counter easy hit

پاکستان میں مہلک امراض کے علاج کی سہولتوں کا فقدان

Health

Health

تحریر: نعیم الاسلام چوہدری

دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک میں حکومتیں اپنے عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کیلئے بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ وقف کرتی ہیں اور کئی ممالک میں تو جی ڈی پی میں دفاع سے بھی زیادہ وسائل صحت کے شعبہ کیلئے مختص کئے جاتے ہیں۔پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں صفائی اور حفظان صحت کی سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے بیماریوں کا تناسب بھی زیادہ ہے تو اسی حساب سے پاکستان میں صحت کیلئے بجٹ میں وسائل بھی زیادہ دینے چاہئییں مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس صورتحال میں عوام جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے ہیں جب وہ گوناگوں مہلک بیماریوں کا شکار ہو کر ہسپتالوں کار خ کرتے ہیں تو وہاں ان کو ایک عجیب و غریب سی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے سامنے صحت کے شعبے کی بھی ایک طبقاتی تقسیم ہوتی ہے۔

ایک طرف تو ایک روپے کی پرچی والے سرکاری ادارے ہیں جہاں صحت کی انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال ہے تو دوسری طرف مہنگے پرائیویٹ ہسپتال اور ادارے ہیں جن کی بھاری فیس ادا کرنے کیلئے لوگ قرض لینے اوراپنی جائیدادیں تک بیچ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

امریکہ ، یورپ ، سعودی عرب سمیت بیشتر ممالک اپنے شہریوں کو مفت علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرتے ہیں عوام ان کوخوشی سے ٹیکس دیتے ہیں تاکہ وہ ان کوصحت کی بہترین سہولیات زندگی فراہم کریں ۔ہر مہلک بیماری کے لیے خصوصی شعبہ جات اور اس بیماری کے سپیشلسٹ ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں۔ ان ملکوں میں میڈیکل کی تعلیم کے ادارے عوام کی تعداد کے مطابق قائم کئے جاتے ہیں جبکہ پاکستان میں ہزاروں مریضوں کیلئے کئی علاقوں میں بعض اوقات ایک ڈاکٹر بھی نہیں ملتااور پاکستان میں بھی دور افتادہ پسماندہ علاقوں اور دیہات وغیرہ میں تو لوگ علاج کی جدید سہولیات سے یکسر محروم ہی ہوتے ہیں اور نیم حکیم قسم کے معالجوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں لڑکیاں ڈاکٹر بن کر گھر داری میں لگ جاتی ہیں اور لڑکے اعلی تعلیم و روزگار عوام کو لاچار چھوڑ کر کیلئے بیرون ملک چلے جاتے ہیں ۔

اس تمام صورتحال کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میںکم فیس والے میڈیکل کی تعلیم کے زیادہ سے زیادہ ادارے قائم کیئے جائیںاور میڈیکل کے شعبے میں بیرون ملک پاکستانیوں کی انوسٹمنٹ کو ٹیکس سے مستثنی قرار دیا جائے۔پاکستان کے بڑ ے شہروں لاہور ، اسلام آباد ، کراچی میں بہبو دصحت کیلئے کئی اچھے سرکاری و نجی ہسپتال قائم ہیںلیکن وہ پورے ملک کی آبادی کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے تو کیا ان شہروں میں رہائش پذیر شہریوں کو بھی مناسب قیمت پر اچھا علاج فراہم کرنے کی مکمل استعداد نہیں رکھتے۔

ایمبولنس سروس بھی انتہائی مہنگی ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں صورتحال یہ ہے کہ وہ صرف بہت بڑے شہروں میں ہی قائم ہیں ، پھر ان میں صفائی کی حالت انتہائی خراب ہے، عوام کا رش اور مریضوں کی دھکم پیل لگی ہوتی ہے۔یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ مریض کی بیماری سے متعلقہ کوئی شعبہ قائم بھی ہے یا نہیں ،بہت مشکل سے مریض گرتا پڑتا کسی متعلقہ شعبہ میں پہنچتا ہے تو وہاں ڈاکٹر ہی نہیں ہوتے ، کچھ دو ماہ سے بیرون ملک دورے پر گئے ہوتے ہیں، کچھ میں نوجوان لڑکے لڑکیاں زیر تربیت ڈاکٹر جو ابھی نئی نئی ہائوس جاب کر رہے ہوتے ہیں

