لاہور: پاکستان کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے ۔انہیں تشدد کانشانہ بنا کر احکامات پر عمل کرانا سکھایا جاتا ہے ۔سابق وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی جو پہلے سابق گورنر و وزیر اعلیٰ پنجاب غلام مصطفے کھر کی منکوحہ تھیں ،انہوں نے اپنی کتاب ”مینڈا سائیں“ میں جیلوں میں قیدیوں کی حالات زار کے واقعات سے پردہ اٹھاتے ہوئے اپنی ان یادداشتوں کو قلم بند کیا ہے جب وہ اپنے شوہر (سابقہ) سے انکی قید کے دوران جیل میں ملاقات کے لئے جایا کرتی تھیں۔

اب مصطفےٰ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی طرف بڑھا ۔ اس کی آنکھوں میں دھمکی تھی ۔ اس نے عذاب دینے والے کو گالوں سے لیا۔ میں نے ایک زوردار تھپڑ کی آواز سنی پھر ایک اور تھپڑ پڑا۔ ڈپٹی کے اوسان خطا ہوگئے لیکن اس میں ہمت نہ تھی کہ پلٹ کر کچھ کہتا یا کرتا۔ مصطفےٰ کھر ان قیدیوں میں ایسا آدمی تھا جس کا لحاظ کرنے پر ڈپٹی مجبور تھا۔ مصطفےٰ نے کڑکتی ہوئی آواز میں کہا” اگر میں نے دوبارہ کوئی چیخ سنی تو میں مار مر کر تمہارا کچومر نکال دوں گا“ اتنا کہہ کروہ مڑا اور لمبے لمبے قدم اٹھاتا اپنی کوٹھری کی طرف چلا گیا ۔ مشن مکمل ہو چکا تھا اگر قیدیوں میں حوصلہ ہوتا تو وہ واہ واہ کر اٹھتے ۔ ان کی نگاہوں سے تحسین کی کیفیت چھلک رہی تھی ۔ مصطفےٰ نے یہ دکھا دیا تھا کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ وہ ان کا نگہبان ہے۔ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ مصطفےٰ کے پاس کوٹھری میں آیا ۔ تین پولیس والے اس کے ہمراہ تھے ۔ وہ ابھی تک حواس بافتہ تھا۔ (مصطفےٰ کو ہمیشہ سر ہی کہا جاتاتھا) ” آپ کو اتنے سارے قیدیوں کے سامنے مجھے تھپڑ نہیں مارنے چاہئیں تھے۔ اب وہ کبھی میری عزت نہیں کریں گے“ تم ان کی عزت کے مستحق ہی کب ہو۔ تم خوف اور تشدد کے بل بوتے پر حکومت نہیں کر سکتے ۔ میں تمہیں ملازمت سے نکلوا دوں گا۔ تمہیں معاف نہیں کیا جائے گا۔ حرامزادے، ہمارے پاس سے چلے جاﺅ۔ میں تم سے گفتگو کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتا۔ وقت آنے پر تم سے نمٹ لوں گا“ یہ حاکمیت بھرا لہجہ تھا جس میں قہاری بھی تھی اور یہ اشارہ بھی کہ جاﺅ دفع ہو ، مصطفےٰ نے ، جو کبھی پنجاب کا گورنررہ چکا تھا۔ اپنے ماضی کا لب و لہجہ پھر سے اپنا لیا تھا۔ اس بدبخت افسر نے زیر لب بڑ بڑا کر معافی مانگی اور شرمندگی سے وہاں سے چلا گیا۔








