال کا تو حال ہی نہ پوچھا جائے کہ یا تو وہ مضبوط سفارش پر وزیٹنگ مقرر ہوتے ہیں اور ایسے میں من پسند طلبہ یا سفارشی طلبہ کو نوازناوہ اپنا فرض منصبی جانتے ہیںجبکہ تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی بجائے طلبہ کے ساتھ لہو لعب قسم کا مذاق کرکے ان کا قیمتی وقت برباد کرتے ہیں یا پھر ان کو خبریں پڑھاتے ہیں یا طلبہ کو رٹا سسٹم سے متعارف کرواتے ہیں کہ جو ہم نے آپ کو نوٹس و لیکچر دیا من و عن اسی میں سے اور اسی طرح امتحان آئے گا اپنے دماغ کو استعمال کرنے کی چنداں حاجت نہیںاور غیر تخلیقی اسائمنٹس دیکر طلبہ کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کرتے ہیں۔

دوسری جانب مستقل اساتذہ کی تو چاندنی ہے کیوں کہ ان پر تو کوئی دست سوال کرنے کی ہمت نہیں کرسکتاوہ چاہیں تو لڑکوں کو پاس کریں ،وہ چاہیں تو لڑکوں کو فیل کریں ،وہ چاہیں تو کلاسز لیں وہ چاہیں تو کلاسز نہ لیں ،وہ چاہیں تو امتحانات کے پیپر طلبہ سے چیک کروائیں ،وہ چاہیں تو یکمشت باصلاحیت طلبہ کو زیر کردیں اور چاہیں تو نکمے و نکٹھو اور وقت پاس کرنے والے کو اقبال پر پہنچائیں۔اور میٹنگ و معمولی مصروفیات کا بہانہ تو معمول ہے ہیواضح رہے جو خرابیاں وزیٹر اساتذہ کی درج کی گئی ہیں ان میں سے متعدد من و عن بلکہ اس سے زیادہ مستقل اساتذہ میں بھی موجود ہوتی ہیں۔یہاںایک اہم بات کرنا ضروری سمجھتاہوں کہ ہمارے یہاں اساتذہ ایسے بھی ہیں جو چند ہزار کی خاطر خیانت علمی کا ارتکاب سے گریز نہیں کرتے۔لیکن ان معزز و مکرم حضرات کو نہ تو اخلاقیات کا پاس ہے اور نہ ہی روز محشر خوف کہ وہ لوگ جو مال یونیورسٹی سے طلبہ کو تعلیم دینے کے نام پر حاصل کررہے ہیں وہ اس صورت میں سوفیصد حرام ہے اگر وہ اپنے فرض میں ذرابھر بھی کوتاہی کررہے ہیں۔ مزید کچھ خامیوں کا ذکر” اسلامی یونیورسٹی میں تربیتی شعبہ کی کمزوری ”سے متعلق مضمون میں درج کی جائیں گی۔ مرکزی و فیکلٹی کی لائبریریز کی صورتحال بھی مخدوش ہے اس میں مامور افراد چائے پینے ،ٹیلی فون پر طویل گپ شپ سے فارغ ہی نہیں ہوتے کہ وہ لائبریری میں موجود کتب اور مقالوں کو بالترتیب رکھ سکیں۔ایک کتاب بھی تلاش کرنے کے لیے طلبہ گھنٹوں ذلیل ہوتے ہیں۔یہاں ایک اور امر کی طرف اشارہ دینا بھی ضروری سمجھتاہوں کہ یونیورسٹی میں جو کام ایک یا دوفرد باآسانی سرانجام دے سکتے ہیں اس کی جگہ ڈبل ڈبل افراد تعینات ہیں اور کام کے وقت کوئی ایک بھی یا تیار نہیں ہوتایا میرے دائرے کا کام نہیں کا بہانہ بناکرکام چوری کرتے ہیں اور ظلم پر ظلم تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے متعدد ملازمین دفتری اوقات میں اپنا پرائیویٹ کام کرتے نظر آتے ہیں یا پھر کرکٹ میچ،فیس بک ،یا گیمز کھیلنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔

