counter easy hit

غریب ہوں تو مار ہی ڈالو گے ?

Mian Naseer Ahmad

Mian Naseer Ahmad

ملک پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا اس لیے اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اسلام ہمیں سیکھاتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں مگر یہ بڑی غور طلب بات ہے کہ پاکستان میں غریبوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا انہیں عزت اور قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور بہت سے لوگ تو ان کے پاس بیٹھنا تک پسند نہیں کرتے یہاں تک کے اس کے اپنے رشتے دار بھی اس سے منہ موڑ لیتے ہیں اور غریب بچارے کو دو وقت کے روٹی تلاش کر نے کے لیے در بدر کی ٹھوکر یں کھانی پڑتی ہیں اسے سارا دن کام کرنے کے بدلے جو دو چار سو روپے ملتے ہیں جس سے اس کے بچوں کی دو وقت کی روٹی سکول کے اخراجات اور پہنے کے لیے کپڑے نہیں آتے اور مہنگائی نے تو ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے اور بہت سے مزدور تو دن بھر اسی انتظار میں ہی رہتے ہیں کہ کوئی انہیں بھی کام کروانے کے لیے ساتھ لے جائے

مگر شام کو انہیں مایوس ہی لوٹنا پڑتا ہے بچے گھر میں بھوکے اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ شام کو ہمارے ابا جان ہمارے لیے کھانے کو لے کر آئیں گے اور جب وہ اپنے ابا جان کو خالی ہاتھ دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسو آجانے ہیں توبچوں کوایسی حالت دیکھ کر باپ کا دل بھی خون کے آنسو روتا ہے ہر باپ کا خواب ہوتا ہے کہ اس کے بچے اچھے سکول میں تعلیم حاصل کریں اچھے سے اچھا کپڑا پہنے اور اچھے سے اچھے کھانے کھائیں اور اس خواب کو پورا کرنے کے لیے وہ ہر طرح کی محنت مزدوری کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے جب اسے جائز طریقہ سے روزی نہیں ملتی تو وہ خود کشی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ہر سال ہزاروں مزدور خود کشی کر چکے ہیں یا پھرنا جائز طریقہ سے روزی کمانے کے راستے تلاش کرنے میں لگ جاتے ہیں

دوسروں کی جان لینا انہیں کے نزدیک مشکل نہیں رہتا ناجائز طریقہ سے روزی کمانے پر ہمارے ملک کا قانون اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتا ہے چونکہ اس کے پاس ضمانت کروانے کے لیے کثیر رقم اور سفارش نہیں ہوتی اس لیے اسے کئی کئی سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار نے پڑتے ہیں اور اس کے بچے باہر بھوک و پیاس کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں یا پھر وہ بھی ناجائز طریقہ سے روزی کمانا شروع کر دیتے ہیں ،

جبکہ دوسری طرف ہمارے امیر لوگوں کے شاہی گھرانے جن کی دسترخوانوں پر اتنی قسم کے کھانے سجے ہوتے ہیں جن کو غریبوں کے بچوں نے کبھی دیکھا بھی نہیں ہوتا اور ان کے دسترخوانوں پر اتنا کھانا بچ جاتا ہے کہ جس سے کئی غریب گھروں کے بچوں کا پیٹ بھر سکتا ہے ان کے بچوں کے پاس اتنے کپڑے ہوتے ہیں کہ جو ایک دفعہ پہن لیا اسے دوبارا پہنانا گوارہ نہیں کرتے ان کے بچوں کے پاس اتنے کھلونے ہوتے ہیں جن سے انہوں نے کبھی کھیلا بھی نہیں ہو گا ان کے پاس اتنی گاڑیاں ہوتی ہیں جن میں وہ کبھی بیٹھے بھی نہیں ہو ں گے اور اگر کوئی غریب ان سے دو وقت کی روٹی مانگ لے تو ان کی طرف سے اسے انکار کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور ہمارے ملک کے حکمران جو بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ووٹ مانگتے وقت ان غریبوں سے بڑے بڑے وعدے بھی کرتے ہیں

جب غریب کئی دنوں کے چکر کاٹنے کے بعد ان کی دہلیز پر پہنچتے ہیں تو وہ ان سے ملنا تک گو ارہ نہیں کرتے اور انہیں زبردستی گھر سے نکال دیا جاتا ہے کیا غریب انسان نہیں ہیں اس کودنیا میں جینے کا کوئی حق نہیں ہے اس کا قصور یہ ہی ہے کہ وہ غریب پیدا ہوا۔
اللہ ہم سب کو ہدایت دے (امین)