counter easy hit

آئی جی پنجاب ہوشیار باش۔۔۔۔۔۔آصف عفان

لاہور (ویب ڈیسک) ہر دورِ حکومت میں ایسے کردار ضرور ہوتے ہیں جو حکمرانوںسے تعلق کی وجہ سے انتظامی مشینری میں اپنا کوئی نہ کوئی ”جگاڑ‘‘ لگائے رکھتے ہیں اور حکمرانوں سے قریبی تعلق کے ”زور‘‘ پر نہ صرف اہم ترین تقرریوں اور تبادلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ تمام تر شرمندگی، بدنامی اور سبکی کے باوجود
نامور کالم نگار آصف عفان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ شخصیات حکمرانوں کے لیے ناگزیر اہمیت کی حامل ہی رہتی ہیں۔ خدا جانے وہ کیا مصلحتیں ہیںجو حکمرانوں کو ہر قیمت پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسی شخصیات کی اہمیت اور ”پہنچ‘‘ سے متاثر ہو کر اکثر اعلیٰ حکام ان کی سہولت کاری میں نہ صرف پیش پیش رہتے ہیں بلکہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے بھی پیچھے نہیں رہتے۔ چند روز قبل دو اعلیٰ پولیس افسران کو حکومتِ پنجاب نے سینٹرل پولیس آفس سے سرنڈر کر کے ایک بہتی گنگا پر بند باندھ دیا۔ اگر یہ بند بروقت نہ باندھا جاتا تو عین ممکن ہے کہ اس بہتی گنگا کی کوئی بپھری ہوئی لہر کناروں سے چھلک جاتی اور آئی جی پنجاب کی شہرت اور گورننس کو بھی گنگا جل میں ”بھگونے‘‘ کے ساتھ ساتھ بہا بھی لے جاتی۔ خیر دیر آید‘ درست آید۔ واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ حالات اور معاملات کس نہج پر پہنچ چکے تھے کہ آئی جی پنجاب سے مشاورت اور ان کی مرضی معلوم کیے بغیر ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کو صوبہ بدر کر دیا گیا۔ مشاہدے اور روایت کے مطابق ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹر کا عہدہ آئی جی کی چوائس اور پرنسپل سٹاف آفیسر کی حیثیت رکھتا رہا جبکہ محکمانہ ترقیوں، تقرریوں اور تبادلوں کی گنگا بھی اسی پُل کے نیچے سے بہتی ہے۔
حال ہی میں پنجاب بھر میں ہونے والے ایس ڈی پی اوز کے تبادلوں کے سیلاب نے اس بہتی گنگا کو نہ صرف ”ننگا‘‘ کر دیا ‘بلکہ وہ پنجاب پولیس کی گورننس پر کئی سوالیہ نشان بھی چھوڑ گیا ہے۔ قارئین! آپ کو بخوبی یاد ہو گا کہ پنجاب میں عثمان بزدار کو وزاتِ اعلیٰ کا قلمدان سنبھالتے ہی ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے کے حوالے سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ عثمان بزدار تو خیر نئے آئے تھے اور انتظامی معاملات میں ناتجربہ کار تھے لیکن ڈی پی او پاکپتن کا رات گئے تبادلہ کرکے خاور مانیکا سے معذرت کرنے پر مجبور کرنے والا شخص کون تھا؟ جی ہاں! میرا اشارہ احسن جمیل گجر کی طرف ہی ہے۔ احسن جمیل گجر نے کس حیثیت اور اتھارٹی کے تحت وزیراعلیٰ پنجاب کے اختیارات میں مداخلت کی؟ اور وہ کس بوتے پر ڈی پی او پاکپتن کو خاور مانیکا سے معذرت پر دباؤ ڈالتے رہے؟ میری نظر میں احسن جمیل گجر کا شمار بھی ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے جن کا میں کالم کی ابتدا میں ذکر کر چکا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حکمرانوں کی مصلحتیں اور مجبوریاں ہوتے ہیں۔ تمام تر سبکی، شرمندگی اور ندامت کے باوجود ان کا کردار اور عمل دخل برقرار رہتا ہے۔ اب تو ان کے اثرورسوخ کا دائرہ اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ وہ اپنی ہی ”گجربرادری‘‘ سے تعلق رکھنے والے ایک ریٹائرڈ اور ایک حاضر سروس اعلیٰ پولیس آفیسر کے ساتھ مل کر ”ٹرائیکا‘‘ بنا چکے ہیں اور محکمہ پولیس میں پوسٹنگ،ٹرانسفر کا وسیع ترین نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ وہ تو خیر ہوئی کہ وزیراعلیٰ پنجاب کو ”مخبری‘‘ ہوگئی اور معاملہ اوپر چلا گیا… سگنل ملتے ہی وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اس بہتی گنگا کا رخ موڑ کر صوبہ پنجاب سے ”بائی پاس‘‘ کر دیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی بڑا سکینڈل حکومتِ پنجاب اور آئی جی کیلئے مزید سبکی کا باعث بنتا راست اقدام کر لیا گیا۔وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے نوٹس لیا جانا یقینا اس امر کا ثبوت ہے کہ اب انتظامی معاملات پر ان کی گرفت نہ صرف مضبوط ہورہی ہے بلکہ وہ اب بیڈ گورننس اور کرپشن پر اصولی مؤقف اور سخت اقدام سے بھی گریز نہیں کر رہے۔سپریم کورٹ نے منشا بم، تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ن) کے ارکانِ اسمبلی کو طلب کر کے سرکاری زمینوں، یتیموں، بیواؤں اور بے وسیلہ عوام کی جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کا سخت نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کو تاکید کی ہے کہ وہ ان قابضین سے جائیدادیں واگزار کرا کے حقداروں کے حوالے کریں۔آئی جی صاحب! آپ تو جانتے ہیں کہ ناجائز قبضے پولیس اور انتظامیہ کی معاونت اور ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ آپ سے بہتر اس حقیقت کوبھی کوئی نہیں جانتا کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں پائے جانے والے ”منشاء بم‘‘اس قبضہ مافیا کے سہولت کار ہیں۔ پولیس کی ملی بھگت کے بغیر کسی بھی پراپرٹی پر قبضہ کیونکر ممکن ہے؟ اور میرے خیال میں اب بات معاونت اور سہولت کاری سے بڑھ کر ”شراکت داری‘‘ تک جا پہنچی ہے۔ ”جوائنٹ وینچر‘‘ کی بنیاد پر سرکاری اور پرائیویٹ جائیدادوں پر قبضے کروانے والے ”بینی فشری‘‘ اندرونی منشاء بم بھی شریک جرم ہیں۔ ان کی نامی بے نامی جائیدادوں اور بینک بیلنس کی تحقیقات بھی ہونی چاہئیں جو محکمہ پولیس کیلئے بدنامی اور بددُعاؤں کا باعث بن رہے ہیں۔ محکمہ پولیس میں ”منشاء بم‘‘ کون ہیں اور ان کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کیا ہیں؟ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ بس ذرا سی توجہ اور ”کمٹمنٹ‘‘ کی ضرورت ہے۔ قبضہ مافیا کے شریکِ جرم اور باوردی سہولت کاروں کے ماضی اور حال کا موازنہ ہی ان کی مالی اور سماجی حیثیت کا اندازہ لگانے کے لیے کافی ہے۔