تعلیمی بلاکس ،ہاسٹل کی کمی اور جامع مسجد کی عدم تعمیر کے پارے میں متعدد بار راقم بھی لکھ چکا ہے اور یونیورسٹی میں طلبہ بھی احتجاج و مظاہرے کے ذریعہ مطالبہ کرچکے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ جب کسی انسان کو اللہ رب العزت کی قادر و قہار ذات کا خوف نہ ہو تو ایک اخبار میں چھپنے والے کالم یا طلبہ کے احتجاج سے کوئی فرق نہیں پڑتاکیوں کہ ان کے دلوں اور ضمیروں پر تالے پڑچکے ہیں وہ نہیں کھل سکتے تاوقتیکہ کوئی غیبی معجزہ ظاہر نہ ہویا رب کریم کی جانب سے عقاب الیم نازل ہوجائے تو ہی بہتری آسکتی ہے۔تعلیمی بلاکس کی مستقل ضرورت ہے کیوں کہ کلاس روم کی عدم دستیابی کے باعث اساتذہ کلاسز اپنے دفتروں یا پھر مسجدمیں لینے پر مجبور ہیں اور یونیورسٹی میں موجود ٩ فیکلٹیوں کے ٤٠ کے قریب شعبہ جات کی مستقل لائبریاں عدم دستیاب یا ناکافی ہیںجن کی اشد حاجت ہے کہ ہرشعبہ کی اپنی لائبریری ہونی چاہیے اور اس میں اس شعبہ سے متعلق بہتر تنظیم کے ساتھ کتب موجود ہوں۔ ہاسٹل کا مسئلہ تو ایک مستقل مسئلہ ہے ہی کہ داخلے دینے میں تو کوئی دیر نہیں کی جاتی چونکہ اس کے ذریعہ سے بھاری بھر کم فیسوں کی مد میںمال و دولت جمع ہوتی ہے جس سے انتظامیہ کو جائز و ناجائز تصرف کا کھولا موقع میسر آجاتاہے۔جبکہ طلبا کو ہاسٹل کی سہولت فراہم کرنے میں ہمیشہ مترددرہتے ہیں اور دوسری جانب ظلم یہ ہے کہ سیاسی و غیرسیاسی ذرائع سے سفارش،طلبہ تنظیمو ں کے اثر و رسوخ سے سیٹوں کی دستیابی و منتقلی آسان ہوجاتی ہے۔بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز سیٹوں کی فروخت ذریعہ معاش و تجارت بن چکا ہے اور اگر یہ اس حد تک محدود رہے کہ اس سے یونیورسٹی کے طلبہ مستفید ہوسکیں تو عجب نہیں مگر یہاں تو خارجی عناصر زیادہ مستفید ہوتے نظر آتے رہتے ہیں۔کھلی بات ہے کہ جو طالب علم اپنی سیٹ فروخت کررہاہے اس کو اس کی حاجت ہی نہیں ہے اور وہ مستحق طلبہ کے حقوق کو غصب کیے ہوئے ہے ایسے عناصر سے گلو خلاصی کے لیے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔بس اس سلسلہ میں بعض طلبہ گروپس اور طاقتور انتظامیہ کے لوگ روکاوٹ بنے نظر آتے ہیں ۔ہاسٹل پروسٹ کا عہدہ اعزازی طور پر دیاجاتاہے ،بلکہ صرف یہ عہدہ نہیں بلکہ متعدد مناصب پر فائز اصحاب اقتدار عناصر اعزازی ہیں اس میں دو امر ہیں اول یا تو یہ کٹھ پتلی و کمزور اور کرسی کے خواہشمند ہیں اور صدر جامعہ اور دیگر کے مظالم پر ناصرف خاموش رہتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ برابر کے شریک بھی ہیںیا پھر واقعتاً مخلص مگر کام تو کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ وہ کچھ بہتر کرنے سے عاجز ہیں تو ایسے افراد کے نام یہی پیغام ہے کہ اقبال کے پیغام کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں :
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

معزز و مکرم حضرات ایسے عہدے و منصب سے ہزار بار توبہ کریں اور پناہ طلب کریں جو ان کو حق کو حق کہنے اور باطل کو باطل کہنے کی ہمت و جرأت چھین لے۔یہ اعزازی احباب کلاسز بھی لیتے ہیں اور دوسرے عہدوں پر بھی فرائض انجام دیتے ہیں ایسے میںنہ تو وہ طلبہ کو دیانت داری کے ساتھ صحیح تعلیم دے سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ان انتظامی عہدوں پر کماحقہ اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں ۔جبکہ طلبہ کا زیادہ تر وقت ان انتظامی عہدے دائروں کے گرد گھومنے اور ان کے دفتروں کے طواف کرنے میں گذرجاتاہے۔اسی سبب سے کوئی اچھا اور باصلاحیت قائد و رہبر یہ ادارہ پیدا نہیں کرسکا۔
مسائل تو اور بھی بہت ہیں اور قابل گرفت و ذکر بھی ہیں مگرآج کی تحریر کو اس وضاحت کے ساتھ اختتام تک پہنچاتاہوں کہ مندرجہ بالا جن خرابیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے اس میں کلام کو عام بیان کیا گیا ہے (جس سے یقیناً بعض شخصیات مخاطب ہیں،یہ حکم عام نہیں ہے)اس کی وجہ سوا اس کے نہیں ہے کہ راقم کسی شخصیت یا اشخاص کو محدد کرنے کو درست نہیں سمجھتا۔البتہ عام پیغام فکردیتاہے کہ ہمارے محترم تمام احباب جس قدر جس بھی خرابی میں مبتلا ہیں وہ اس کو ترک کردیں ،طلبہ کو اپنے بچوں کے مقام پر رکھیں ان کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی اچھی تربیت کا نیک نیتی کے ساتھ اہتمام کریں اور اس کا اجر ان کو طلبہ نہیں دے سکتے بلکہ رب ذوالجلال یوم حساب کو عنایت فرمائیں گے ۔اور اگر انہوں نے اپنے فرائض میں پہلو تہی کا سلسلہ روا رکھا تو ان کو مختلف شکلوں میں دنیا میں بھی ذلت آمیز مناظر کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اور یوم آخرت تو اللہ کریم جو عادل ذات ہے اور انسانیت کے حقوق کو غصب کرنے والوں کی ضرور گرفت کرے گا۔

Ateeq ur Rehman

Ateeq ur Rehman

تحریر : عتیق الرحمن
03135265617
atiqurrehman001@gmail.com