counter easy hit

2022 میں جب جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہونگے تو پاکستان کے دفاعی ، سیاسی اور معاشی حالات کیسے ہونگے ؟ سہیل وڑائچ کی حیران کن پیشگوئی

How will Pakistan's defense, political and economic conditions be when General Qamar Javed Bajwa retires in 2022? Astonishing prediction of suhail vratich

لاہور (ویب ڈیسک) بالآخر پاکستان کی پائیدار ترقی کا راستہ ہموار ہو چکا ہے کیونکہ تاریخ کے طالب علم اور ترقی کے خواہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لیے آرمی چیف بنا دیا گیا ہے۔ اس فیصلے پر وزیر اعظم عمران خان، امریکہ، یورپ اور دنیا بھر کے نامور کالم نگار سہیل وڑائچ بی بی سی کے لیے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ممالک سے مبارک باد کے مستحق ہیں کیونکہ اب پاکستان امن اور ترقی کی راہ پر ہی چلے گا۔تاریخ کا شعور رکھنے والے جنرل قمر جاوید باجوہ نہ افغانستان میں خانہ جنگی چاہتے ہیں اور نہ بھارت کے ساتھ جنگ، سو دنیا بھر کے امن پسندوں کے لیے جنرل باجوہ کی تقرری ایک خوشخبری ہے۔جب جنرل باجوہ کی ایکسٹنشن کی افواہیں گرم تھیں تب آئی ایس آئی کے سربراہ جرنل فیض حمید نے عہدہ نہیں سنبھالا تھا مگر جہاں چار سینئر ترین جرنیلوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا ہے وہیں جرنل فیض حمید جیسا ’آئرن مین‘ جرنل باجوہ کی معاونت جاری رکھے گا اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی تین سالہ مدت ملازمت میں توسیع کے بعد وہ اگلے آرمی چیف کے لیے سب سے طاقتور امیدواروں کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔اور اسی تناظر میں اگر جنرل فیض حمید کی بطور آئی ایس آئی کے سربراہ کے تقرری کو دیکھا جائے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جنرل باجوہ کے جانشین کا فیصلہ بھی شاید کر لیا گیا ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا اس پر یہ مفروضہ درست ہے کہ جب جنرل باجوہ تین سالہ توسیع گزار کر جب ریٹائرڈ ہوں گے تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہو گا اور اس کے بعد جنرل فیض حمید بھی ملک کو پائیدار ترقی کی اسی ڈگر پر اگر مزید چھ سال چلا پائے تو ملک ہانگ کانگ اور ملائشیا کے برابر جا کھڑا ہو گا۔کون نہیں جانتا کہ پائیدار ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور حکومت کو اپنی پالیسیاں بنانے اور پھر عمل درآمد کروانے کے لیے کم از کم دس پندرہ سال درکار ہوتے ہیں۔ اگر پائیدار ترقی کے ثمرات کو دیکھنا ہو تو پھر ایک ہی پالیسی کے تسلسل کے لیے 12 سے 15 سال چاہیے ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہانگ کانگ ،چین اورملائشیا ترقی کر گئے کہ وہاں ایک ہی حکومت کو اپنی معاشی پالیسیاں 10 سے 15 سال چلانے کا موقع ملا۔ لگتا ہے کہ قدرت نے بالآخر پاکستان کی بھی سن لی ہے اور اب پائیدار ترقی کا 12 سالہ منصوبہ سامنے آ رہا ہے جس میں ادارہ جاتی طور پر ایک ہی معاشی پالیسی کو ایک جیسی سوچ والی قیادت چلائے گی اور یوں ملک میں پائیدار ترقی و استحکام دونوں ممکن ہو جائیں گے۔ جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع اور جنرل فیض حمید کی آئی ایس آئی میں تقرری کو پائیدار ترقی کے اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال کو روکنے کے لیے تسلسل کی پالیسی کو اپنایا گیا ہے۔ جنرل باجوہ کی ٹرم میں توسیع و تسلسل سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے اور سرمایہ کاری کے فروغ میں مدد ملے گی۔ جنرل باجوہ سنہ 2022 میں جب چھ سال آرمی چیف رہنے کے بعد ریٹائر ہوں گے تو پاکستان ایک مستحکم ملک بن چکا ہو گا۔ ان کی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لیے ان کے قریبی ترین ساتھی جنرل فیض حمید چار سینئر ترین جرنیلوں میں شامل ہوں گے اوراگر انھیں بھی اسی طرح 6 سال یعنی 2028 تک بطور اگلے چیف آف آرمی سٹاف اپنی پالیسی تسلسل سے جاری رکھنے کا موقع ملتا ہے تو پاکستان بھی ملائشیا، ہانگ کانگ اور چین کے ماڈل کی طرح فائدہ اٹھا کر اورترقی کے بارہ سال گزار کر نئی منزلوں کی طرف گامزن ہو چکا ہو گا۔ ماضی میں سب سے پہلے جنرل ایوب خان نے پائیدار ترقی، معاشی تسلسل اور سیاسی استحکام کا دس سالہ ماڈل بنایا اورپھر اسے چلایا، منگلا ڈیم اور تربیلا ڈیم بنائے،صنعتیں لگائیں، معاشی شرح نمو میں اضافہ کیا۔ وہ ملک کو ملائشیا اور جنوبی کوریا کی سطح پر لے ہی جانے والے تھے کہ سیاسی عدم استحکام نے ان کا دھڑن تختہ کر دیا۔ دوسری دفعہ اس ماڈل کو ذرا مختلف طریقے سے مذہبی رنگ دیکر جنرل ضیاء الحق نے 11 سال چلانے کی کوشش کی۔ 11 سالہ تسلسل اور امریکہ سے ڈالروں کی بارش نے معاشی استحکام میں اضافہ کیا مگر انھیں بھی سیاست لے ڈوبی، نہ بھٹو کی پھانسی ہضم ہو سکی اورنہ افغانستان کی جنگ میں اپنے مقاصد کی تلاش نے انھیں فائدہ دیا۔ تیسری دفعہ جنرل پرویز مشرف بھی تسلسل و استحکام کا روشن خیال ماڈل لے کر آئے۔ امریکا سے دوستی اور افغان طالبان سے لڑائی کے بدلے میں انھیں عالمی امداد تو بہت ملی مگر سیاسی استحکام انھیں بھی نصیب نہ ہوا۔ عدلیہ تحریک اور نواز شریف و بینظیر اتحاد نے بالآخر انھیں اقتدار سے فارغ کر دیا۔ایوب، ضیاء اور مشرف کے ’تسلسل ماڈل‘ میں ایک خرابی تھی کہ وہ مارشل لا کے نام پر ملک کو پٹری پہ ڈالنا چاہتے تھے مگر آئین اور جمہوریت کو فارغ کر کے سیاسی استحکام اور معاشی تسلسل رکھنا مشکل تھا اور آج بھی ہے۔ اسی لیے و ہ تینوں اس میں ناکام ہوئے۔ اب شاید ماڈل یہ ہے کہ آئین اور جمہوریت چلتے رہیں، عدلیہ، پارلیمان اور کابینہ کام کرتے رہیں مگر اصل تسلسل اور استحکام پیچھے بیٹھنے والے فراہم کریں گے۔ آئین، جمہوریت عدلیہ کی موجودگی میں معاشی تسلسل کو یقینی بنانا اس نئی مشق یا کوشش کا اصل مقصد ہوگا۔ تسلسل و استحکام کے اس مفروضے کے پیچھے فلسفہ یہ لگتا ہے کے چین کو کمیونسٹ پارٹی کا مضبوط نیٹ ورک چلاتا ہے، بھارت کو اس کی بیوروکریسی چلاتی ہے۔ برطانیہ میں یہی تسلسل اور استحکام شاہی خاندان فراہم کرتا ہے۔ لیکن پاکستان میں عسکری ادارہ ہی تسلسل اور استحکام کی ضمانت دے سکتا ہے۔ بار بار کے تجربوں کے بعد سے بظاہر یہ سبق کشید کیا گیا ہے کہ ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف والا مارشل لا ماڈل وقتی استحکام تو دیتا ہے لیکن اس سے پائیدارتسلسل قائم نہیں ہوتا۔ اب کوشش کی جا رہی ہے کہ پس پشت رہ کرملک کو تسلسل فراہم کیا جائے۔ جنرل کیانی کے دور میں اس ماڈل پر ابتدائی عمل ہوا مگر پھر یہ ماڈل حالات کی نظر ہوگیا۔ فوج میں حالیہ تبدیلیوں یعنی جنرل فیض حمید کی بطور آئی ایس آئی سربراہی سے باجوہ ۔ فیض تسلسل کا نیا نیٹ ورک قائم ہو گیا ہے۔ اس ’مفروضہ ماڈل‘ کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں تو اس میں بے شمار خامیاں نظر آتی ہیں۔ 12 سالہ پائیدار ترقی کے راستے میں ابھی بہت سی عملی رکاوٹیں کھڑی ہیں،فوج کی نئی قیادت ملکی، سیاسی اور معاشی صورتحال کو کنٹرول کر سکے گی یا نہیں؟ کیا یہ قیادت کامیاب ہو گی کہ کوئی تحریک نہ چلے؟ اور کیا یہ کچھ ایسا منصوبہ بنا لیں گے جو بھارت کی سازشوں سے بچائے رکھے اور کیا یہ قیادت پی ٹی آئی کی نااہلیوں پر مسلسل پردہ ڈالے رکھے گی؟ یہ سب وہ مسائل ہیں جن سے اتنے طویل عرصے تک انھیں پنجہ آزمائی کرنا ہوگی۔ سچ تو یہ ہے کہ ’انسان تجویز کرتا ہے اور خدا اسے مسترد کرتا ہے‘ اس لیے اس ساری کوشش اور محنت کی بجائے اگر سیاسی اداروں کو مستحکم کرنے اور پارلیمانی اداروں کی تربیت پر توجہ دی جائے تو پھر جمہوری پائیدار ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔ سیاسی پارٹیوں کو توڑنے کی بجائے انھیں مالی امداد دے کر ان کی تنظیم نو کی جائے اور ان کے اندر تھنک ٹینک بنائے جائیں، انھیں بیرون ملک اور اندرون ملک تربیت کی سہولت دی جائے۔ برطانیہ کی طرح نوجوان پارلیمانی لیڈرز کی آن جاب ٹریننگ ہو، پہلے انھیں جونئیر انتظامی عہدے دیے جائیں اور پھر آہستہ آہستہ انھیں وزارت جیسی سینیئر ذمہ داریاں دی جائیں، اگر جمہوریت کا صرف نام برقرار رکھنا ہے تو کل کو پھر اس کی قلعی کھل جائے گی۔ اصل اور مکمل جمہوریت ہی مسائل کا واحد حل ہے اور اس کے لیے پارلیمان کی مضبوطی واحد راستہ۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website