counter easy hit

مہمان نوازی، پھول اور بچے

Flowers

Flowers

تحریر : ممتاز ملک
ڈنمارک کے کوپن ہیگن ائیر پورٹ پر اترتے ہی 35 منٹ چلتے چلتے بے حال ہم پہنچے سامان کے پٹے پر ۔ جلد ہی اپنا سوٹ کیس دکھائی دیا تو خوشی ہوئی کہ مزید انتظار نہیں کرنا پڑیگا ۔ ٹرالی پر سامان ٹکایا اور باہر جانے والے دروازے سے نکلتے ہی سرخ کوٹ میں خوشی سے ہاتھ لہراتی ہوئی صدف مرزا ہمارے سامنے تھیں لپٹ کر محبت سے گلے ملیں، پیار سے چہرہ چوما، اور یوں لگا کہ ہم کہیں اور نہیں بلکہ اپنی ہی بہن کے گھر اپنی ہی عزیز ہستی کے گھر آ گئے ہوں ۔ ان کے ساتھ میں محترمہ مہ جبیں غزل انصاری صاحبہ کیساتھ یہ ہماری پہلی بالمشافہ ملاقات تھی ۔ جو بیت ہی پیار سے ملیں۔

معلوم ہوا کہ ایک اور فلائیٹ سے پیرس سے ہماری معروف شاعرہ ثمن شاہ صاحبہ بھی آ چکی ہیں انہیں کا انتظار ہے ۔ پندرہ منٹ میں انہیں بھی سامان کی ٹرائی کیساتھ باہر آتے ہوئے دیکھا تو سبھی محبت سے ایک دوسرے سے ملے بلکل ایسا لگ رہا تھا جیسے سکول کالج کی بچیاں کسی ٹرپ کے لئے اکھٹی ہوئی ہیں ۔ سب کی خوشی دیدنی تھی۔ سہارا ٹائمز کے کیمرہ مین اور صدف صاحبہ کے کولیگ زبیر بھائی نے ہمیں اپنی گاڑی میں صدف جی کے گھر تک پہنچایا ۔ اور رخصت لی۔ گھر پہنچتے ہیں ہمیں وارننگ ملی کہ کڑیو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہے اس میں کھانا بھی کھانا ہے اور تیار ہو کر آج کے پروگرام میں بھی پہنچنا ہے ۔ ہمارے فریش ہونے تک صدف جی نے کھانا جو میز پر لگایا تو ہم حیران رہ گئے کہ اس قدر مصروف خاتون نے کیا تھا جو نہیں بنا رکھا تھا۔

دوسروں کے گھر میں فرش پر بھی گدا ڈال کر سو جانے والی صدف مرزا اپنے گھر میں اس قدر لوازمات سجائے بیٹھی تھیں اور بصد اصرار ایک ایک لقمہ کھانے پر مصر تھیں کہ کہنا پڑا کہ بی بی کیا بچے کی جان لو گی کِھلا کِھلا کر۔ بھاگتے دوڑتے گاڑی کے آنے کی خبر سنتے ہیں فلیٹ سے نیچے کو لپکے۔ پروگرام سے واپسی پر رات دس گیارہ بجے پھر وہی مدارات اور تو اور دو دن کے لیئے کروز نامی شپ میں ہم چاروں خواتین کا قیام ، ناروے کا دورہ کروانا ہو یا جتنے روز بھی ان کے ہاں ہمارا قیام رہا ہر لمحہ ہمارے کھانے پینے کا خیال ، سونے کا خیال ، ٹرانسپورٹ کا انتظام غرض کہ ہمیں کسی بھی بات کے لیئے نہ تو سوچنا پڑا ، نہ ہی کوئی تردد کرنا پڑا . پروگرامز کے دوران بھی ہر مہمان کی عزت اور مرتبے کا پورا پورا خیال رکھا ۔ نبلکہ ہم تو یہاں تک کہین گے کہ ہماری اوقات سے زیادہ ہمین عزت دی ۔ یہاں ہمیں وہ بونی عظیم ہستی بھی یاد آئی کہ جو دو دو ماہ قبل منّتیں کر کے پروگرام کروانے کے لیئے کسی کو تیار کرتی ہیں ۔ اس کے نام پر مہمان اکٹھے کرتی ہیں اور عین پروگرام کے دوران اس میزبان کو نہ صرف پہچاننے سے انکاری ہوتی ہیں بلکہ سٹیج پر اس لیئے اس کی کرسی تک نہیں لگواتی کہ کہیں اس کی بونی ہستی کا وزن اور ہی کم نہ ہو جائے۔

