counter easy hit

بھارتی مظالم نے کشمیریوں کو موت سے بے خوف کر دیا

اب یہ حقیقت آشکار ہو چکی ہے کہ نریندر مودی کی حکومت نے ، طاقت کے بل پر کشمیر میں حریت پسند تحریک کا قلع قمع کرنے کی جو حکمت عملی شروع کی تھی وہ کشمیر میں آزادی کے لئے لڑنے والے فرزندوں نے ناکام ثابت کر دی ہے۔

جولائی 2016 میں ہندوستانی فوج سے لڑتے ہوئے 22 سالہ برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر کے نوجوانوں میں آزادی کی جوایک نئی تڑپ پیدا ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں نوجوان جوق در جوق مسلح جدوجہد میں شریک ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کا میڈیا یہ اعتراف کرتا ہے کہ پچھلے دو برس میں کشمیر میں مسلح جدوجہد میں شامل ہونے والے نوجوانوں کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ ہندوستانی فوج کے لئے سب سے زیادہ پریشان کن تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ فوج جب کشمیری نوجوانوں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارتی ہے تو چھوٹی چھوٹی لڑکیاں ان پر پتھرائو کرکے مزاحمت کرتی ہیں۔

گذشتہ سال نریندر مودی نے قوت بازو سے کشمیر میں حریت پسندوں کا قلع قمع کرنے کی حکمت عملی کے ساتھ ہندوستان اور ہندوستان کی فوج کے خلاف مزاحمت کا محاصرہ توڑنے کے لئے، انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو ہندوستان کے حکومت کے خاص نمائندے کی حیثیت سے کشمیر بھیجا تھا۔ دنیشور شرما، ۲۵ سال پہلے سری نگر میں تعینات رہ چکے ہیں۔ ایک سال گذرنے کے بعد بھی کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ دنیشور شرما حریت پسندوں سے سلسلہ جنبانی میں کہاں تک کامیاب رہے ہیں۔ کسی کو یہ بھی علم نہیں کہ ان کے کیا اختیارات ہیں اور ان کے مشن کے لئے وقت کی قید ہے یا نہیں۔ ایسا جان پڑتا ہے کہ کشمیر میں موجودہ حالات میں وہ محض اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔

بھارتیا جنتا پارٹی کے سابق وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ یشونت سنہا نے جو پچھلے ایک عرصہ سے وادی کشمیر کے دورے کرتے رہے ہیں، صاف صاف اعتراف کیا ہے کہ ”ہم نے جذباتی طور سے وادی کشمیر کو کھودیا ہے”۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے حالات دیکھتے ہوئے اس بات کا شدید احساس ہوتا ہے کہ ہم نے کشمیر گنوا دیا ہے اور کشمیریوں کا بھی ہم پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔

یشونت سنہا، CCG نامی گروپ کے سربراہ ہیں جسے کشمیر کی صورت حال پر تشویش ہے اور ایک دائمی حل تلاش کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس گروپ میں ریٹائرڈ جسٹس، اے آر شاہ، بمبئی پولس کے سابق کمشنر ریبیریا، وجاہت حبیب اللہ، RAW کے سابق سربراہ اے ایس دولت، ارونا رائے اور رام چندر گویا شامل ہیں۔ یشونت سنہا کی قیادت میں اس گروپ نے متعد د بار کشمیر کے دورے کئے ہیں۔

یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورت حال سے وزیر اعظم مودی کو باخبر کرنے کے لئے ان سے ملاقات کا وقت مانگا تھا لیکن دس مہینے گذرنے کے بعد بھی کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نریندر مودی آنکھوں پر پٹی باندھ کر فوجی قوت کے بل پر کشمیر میں حریت پسند تحریک کا قلع قمع کرنے کی حکمت عملی پر کار بند رہنا چاہتے ہیں۔

اس وقت کشمیر میں عوام کے موڈ کے بارے میں سابق وزیر خارجہ یشونت سنہا نے، ممتاز صحافی کرن تھاپر کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ شوپیاں میں جو حریت پسندوں کا گڑھ ہے، جب وہ لوگوں سے بات چیت کر رہے تھے تو ایک نوجوں نے کہا کہ وہ خاص طور پر آپ کو یہ بتانے آیا ہوں کہ ہم حکومت ہندوستان کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے اپنے ظلم و ستم سے ہمارے دلوں سے موت کا خوف نکال دیا ہے اور اب ہم آزادی کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لئے ہر لمحہ تیار ہیں۔

یشونت سنہا کا کہنا تھا کہ کشمیر میں ہندوستان کی فوجوں کے خلاف لڑنے کے لئے نوجوانوں کی کوئی کمی نہیں ہے، کمی اسلحہ کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک گائوں میں جہاں صرف تین کلاشنکوف بندوقیں تھیں، ہندوستانی فوج سے لڑنے اور شہید ہونے والوں کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ بندوقوں کے لئے لاٹری نکالی گئی اور جن تین نوجوانوں کو یہ بندوقیں ملیں، ان کو گائوں والوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھا کر جلوس نکالا کہ یہ شہید ہونے جا رہے ہیں۔

یشونت سنہا نے اعتراف کیا کہ مودی حکومت کی فوجی قوت کے بل پر کارروائی کی پالیسی کی وجہ سے صورت حال اور خراب ہوئی ہے اور کشمیریوں میں علاحدگی پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رمضان کے دوران فوجی کارروائی معطل کرنے کی تجویز بھی تضادات کا شکار ہوگئی ہے۔ کشمیر کی وادی میں محبوبہ مفتی کی جماعت پی ڈی پی نے اس تجویز کی حمایت کی تھی لیکن جموں میں بھارتیا جنتا پارٹی نے اس کو رد کر دیا کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ یہ اقدام فوجی قوت کے بل پر مبنی پالیسی کے بر خلاف ہوگا۔

یشونت سنہا کا کہنا ہے کہ اس وقت پی ڈی پی اور بھارتیا جنتا پارٹی کی مخلوط حکومت کی وجہ سے، کشمیر دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ وادی میں محبوبہ مفتی کی جماعت ہے جو وادی کے عوام کے مفادات کے تحفظ کی دعویٰ دار ہے، جموں میں بھارتیا جنتا پارٹی ہندووں کی نمائندگی کا دعوی کرتی ہے۔ ان کے خیال میں یہ تضاد کشمیر کے لئے بے حد خطرناک ہے کیونکہ اس سے کشمیر کے دائمی حل کی راہ میں زبردست رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