counter easy hit

کس بھارت سے غیر مشروط مذاکرات

Nawaz Sharif and David Cameron

Nawaz Sharif and David Cameron

تحریر: علی عمران شاہین
دولت مشترکہ کے ممالک کی کانفرنس کے موقع پر پاکستانی وزیراعظم جناب نواز شریف نے برطانوی ہم منصب ڈیوڈ کیمرون سے ملاقات میں حیران کن بیان دے ڈالا۔ نوازشریف کا کہنا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ غیر مشروط طور پر مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ برطانیہ ہمارا بہترین اتحادی اور قدیم تعلقات کا حامل ملک ہے۔

وزیراعظم نوازشریف کے اس بیان کے اگلے روز بھارتی اردو اخبارات نے جو سرخی جمائی وہ کچھ یوں تھی: (2ماہ میں نواز ”شریف”) یعنی وہی پاکستانی وزیراعظم دو ماہ پہلے کہہ رہے تھے کہ کشمیر کے بغیر بھارت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات سرے سے ممکن ہی نہیں، اب وہ بغیر کسی پیشگی شرط کے مذاکرات کے لئے بے تاب ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم کے اس بیان نے ہر محب وطن حلقے اور شہری کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا کہ ہمیں آخر ایسی کون سی مجبوری اس وقت آڑے آئی ہوئی ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ بغیر کسی وجہ کے یک طرفہ طور پر مذاکرات کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔

قیام پاکستان اور اس کے بعد کی 68سالہ تاریخ کو تو چھوڑیے، بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات و معاملات کی اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ بھارت ہمیںدنیا میں یکہ و تنہا کر کے مارنے کے لئے ایک بار پھر اپنی ساری صلاحیتیںصرف کر رہا ہے۔ جس روز پاکستانی وزیراعظم نے غیر مشروط مذاکرات کا بیان دیا، اسی روز خبر تھی کہ بھارت نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط کو بھارتی مصنف کی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں جانے سے روک دیا اور حد تو یہ ہوئی کہ تقریب سے روکے جانے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی۔

پاکستانی وزیراعظم کے اس بیان کے بعد بھارتی میڈیا میں اس وقت تبصرے ہو رہے ہیں کہ کیا یہ وہی پاکستانی وزیراعظم ہیں کہ جنہوں نے 2ماہ پہلے اقوام متحدہ میں کھڑے ہو کر اپنی تقریر میں بھارت کے ساتھ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو اولین شرط قرار دیا تھا ۔جناب نوازشریف کے اس خطاب کے بعد نظر آ رہا تھا کہ مسئلہ کشمیر اور دیگر بنیادی مسائل اب بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد ہوں گے لیکن مالٹا میں دولت مشترکہ کے اجلاس کے موقع پر اس تازہ بیان نے تو نئی اور پریشان کن صورت حال کو جنم دے دیا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی وزیراعظم نے جس مسئلہ کشمیر کو بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد قرار دیا تھا، وہ کشمیرآزادی کیلئے جہنم زار صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ کشمیری قوم کے جوان ہی نہیں بچے اور عورتیں بھی بھارتی فوج کی گولیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہر روز کتنے کشمیری آزادی ور پاکستان سے الحاق کی آرزو میں جانوں کی بازی لگا رہے ہیں۔ یہ کشمیری ہر روز پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لے کر سینہ تانے بھارتی فوج کی توپوں اور بندوقوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور لہو میں نہا جاتے ہیں۔ بھارتی فورسز روزانہ کتنے گھروں پر چھاپے مار کر کتنے معصوم بچے اٹھا کر لے جاتی ہیں اور پھر انہیں ہمیشہ کیلئے عقوبت خانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

ہم بھارت کے ساتھ دوستی، مذاکرات و تجارت بے شک کریںلیکن ہمیں اس سے پہلے کشمیری قوم کے جذبات کو سامنے رکھنا ہو گا جن کا مقدمہ وزیراعظم نوازشریف عموماً دنیا کے سامنے پیش کرتے رہتے ہیں۔ ہم کون سے بھارت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کیلئے بے چین ہیں۔ وہی بھارت کہ جو ہمیں عالمی سطح پر دہشت گرد ریاست قرار دلوانے کیلئے سال رواں میں اقوام متحدہ سمیت کئی فورمز پر اپنا پورا زور لگا چکا ہے۔ معزز محترم پاکستانی شہری مولانا ذکی الرحمن لکھوی کو جب پاکستانی عدالتوں نے سات سال کی طویل چھان پھٹک کے بعد باعزت رہا کیا تو یہ بھارت ہی تھا جس نے امریکہ سمیت سلامتی کونسل کے سارے ملکوں کو اپنے ساتھ ملا کر وہاں قرارداد پیش کر ڈالی تھی کہ پاکستان کو عالمی دہشت گرد ریاست قرار دیا جائے۔ وہاں صرف چین ہی ایسا ملک تھا جس نے اس قرارداد کو ویٹو کر کے ہمیں اس سب سے بڑے امتحان اور مشکل مرحلے سے باہر نکالا تھا۔

