counter easy hit

میں ایک بہت غریب فیملی کا اکلوتا بیٹا تھا

I was the only son of a poor family

یہ کہانی میری پیدائش سے شروع ہوتی ہے۔۔ میں ایک بہت غریب فیملی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ہمارے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ تھا۔ اور اگر کبھی ہمیں کھانے کو کچھ مل جاتا تو امی اپنے حصے کا کھانا بھی مجھے دے دیتیں اور کہتیں۔۔۔۔۔تم کھا لو مجھے بھوک نہیں ہےدوسرا جھوٹجب میں تھوڑا بڑا ہوا تو ماں گھر کا کام ختم کر کے قریبی جھیل پر مچھلیاں پکڑنے جاتی اور ایک دن اللہ کے کرم سے دو مچھلیاں پکڑ لیں تو انھیں جلدی جلدی پکایا اور میرے سامنے رکھ دیا۔ میں کھاتا جاتا اور جو کانٹے کے ساتھ تھوڑا لگا رہ جاتا اسے وہ کھاتی۔یہ دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا۔ میں نے دوسری مچھلی ماں کے سامنے رکھ دیاس نے واپس کر دی اور کہا۔۔ بیٹا تم کھالو۔۔تمھیں پتہ ہے نا مچھلی مجھے پسند نہیں ہے۔تیسرا جھوٹجب میں اسکول جانے کی عمر کا ہوا تو میری ماں نے ایک گارمنٹس کی فیکٹری کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔۔ اور گھر گھر جا کر گارمنٹس بیچتی۔۔۔ سردی کی ایک رات جب بارش بھی زوروں پر تھی۔۔ میں ماں کا انتظار کر رہا تھا جو ابھی تک نہیں آئی تھی۔۔ میں انھیں ڈھونڈنے کے لیے آس پاس کی گلیوں میں نکل گیا۔۔ دیکھا تو وہ لوگوں کے دررہنا۔۔ میں کھڑی سامان بیچ رہی تھی۔میں نے کہا ماں! اب بس بھی کرو۔۔ تھک گئی ہوگی۔۔ سردی بھی بہت ہے۔۔ ٹائم بھی بہت ہو گیا ہے۔۔ باقی کل کر لینا۔۔تو ماں بولی۔۔ بیٹا! میں بالکل نہیں تھکی چوتھا جھوٹ ایک روز میرا فائنل ایگزام تھا۔۔ اس نے ضد کی کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے گی۔۔ میں اندر پیپر دے رہا تھا اور وہ باہر دھوپ کی تپش میں کھڑی میرے لیے دعا کر رہی تھی۔۔ میں باہر آیا تو اس نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا اور مجھے ٹھنڈا جوس دیا جو اس نے میرے لیے خریدا تھا۔۔۔ میں نے جوس کا ایک گھونٹ لیا اور ماں کے پسینے سے شرابور چہرے کی طرف دیکھا۔۔ میں نے جوس ان کی طرف بڑھا دیاتو وہ بولی۔۔ نہیں بیٹا تم پیو۔۔۔ مجھے پیاس نہیں ہےپانچواں جھوجب میں نے گریجویشن مکمل کر لیا تو مجھے ایک اچھی جاب مل گئی۔۔ میں نے سوچا اب ماں کو آرام کرنا چاہیے اور گھر کا خرچ مجھے اٹھانا چاہیے۔۔ وہ بہت بوڑھی ہو گئی ہے۔۔ میں نے انھیں کام سے منع کیا اور اپنی تنخواہ میں سے ان کے لیے کچھ رقم مختص کر دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ۔۔ تم رکھ لو۔۔۔ میرے پاس ہیں۔۔۔مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں ہےچھٹا جھوٹمیں نے جاب کے ساتھ اپنی پڑھائی بھی مکمل کر لی تو میری تنخواہ بھی بڑھ گئی اور مجھے جرمنی میں کام کی آفر ہوئی۔۔ میں وہاں چلا گیا۔۔۔۔ سیٹل ہونے کے بعد انھیں اپنے پاس بلانے کے لیے فون کیا تو اس نے میری تنگی کے خیال سے منع کر دیا۔۔ اور کہا کہمجھے باہر رہنے کی عادت نہیں ہے۔۔ میں نہیں رہ پاوں گی۔آخری جھوٹمیری ماں بہت بوڑھی ہو گئی۔۔ انھیں کینسر ہو گیا۔۔ انھیں دیکھ بھال کے لیے کسی کی ضرورت تھی۔۔ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ان کے پاس پہنچ گیا۔۔ وہ بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔۔ مجھے دیکھ کر مسکرانے کی کوشش کی۔۔۔ میرا دل ان کی حالت پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔۔۔ وہ بہت لاغر ہو گئی تھیں۔۔ میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔۔ تو وہ کہنے لگیں۔۔ مت رو بیٹا۔۔۔ میں ٹھیک مجھے کوئی تکلیف نہیں ہو رہی اور پھر میری ماں نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔۔جن کے پاس ماں ہے۔ اس عظیم نعمت کی حفاطت کریں اس سے پہلے کہ یہ اپنا آخری جھوٹ بول جائے اور جن کے پاس نہیں ہے ہمیشہ یاد رکھنا کہ انھوں نے تمھارے لیے کون کون سے جھوٹ نہیں بولے اور ان کی مغفرت کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہنا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website