counter easy hit

صدام حسین کے 15 سال بعد کا عراق

صدام حسین کے بعد کے عراق کے متعلق یہ گواہی ابوعلی نامی ایک عراقی شہری نے فرانسیسی خبررساں ادارے کو دیے گئے انٹرویو کے دوران دی۔

Iraq's 15 years after Saddam Husseinخانہ جنگی میں جان سے جانے والے اپنے تین بیٹوں کی تصویر دیکھتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ صدام حسین کے جانے اور امریکیوں کی آمد کے بعد آنے والوں سالوں نے بدحالی کو جنم دیا ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ صدام کی آمریت سے نجات پانے والا عراق امریکا کی موجودگی میں بدترین تشدد کا شکار ہوا ہے۔ امریکی قدم عراقی سرزمین پر پڑنے کے بعد کے حالات کو یاد کرتے ہوئے ابوعلی کہتے ہیں کہ فرقہ ورانہ کشیدگی، متحارب گروپوں کے حملوں نے خاندانوں کو تقسیم کیا، ہزاروں انسانوں کو موت کے سپرد کیا اور معیشت کو لڑکھڑاہٹ کا شکار کر دیا۔

جولائی 2007 میں پہلے بیٹے سے محروم ہونے والے ابوعلی کو 2013 میں اپنے 23 اور 17 سالہ بیٹوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے جو ایک حملے کے دوران زندگی سے محروم کر دیے گئے۔ 61 سالہ ابوعلی پر بیتنے والے ناقابل بیان لمحات ان کے چہرے پر موجود جھریوں میں صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٹیکسی چلا کر اپنے بچوں کو خود سے بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کی خواہش رکھنے والے ابوعلی اب اپنی اولاد کے لئے صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ قبرستان جا کر بیٹوں کی قبروں پر فاتحہ پڑھ لیں۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ ہر ہفتے بچوں کی قبروں پر جاتے ہیں، جہاں وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے تینوں بیٹے ان کے پاس بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صورتحال خراب ہے، کسی کو سامنے لائی گئی قیادت میں شامل 65 سالہ کرد سیاستدان محمد عثمان نے تسلیم کیا کہ امریکا صرف صدام کو ہٹانا چاہتا تھا، اس کے پاس صدام کے بعد کے عراق کے لئے کوئی ایجنڈہ نہیں تھا۔ 18 برس کی عمر سے کرد پشمیرگا فائٹر کے طور پر فعال عثمان کا کہنا تھا کہ صدام کو ہٹائے جانے سے جو امیدیں وابستہ تھیں وہ ایک روشن مستقبل کے متعلق تھیں۔ امریکی قبضے کے بعد صدام حسین کی بعث پارٹی ختم کی گئی، جلاوطن اپوزیشن واپس لائی گئی، ریاستی ادارے ختم ہو گئے لیکن فرقہ ورانہ کشیدگی اور بدترین بدعنوانی نے معاشرے پر قبضہ کر لیا۔ کرد اپوزیشن جماعت غوران کے سربراہ رؤف معروف کا ماننا ہے کہ ہم وفاقی اور جمہوری نظام کی توقع کر رہے تھے لیکن فرقہ پرستی اور شاؤنزم نے تسلط جما لیا۔ عراق میں امریکی قدم پڑنے کے بعد ملکی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے چیلڈین کیتھولک لوئس رافیل ساکو کا کہنا تھا کہ عوام ایک کے بعد ایک بحران کا شکار ہے۔ صدام حسین کا تختہ الٹنے کے لئے امریکی و اتحادی حملے کے وقت جواز پیش کیا گیا تھا کہ عراقی آمر کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کیمیائی ہتھیار ہیں، یہ ہتھیار آج تک کسی کو نہ مل سکے، البتہ وسائل سے مالا مال ملک کو بدحالی کے جہنم میں پھینکنے والے امریکا و برطانیہ تسلیم کررہے ہیں کہ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کا وجود ہی نہیں تھا۔