ہم ذرا سوچیں تو سہی کہ اگر اس موقع پر چین ہماری مدد کیلئے نہ آتا اور وہ اپنی عمومی عالمی پالیسی کے تحت غیر جانبدار رہتا اور سلامتی کونسل ہمیں عالمی دہشت گرد ریاست قرار دے چکی ہوتی تو اس وقت ہماری اور ہمارے ملک کی حالت کیا ہوتی؟ بھارت نے تو ہم پر اتنا بڑا حملہ کیا تھا کہ جو سقوط ڈھاکہ سے کسی طور بھی کم نہیں تھا لیکن وائے افسوس کہ ہمارے ہاں تو اتنے بڑے حملے کو کسی نے کہیں زیربحث تک لانا گوارا نہ کیا۔

ہمارے ملک کے سبھی حلقے اتنے بڑے حملے پر اب تک خاموش ہیں۔ بھارت کا جب یہاں دائو نہیں چل سکا تھا تو اس نے برسبین آسٹریلیا میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے اجلاس میں یہی مطالبہ دہراتے ہوئے ایک اور قرارداد پیش کر ڈالی تھی۔ یہاں بھی امریکہ نے بھارت کی مدد کی تھی اور یہاں بھی بھارت کے اس گھنائونے وار کو ناکام بنانے والا چین ہی تھا۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کا تو میڈیا میں کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت تذکرہ دیکھنے کو ملا لیکن برسبین آسٹریلیا میں ہونے والے حملے کا تو آج تک کسی کو ذرا علم بھی نہیں۔

بھارت کے ہمارے اوپر یہ دو حملے اتنے بڑے اور اتنے سنگین ہیں کہ جن کے بعد اگر ہم بھارت کے ساتھ تمام تر تعلقات ختم کر کے حالت جنگ میں آ جاتے تو بھی شاید ازالہ ممکن نہ ہوتا۔ بھارت ہمارے ساتھ ہماری سرحدوں پر جو کچھ کر رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں یہی بھارت ہمارے خلاف پراپیگنڈا کر رہا ہے۔ساری دنیا کو مسلسل ہمارے خلاف اکسا رہا ہے۔سو ہمیں بھارت کے ساتھ مذاکرات کے لئے بے چین ہونے کے بجائے ترکی اور سعودی عرب سے غیرت و حمیت سیکھنی چاہیے۔ ہم کون سے برطانیہ کو اپنا دوست قرار دیتے ہیں، وہی برطانیہ جس نے ہمارے خطے پر جابرانہ ظالمانہ حکومت کی، ہمیں ڈیڑھ سو سال غلام رکھا، ہمارا بے تحاشہ قتل کیا اور پھر آخر میں یہاں سے جاتے ہوئے ہمیں مسئلہ کشمیر جیسے بے شمار مسائل دے کر ہمیشہ بھارت کے سامنے بے بس کرنے کے لئے چھوڑ کر چلا گیا۔ ہم سقوط ڈھاکہ سمیت آج تک کئی بڑے قومی سانحات و مسائل کا شکار ہیں وہ برطانیہ ہی کی تو دین ہیں۔ کیا برطانیہ ہمارا دوست ہو سکتا ہے؟
ہمیں آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ترکی نے روس جیسی سپرپاور کا طیارہ مار گرایا اور معافی مانگنے سے سرے سے انکار کر دیا۔

سعودی عرب اس وقت ترکی کے ساتھ کھڑا ہے اور دونوں ممالک عملاً جنگ کا حصہ ہیں اور عالمی طاقتیں ان کی دلیرانہ پالیسیوں کے باعث ان سے مذاکرات بلکہ اتحاد بنانے کی کوشش میں ہیں، وگرنہ اس وقت دنیا میں مسلمانوں کے دگرگوں حالات سب کے سامنے ہیں کہ ہمارے دین کے دشمن ہمیں دنیا میں کہیں بھی زندہ دیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ ترکی کے حکمرانوں نے اپنی پالیسی کے حوالے سے کسی بھی قسم کی پسپائی سے انکار کر دیا اور سعودی عرب کے علاوہ اپنے ساتھ عرب دنیا اور دیگر دو مسلم ممالک کو ملا کر بڑی جنگ کامیابی سے لڑ کر دکھا دی ہے۔ یہ سب کچھ اپنے بنیادی مؤقف پر فولادی عزم کے ساتھ کھڑا ہونے سے ممکن ہوا ہے۔

یہ اسلام کی آغوش کے سائے میں پناہ لئے آج کے ترکی کو دہشت گرد قرار دینے اور تنہا کرنے کی کوشش کرنے والے نہ دنیا میں کم ہیں اور نہ کمزور لیکن یہ محب وطن اور دلیرانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم سب ترکی میں جی ٹوئنٹی کا اجلاس منعقد کر کے وہاں حاضر ہونے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ساری دنیا کے طاقتور ترین حکمران ریاض کے شاہی محل میں روز حاضریاں آخر کیوں دیتے نظر آتے ہیں؟ ان ملکوں کے پاس کوئی ایٹم بم ہے اور نہ ہمارے جیسی طاقتور فوج۔ جو ان کے پاس ہے ہمیں ان سے وہ کچھ سننے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ان سے یہ سب سیکھ لیں تو عالم اسلام کی واحد ایٹمی و میزائلی طاقت اور ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کی بنیاد پر تربیت یافتہ فوج رکھنے والے ملک کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہیں کر سکے گا اور ہم اپنے حق بھی حاصل کر پائیں گے وگرنہ ہم جگہ غیر مشروط والا بیان دیں گے اور کوئی نہیں سنے گا۔

تحریر: علی عمران شاہین