counter easy hit

عراق: انتخابات میں مقتدیٰ الصدر کے سیاسی اتحاد کی واضح برتری

بغداد: عراق میں ہونے والے انتخابات کے نتائج میں عراق میں امریکا کی موجودگی کے سب سے بڑے مخالف اور امریکی افواج کے خلاف لڑنے والی ملیشیا کے سابق سربراہ مقتدیٰ الصدر کی جماعت ’استقامہ‘، عراق کی کمیونسٹ پارٹی اور دیگر 5 سیکولر نظریات کی حامل جماعتوں پر مشتمل ’سائرون‘ نامی انتخابی اتحاد نے انتخابات میں واضح برتری حاصل کر کے سب کو حیران کردیا۔

عراق کے 18 میں سے 16 صوبوں میں ووٹوں کی گنتی کے بعد ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا ہادی العامری کا ’فتح‘ نامی اتحاد دوسرے جبکہ موجودہ وزیراعظم کی حیدرالعابدی کا ’نصر‘ نامی Iraq: A clear edge of the political alliance of Mashdi-e-Sadr in the electionsIraq: A clear edge of the political alliance of Mashdi-e-Sadr in the electionsانتخابی اتحاد تیسرے نمبر پر رہا، بقیہ 2 صوبوں کردش ڈوہک اور کرکُک میں مقدیٰ الصدر نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تاہم اس سے ان کی کامیابی پر اثر نہیں پڑے گا۔

برطانوی نشریاتی ادارے  کے مطابق مقتدیٰ الصدر 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد متحرک نظر آئے اور مسلسل امریکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے ان کے عسکری گروپ مہدی ملیشیا نے دو مرتبہ امریکی افواج کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے کارروائی بھی کی، جس پر 2006 اور 2007 میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہزاروں افراد کے قتل کا بھی الزام ہے۔

عراقی حکومت کے جانب سے مقتدیٰ الصدر کی اہل تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی مہدی ملیشیا کے مبینہ طور پر سنی افراد کے قتل میں ملوث ہونے پر کریک ڈاؤن کے بعد مقتدیٰ الصدر ایران فرار ہوگئے اور 2011 تک وہاں مقیم رہے، تاہم حالیہ سالوں میں انہوں نے ایران سے دوری اختیار کر کے اپنے آپ کو بحیثیت عراقی قوم پرست اور بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے والے رہنما کے طور پر پیش کیا۔

امریکی اخبار  کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کے عراق پر قبضے کے خلاف مہدی ملیشیا کی عسکری کارروائیوں کے پیش نظر سابق امریکی صدر جارج بش، مقتدیٰ الصدر کو دشمن قرار دے چکے ہیں اور امریکی فوج کے ہاتھوں ان کے قتل پر بھی متعدد مرتبہ غور کیا گیا۔

اس کے علاوہ ان کے عسکری گروپ کے جنگجووں نے عراق میں داعش کے خلاف کارروائیوں میں بھرپور حصہ لیا اور ان میں سے کئی جنگجو اب باقاعدہ طور پر عراقی فوج کا حصہ ہیں۔

یہ خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان کے اتحاد کی کامیابی سے امریکا کی عراق کے بارے میں حکمت عملی میں تبدیلی آسکتی ہے تاہم ابھی امریکی حکام اس حوالے سے پریشان نہیں لیکن غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

تاہم اب ان کے موقف میں خاصی تبدیلی آچکی ہے اور ان کے ترجمان کی جانب سے دیئے گئے بیان میں کہا گیا کہ وہ امریکی افواج کی جانب سے عراقی فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے کے معاہدے کی پاسدرای کریں گے، اس کے علاوہ گزشتہ برس جولائی میں انہوں نے سعودی عرب کا دورہ کر کے ولی عہد سے بھی ملاقات کی تھی۔

اس سے قبل مقتدیٰ الصدر ایک سخت گیر موقف رکھنے والے مذہبی رہنما کے طور پر مشہور تھے، جب کے مغربی ذرائع ابلاغ بھی انہیں بنیاد پرست رہنما قرار دے چکے تھے۔

علاوہ ازیں ان کے اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں بھی امریکی افواج کے ساتھ لڑائی میں شامل رہیں، تاہم اب وہ بھی عراق میں فوجی تربیت کی فراہمی کے سلسلے میں امریکی افواج کی عراق میں موجودگی کی حامی ہیں۔

دوسری  کی رپورٹ کے مطابق عراق میں داعش کے خاتمے کے بعد ہونے والے یہ پہلے عام انتخابات تھے جس میں ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 44.52 فیصد رہا، جو 2014 میں ہونے کے مقابلے میں 15 فیصد کم تھا۔

اب تک کے نتائج کے مطابق سائرون نے 13 لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کر کے پارلیمنٹ کی 329 میں سے 54 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ہے۔