اس لیئے صدف مرزا صاحبہ کے لیئے یہ ہی کہوں گی کہ انہوں نے حق میزبانی سے بھی بہت زیادہ کیا ہم سب کیساتھ ۔ وگرنہ میرے سامنے تو ایسی بھی مثالیں ہیں جہاں خود کو عظیم ثابت کرنے والی بونی ہستیاں دوسرے ملکوں سے مہمان بلا کر انہیں مدعو تو کرتی ہیں ،مگر نہ تو انہیں پہنچنے کا مقام بتایا جاتا ہے نہ ہی کوئی پروگرام کا شیڈول دیا جاتا ہے اور تو اور کئی تو انہیں ٹیلفون پر بھی سلام دعا کرنے سے غائب ہو جاتی ہیں اور کئی تو گھر آنے کی دعوتیں دیکر گھر سے ہی غائب ہو جاتی ہیں یا پھر دروازوں کے پیچھے چھپ کر گھر پہ ہی نہ ہونے کا بھی سوانگ رچاتی ہیں ۔ ایسے زمانے میں خود اسقدر مصروف ہستی ہونے کے باوجود اس طرح گھر بلا کر مہمانوں کی ہر ہر بات کا خیال رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔جسے دیکھ کر یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ انسان کے کردار کی بلندی دیکھنا ہو تو اس کی میزبانی کا جائزہ لے لینا چاہیئے ، اور اس میزبانی میں صدف مرزا صاحبہ کو بلاشبہ پورے نمبر دیئے جا سکتے ہیں۔

وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ کام کرنے والی خواتین یا لکھنے والی خواتین ایک اچھی گھردار نہیں ہو سکتی ہیں تو ان کے لیئے تو ایسی تمام خواتین ایک مثال کی حیثیت رکھتی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنی تعلیم کو جاری رکھا اپنی اولاد کو بہترین پرورش بھی دی اور اعلی تعلیم بھی دلوائی اور انہیں لڑکا اور لڑکی کے فرق کے بغیر مکمّل گھرداری بھی سکھائی ۔ جس کی وجہ سے بیٹی آج بائیس برس کی عمر میں اپنا گھر بھی کامیابی سےچلا رہی ہے اور شادی کے بعد ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوں اپنی میڈٰیکل کی تعلیم بھی مکمل کر چکی ہیں اور مزید تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ جبکہ بیٹا بھی یونیورسٹی کا ایک لائق طالب علم ہے۔

لیکن ماں کی ایک ایک بات کی فکر کرنے اور خیال کرنے والا پیارہ برخوددار بھی ہے ۔ ایسے گھر تبھی بنتے ہیں جب مائیں اپنی خواہشیں اور معمولات کو اپنے مچوں کی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیتی ہیں ۔ وگرنہ خود رات کے دو دو بجے مخلوط محفلوں میں بیٹھی خواتین اپنی اولادوں کو اپنی ہی خواہشات کی بھینٹ چڑھاتی تو اکثر ہی دکھائی دے کھاتی ہیں ۔ اور انہیں یہ کہنے کا بھی موقع نہیں مل پاتا کہ اب پچھتاوے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت اولادوں کی پرورش کوئی مذاق نہیں ہوتا اس کے لیئے خون جگر ہی نہیں دینا پڑتا بلکہ اپنے دماغ کا پانی بھی پلانا پڑتا ہے تب کہیں جا کر اولاد نامی پودے تندرستی سے پروان چڑھتے ہیں ۔ یہ نہ ہو تو انہیں مرجھاتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنی اولادوں کی بہترین تربیت کرنے کی توفیق اور سمجھ عطا فرمائے۔ آمین

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک