counter easy hit

عمران خان کی شاد ی اور سانحہ پشاور

Imran Khan And Wife

Imran Khan And Wife

تحریر: رانا محمد ذیشان
عمران خان نے طویل دھرنے کے بعد شادی کرلینے سے قوم کو دوحصوں میں تقسیم کردیا ہے ۔اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے بار بار حکومت کو للکار اکہ جلدی سے میرے مطالبات تسلیم کرو کیونکہ میں نے نیا پاکستان بناکر شادی کرنی ہے ۔بالاآخر شادی ہو ہی گئی ،جمائمہ خا ن کی جگہ ریحام خان نے لے لی ۔ہم بھی انکو مبارکباد پیش کرتے ہیں ۔لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہماری آنکھوں سے آنسوابھی تک جاری ہیں کہ سانحہ پشاور میں جن ننھے منھے بچوں کے ساتھ دہشت گردوں نے جو کیا پوری دنیا نے اس سانحہ میں غم وغصہ دکھایا ۔عمران خان ایک فاسٹ باؤلر ہیں سیاست میں تیز باؤلر جلد تھک جاتاہے اور وکٹ نہ ملنے پر نوبال کرا بیٹھتا ہے ۔جس کا نقصان باؤلر کو ہوتا ہے۔

دھرنوں سے لیکر شادی تک تمام فیصلے جذبات میں کردیئے گئے ۔ضرب عضب کے وقت بھی دھرنوں کا غلط فیصلہ کیا گیا ۔میڈیاکی توجہ ضرب عضب سے ہٹاکر دھرنوں کی نذر ہوگیا ۔ساڑھے آٹھ لاکھ آئی ڈی پیز کو بے یارومددگار چھوڑکر وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکو اسلام آباد میں ناچ گانوں میں مصروف کردیا گیا۔چینی وزیراعظم کا دورہ بھی دھرنوں کی وجہ سے نہ ہوسکا ۔ان سب باتوں کو عوام بھُلا چکی تھی کہ ایک پاکستان میں نائن الیون سے بھی بڑا واقعہ رونما ہوا جس پر تمام مذاہب نے خون کے آنسو روئے ۔ان پھول جیسے شہید بچوں کے چہلم کا انتظار بھی نہ کیا گیا اور ایک اور نو بال کا اضافہ کرتے ہوئے اور شہید بچوں اور انکے والدین کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے شادی رچالی اور تحریک انصاف کے جیالے ان شہیدوں کے غم کو بھلا کر کیمروں کے سامنے ڈھول کی تاپ پر ناچتے دیکھائی دیئے گئے اس پر سیاسی رہنما اور ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین نے جرآت کا مظاہرہ کرتے ہوئے الیکٹرونکس میڈیاپر بیان دیا کہ سانحہ پشاور ابھی تازہ ہے ۔میڈیا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی شادی کا جشن مناتے ہوئے لوگوں کو مت دکھائیں۔

یہ شادی اگر خان صاحب چہلم کے بعد کرلیتے تو بہت ہی اچھا ہوتا ۔مقافات عمل اس کو کہتے ہیں کہ ”گو نواز گو ” کا نعرہ لگانے والوں کو اپنے صوبے میں ”گو عمران گو” کا سامنا کرنا پڑا ۔جب شہیدا کے والدین جو عمران خان سے ملنے کی امید میں کافی انتظار سے بیٹھے تھے ان پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے پر زور دینے والے خود عمران خان آرمی پبلک سکول میں دورہ پر 21 گاڑیوں کے پروٹوکول میں آئے اور سانحہ پشاور کے ننھے شہیدوں کے والدین جو کافی انتظار میں تھے انکو ملنے تک نہیںدیاگیا بلکہ خیبرپختونخوا کی پولیس سے لاٹھیوں کا تحفہ دیا گیا۔

اور ایک صوبائی وزیر نے والدین کو سیاسی لوگ قرار دے کر رہی سہی کسر بھی نکال دی۔یہ وقت تھا والدین سے ہمدردی کا، ان سے اظہار ہمدردی بھی نہ کیا گیا ۔قوم سلام پیش کرتی ہے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو جو اپنی بیگم کے ساتھ سکول کھلنے والے دن پہنچ کر بچوں کے عزم کو تقویت دی ۔پاک فضائیہ کے طیاروں نے بھی شہید بچوں اور آرمی پبلک سکول پر سلامی دیکر شہید بچوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

مقافات عمل پھرسے دیکھئے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر بڑا شور تحریک انصاف نے مچایا ۔پنجاب حکومت نے وزیر قانون کو عہدہ سے ہٹادیا جبکہ KPKکی حکومت نے بھی سانحہ ماڈل ٹاؤن جیسا واقعہ پشاور میں بھی کردیا اور ناجائز تجاوزات ہٹانے کی آڑ میں تین دوکانداروں کو کرین کے نیچے کچل دیا گیا ۔کیا عمران خان کی حکومت میں کسی وزیر سے استعفیٰ لیا جائے گا؟ پاکستان واحد ملک ہے جس میں کوئی بھی واقعہ ہو اس پر بڑا شور اٹھتاہے لیکن جلد اس واقعہ کو بھلا دیا جاتا ہے ۔لیکن سانحہ پشاور کے شہید بچوں کو کبھی بھی نہیں بھلایا جاسکے گا ۔نرم دل رکھنے والے ہر ذی شعور آدمی پشاور میں شہید بچوں کو اپنا بچہ سمجھتا ہے اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔پاکستانی قوم نے ہمیشہ پاک فوج کو احترام کی نظر سے دیکھا اور مشکل کی ہر گھڑی میں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آئی ۔آج بھی ایک اور میڈم نور جہان جیسی کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔

جن کے گانوں سے فوج میں اور بھی جذبہ بڑھتا تھا پاکستان اور ہندوستان کی جنگ کے دوران فوجی جوان میڈم نور جہان کے گانے سن کر اپنے پیٹ کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے بھارت کے ٹینکوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے تھے اور بھارتی فوج بوکھلاہٹ کا شکار ہوجاتی تھی۔میڈم نورجہان کے گانے سن کر پاکستانی فوجیوں میں شہادت کا جذبہ اور بھی بڑھ جاتا تھا۔ اس وقت قوم کو عمران خان کی شادی سے کوئی غرض نہیں ہے ۔غرض ہے تو امن وشانتی کی ،غرض ہے تو دہشت گردی کے خاتمے کی ،غرض ہے تو شہداء کے والدین سے ہمدردی کی ،غرض ہے تو فوجی جوانوں کے حوصلہ بڑھانے کی ،غرض ہے تو تمام مذاہب کو ایک نقطہ پر اکھٹے کرنے کی۔

Taqrar

Taqrar

تحریر: رانا محمد ذیشان