counter easy hit

اگر عمران خان نے اپنے بچپن کے یار چوہدری نثار کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا تو وہ کس بڑی مصیبت میں پڑ جائیں گے

لاہور (ویب ڈیسک) ایک معاصر انگریزی اخبار میں چھپنے والی اس خبر کی سخت الفاظ میں تردید آ گئی کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور چودھری نثار علی خان کی ملاقات ہوئی۔ اخبار کو متنبہ کیا گیا کہ وہ اس کی تردید شائع کرے، وگرنہ قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔  نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ خبر کتنی من گھڑت تھی اور دوسرا اس پر کتنا شدید ردعمل ظاہر کیا گیا۔ میرے نزدیک اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ چہ میگوئیوں کے دراز ہوئے سلسلے میں اس خیال کو پختہ کیا جا رہا ہے کہ چودھری نثار علی خان کو اسٹیبلشمنٹ سامنے لا رہی ہے اور ایک منصوبے کے تحت پنجاب میں تبدیلی کی بنیاد رکھی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں یہ خبر کس قدر اہمیت رکھتی ہے، اسے ہر ذی شعور سمجھ سکتا ہے، اس لئے خبر کی سخت الفاظ میں تردید کی گئی اور اخبار کو بھی تردید شائع کرنے کے لئے سخت پیغام دیا گیا۔ چودھری نثار علی خان کے بارے میں یہ تو ہمیشہ سے تاثر موجود ہے کہ وہ پنڈی کے قریب رہتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے دور میں جب مشکل صورت حال پیدا ہوئی تھی تو وہ شہبازشریف کے ہمراہ وردی والوں سے ملنے چلے جاتے تھے۔ پھر ان کا یہ کردار بھی سب کے سامنے ہے کہ انہوں نے نوازشریف کو بار بار فوج کے خلاف محاذ آرائی سے روکا۔ جب وہ وزیر داخلہ تھے، تب بھی ان کی پریس کانفرنسوں میں نوازشریف کے لئے یہی مشورہ ہوتا تھا کہ وہ اکسانے والوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں اور ریاستی اداروں کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کریں۔ جب نوازشریف اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے تو چودھری نثار علی خان ان کے ساتھ نہیں تھے، بلکہ الٹی سمت چل رہے تھے، جس کا نوازشریف نے بہت برا منایا اور عملاً چودھری نثار علی خان نوازشریف کی گڈ بکس سے نکل گئے۔ بعدازاں انہیں عام انتخابات میں ٹکٹ بھی نہ دی گئی اور وہ آزاد امیدوار کے طور پر کھڑے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست نہ جیت سکے، تاہم صوبائی اسمبلی کی سیٹ جیت گئے، لیکن اس کے بعد تقریباً انہیں سیاست سے کنارہ کشی ہی کرنا پڑی۔ اب اچانک ان کے نام کا ذکر ہونے لگا ہے۔ آخر کیوں؟ کس لئے، کیا واقعی انہیں کسی طرف سے اشارہ ملا ہے یا پھر انہوں نے خود ہی تخلئے کو خیرباد کہہ کر میدان میں آنے کا فیصلہ کیا ہے جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ چودھری نثار علی خان کو مسلم لیگ (ن) کی آشیرباد بھی مل سکتی ہے اور عنقریب وہ لندن میں شہبازشریف سے ملاقات کے لئے جائیں گے۔ وہ بہت دور کی کوڑی لا رہے ہیں، جس کا فی الوقت کوئی امکان، بلکہ سر پیر ہی موجود نہیں۔ شہبازشریف سے ان کی ملاقات کیا معنی رکھتی ہے، اس کی تو دھیلے کی اہمیت نہیں، شہبازشریف تو ہمیشہ سے نثار علی خان کے خیر خواہ رہے ہیں، جب چودھری نثار علی خان مسلم لیگ (ن) میں زیرِ عتاب تھے اور پرویز رشید انہیں آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ اس وقت بھی شہبازشریف چاہتے تھے کہ چودھری نثار علی خان کو مسلم لیگ (ن) میں رکھا جائے۔ عام انتخابات میں انہوں نے چودھری نثار علی خان کو ٹکٹ دلوانے کی حتی الامکان کوشش کی، مگر نوازشریف نہ مانے، اب یہ کیسے ممکن ہے کہ وہی شہبازشریف چودھری نثار علی خان کو نوازشریف کی مرضی کے بغیر محفوظ راستے سے اندر لے آئیں۔ مجھے تو اب بھی چودھری نثار علی خان کا سیاسی مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ ان کی انانیت ہے۔ وہ اپنی بساط سے بڑھ کر عہدہ بھی چاہتے ہیں اور پروٹوکول بھی۔ وہ نوازشریف جیسے انسان سے نبھاہ نہیں کر سکے، حالانکہ نوازشریف کی چودھری نثار علی خان پر نوازشات اگر پوچھنی ہوں تو مخدوم جاوید ہاشمی سے پوچھی جائیں۔ مشکل وقت میں چودھری نثار علی خان خود کو بچا کر نکل گئے ،جاوید ہاشمی نظر انداز کئے جانے کے باوجود بھی نوازشریف کے ساتھ کھڑے رہے اور آج بھی کھڑے ہیں۔ جہاں تک ان افواہوں کا تعلق ہے کہ چودھری نثار علی خان کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا جا رہا ہے تو اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے، بے پر کی اُڑانا، میرا نہیں خیال کہ وزیراعظم عمران خان ایک ایسے شخص کو وزارتِ اعلیٰ پر بٹھائیں گے جو نرگسیت کا شکار ہے، جس نے اپنے لیڈر سے اس وقت بے وفائی کی، جب اسے ضرورت تھی۔ جو مطلق العنانیت کا قائل ہے اور بڑی حد تک خود کو عقلِ کل بھی سمجھتا ہے۔ عمران خان تو ایک کپتان کی طرح کا مزاج رکھتے ہیں جو ٹیم کے کھلاڑیوں کو صرف ایک کھلاڑی کی حد تک رکھنا چاہتے ہیں، ان سے مشاورت کر سکتے ہیں، لیکن یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ فیصلوں کے خلاف بغاوت بھی کردیں۔ چودھری نثار علی خان کے بارے میں کسی کو شک و شبہ نہیں کہ وہ پارٹی ڈسپلن سے زیادہ اپنی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پوری کی پوری نوازشریف کے ساتھ کھڑی تھی اور ان کے بیانیے کا ساتھ دے رہی تھی، جبکہ چودھری نثار علی خان دوسری طرف کھڑے ڈگڈگی بجا رہے تھے۔ اگر انہیں اس کی وجہ سے وزارتِ داخلہ سے ہٹا دیا گیا۔ تو کون سے اچنبھے کی بات تھی۔ اس کے بعد تو انہوں نے نوازشریف کو اپنا ہدف بنا لیا۔ انتخابی مہم کے دوران تو انہوں نے اپنی بڑائی اور نوازشریف کی شخصیت کو کمتر دکھانے کے لئے تمام حدیں پار کیں۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو شاید قومی اسمبلی کی نشست بھی جیت جاتے، مگر انہیں ایک صوبائی اسمبلی کی نشست تک محدود ہونا پڑا اور یہ بات ان کے لئے کتنی بڑی شرمندگی کا باعث تھی، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ممبر صوبائی اسمبلی کا حلف نہیں اٹھایا۔ کیا اس مزاج کا آدمی عمران خان جیسے سخت کپتان کے ساتھ چل سکتا ہے؟ پنجاب جیسے بڑے صوبے کو چودھری نثار علی خان کے حوالے کرکے عمران خان اس سے کہیں بڑی مشکل میں آجائیں گے، جس میں آج ہیں۔ عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانے کا مقصد بھی یہی تھا کہ پنجاب میں اپنے ایجنڈے کو نافذ کیا جا سکے۔ عثمان بزدار کی یہ خوبی تو اب مثالی بن چکی ہے کہ وہ ہر اس گائیڈ لائن کی مکمل طور پر پیروی کرتے ہیں جو انہیں وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ملتی ہے۔ چودھری نثار علی خان تحریک انصاف میں شامل ہو بھی جائیں، تب بھی پارٹی میں ان کے حوالے سے تحفظات برقرار رہیں گے، کیونکہ ان کی مسلم لیگ(ن) اور شریف برادران سے وابستگی کئی دہائیوں پر محیط ہے۔ وہ خود بھی اس کے لئے کوشاں ہیں کہ کسی طرح مسلم لیگ (ن) میں ان کی باعزت واپسی ہو جائے، مگر نوازشریف کی ناراضی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ میاں صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مشکل میں ساتھ دینے اور مشکل میں چھوڑ جانے والوں کو کبھی نہیں بھولتے۔ چودھری نثار علی خان نے تو ان کا ساتھ ہی نہیں چھوڑا، ان کے بیانیے کو بھی غلط قرار دیا۔ اگرچہ وہ پارٹی کے اندر اپنا ایک بھی ہمنوا پیدا نہیں کر سکے، لیکن پارٹی کا ایک اہم رہنما ہونے کے ناطے ان کی باتوں نے نوازشریف کو نقصان پہنچایا۔ تحریک انصاف کے اندر بھی جودھری نثار علی خان کے لئے کوئی نرم گوشہ موجود نہیں۔ عمران خان سے ان کے ذاتی تعلقات ضرور ہیں، مگر سیاست میں یہ چیزیں پیچھے چلی جاتی ہیں۔ عثمان بزدار کے حق میں تو تقریباً سبھی بول رہے ہیں۔ جہانگیر ترین بھی اور چودھری سرور بھی۔ حتیٰ کہ چودھری برادران نے بھی عثمان بزدار کو مکمل حمایت کا یقین دلا رکھا ہے، لیکن اگر چودھری نثار علی خان کو وزیراعلیٰ بنانے کا کہا جائے تو شاید ان سب میں سے کوئی بھی راضی نہ ہو۔ میرے نزدیک چودھری نثار علی خان اس وقت پاکستانی سیاست میں کوئی بھی کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ان کی سیاست کو نوازشریف سے بے وفائی نے ختم کر دیا ہے۔ ان کے حلقے کے عوام نے انہیں مسترد کیا، اب کہیں قدم جمانے کی مہلت نہیں مل رہی۔ ان کا ایک ہی حوالہ ہے اور اس حوالے کو بھی اس تردید نے توڑ کر رکھ دیا ہے جو آرمی چیف سے ان کی ملاقات پر مبنی خبر کے حوالے سے پرزور انداز میں کی گئی۔ چودھری نثار علی خان کی سیاسی تنہائی پھر اس حقیقت کو ثابت کر گئی ہے کہ شخصیات کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، نظریات اور سیاسی وابستگیاں اہم ہوتی ہیں، ان میں خلل آ جائے تو بڑے سے بڑا سیاستدان بھی کٹی پتنگ بن جاتا ہے، جسے کوئی لوٹنے والا بھی نہیں ملتا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website