اب چلتے ہیں‘ امن و امان کی صورتحال کی طرف… صوبائی دارالحکومت کے پولیس کپتان کی پروفیشنل حیثیت اپنی جگہ… لاقانونیت اور جرائم میں اضافے کو روکنے کیلئے افسران کو دفتروں سے نکلنا پڑے گا‘ سماجی رابطے اور مؤثر اطلاعی نظام کو بروئے کار لانا ہو گا۔ ذوالفقار چیمہ سے بعض امور پر اختلاف کے باوجود بیس برس قبل بطور کرائم رپورٹر میں خود شہر کی اہم شاہراہوں اور کاروباری مراکز میں ایس ایس پی ذوالفقار چیمہ کی پیدل گشت کا شریک رہا ہوں۔ جب پولیس کپتان خود شہر میں پیدل گشت اور طویل پیٹرولنگ کرے گا تو ماتحت افسران اور فیلڈ فورس کی کیا مجال کہ وہ اپنی ڈیوٹی سے غفلت اور کوتاہی کے مرتکب ہوں۔ اسی طرح عامر ذوالفقار، امین وینس، رانا مقبول اور طارق پرویز جیسے سینئر پولیس افسران اپنی ہی پرائیویٹ گاڑی کے چوری ہونے کی فرضی کال چلا کر اسی گاڑی میں شہر بھر میں گھوما کرتے تھے۔ محض یہ دیکھنے کے لیے کہ ان کی فیلڈ فورس اور افسران سو رہے ہیں یا جاگ رہے ہیں؟ لیکن اب تو لاہور پولیس کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پولیس کپتان اب 9تا5 نوکری کرکے اور جائے وقوعہ پر خود جائے بغیر کرائم کنٹرول کیسے کرسکتا ہے؟ کوئی عام شہری یا سائل پولیس کپتان سے دادرسی کے لیے براہِ راست نہیں مل سکتا۔ جب پولیس کپتان کے دروازے سائلین پر بند ہوں گے تو امن و امان اور سٹریٹ کرائم کی صورتحال بھی اسی طرح کی ہو گی جیسی ہے۔آئی جی صاحب دہشتگردی کے خلاف پنجاب پولیس کی کارکردگی اور قربانیاں یقینا قابلِ تعریف اور مثالی ہیں لیکن عام آدمی کو ان سے کیا غرض… عام آدمی کے لیے اس سے بڑی دہشتگردی کیا ہوگی کہ اس کا بچہ اس کی گلی سے اغواء ہو جائے… اس کے گھر کے سامنے اس کی بیوی سے گن پوائنٹ پر زیور اتروا لیے جائیں… سر بازار اس سے موٹر سائیکل یا موبائل چھین لیا جائے‘ وہ تو دن دیہاڑے لٹ گیا۔ جس کے گھر سے ڈاکو عمر بھر کی پونجی اور بچیوں کا جہیز لے جائیں‘ وہ کیا جانے پنجاب پولیس کی خدمات اور قربانیوں کو؟وردی کا رنگ اور ڈیزائن ایک بار پھر بدلا جا رہا ہے۔ اس حقیقت کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ وردی کی تبدیلی سے عوام کی دادرسی نہیں ہوتی… اس کے لیے رویوں اور گورننس کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ماضی میں وردی کی تبدیلی کا ”بینی فشری‘‘ کون کون رہا ہے۔وردی کی تبدیلی کے بعد تھانوں اور پولیس دفاتر سے فیض کے کون سے چشمے پھوٹے؟ پرانی وردی کی بحالی کے لیے ایک بار پھر کام جاری ہے… خدا خیر کرے! اﷲ نے ایسا موقع فراہم کیا ہے کہ آپ اس منصب پہ رہیں یا نہ رہیں۔ آپ کا کام اور نام زندہ رہ سکتا ہے۔ آپ کو ان عناصر سے ہوشیار رہناہوگا جو حکمرانوں سے قریبی تعلق کی بنیاد پر آپ ہی کے افسران کی ملی بھگت سے اپنے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں اور اس ”کاربد‘‘ میں موجیں تو خود اُڑا رہے ہیں اور جواب دہی اور بدنامی آپ کھاتے میں ڈال رہے ہیں۔