وہ بیٹھے خوش گپیاں کر رہے ہوتے ہیںجن کی توجہ مریض سے زیادہ اپنے کپڑوں ، موبائل اور بنائو سنگھار کی طرف ہوتی ہے اور وہ ہر مریض پر نئے نئے مطالعاتی تجربے کر کے اپنے ڈاکٹری تجربے میں اضافہ کررہے ہوتے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں سے بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے کے باوجود ہر اچھے ڈاکٹر کا ایک پرائیویٹ کلینک بھی لازمی ہو تا ہے، مریض سرکاری ہسپتال میں سفارش کرواکے کسی اچھے ڈاکٹر تک پہنچتا ہی ہے کہ وہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مریض کو خوشخبری سناتے ہیں کہ تمہارے مرض پر خصوصی توجہ اور تشخیص کی ضرورت ہے اور وہ اسے شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر پہنچنے کا کہہ دیتا ہے ، جہاں مجبور مریض سے بھاری فیس لینے کیلئے عملہ چھریاں تیز کر کے تیار بیٹھا ہوتا ہے۔

سرکاری ہسپتالوں میں تو ہڈی پسلی ٹوٹے مریض کی طرف بھی کوئی توجہ نہیں دیتا ، مہلک بیماریوں شوگر ، ہیپاٹائٹس ، ٹی بی وغیرہ کو تو بالکل یتیم شعبہ جات تصور کیا جاتا ہے، جہاں کبھی کبھار ایک ڈاکٹر بیٹھا ہوتا ہے جو ہفتے میں کسی کسی دن ہسپتال آنے کی زحمت کر تا ہے۔اپنے رشتہ دار مریضوں کوایسی لاچار اور بے بس صورتحال میں دیکھ کر ہر پاکستانی اللہ تعالی سے ان بیماریوں سے پناہ مانگنے پر مجبور ہو جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پائی جانے والی فضائی آلودگی، ناقص خوراک ، ادویات والی دوائیاں ،برائلر گوشت اورخراب پانی کی وجہ سے ہر گھر میں مہلک بیماریوں کا مریض لازمی پایا جاتا ہے اور بڑھاپے میں تو شاذ ونادر ہی کو ئی بوڑھا بزرگ ان بیماریوں کا شکار ہونے سے بچتا ہے۔پاکستان کی ایک کروڑ سے دو کروڑ کے درمیان آبادی شوگر یا ذیابیطس جیسے مہلک مرض کا بھی شکار ہے

پہلے اس مرض کو امیروں کی بیماری کہا جاتا تھا لیکن اب ٹینشن کی وجہ سے ہردوسرا شخص اس کا شکار ہو رہا ہے، والدین سے یہ بیماریاں بچوں میں بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔شوگر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ موت دیتی ہے یا موت جیسی زندگی ، پاکستان جیسے صحت کی کم سہولیات والے ملک میں یہ فقرہ تو بہت حد تک سچ ہی ثابت ہوتا ہے کہ جس دن جس سفید پوش شخص کو علم ہوتا ہے کہ اس کو شوگر یا ہیپاٹائٹس بی سی وغیرہ کا مہنگا مرض لاحق ہو گیا ہے تونہ صرف وہ بلکہ اس کے رشتہ دار ، ماں باپ ، بیوی بچے جیتے جی ہی مر جاتے ہیں۔

این جی اوز ایف آئی ایف فلاح انسانیت فائونڈیشن ، ایدھی ٹرسٹ ، الخدمت ٹرسٹ وغیرہ جیسے ادارے بھی اس سیکٹر میں کام کر رہے ہیں لیکن فنڈز کی کمی کی وجہ سے ان کو مخیر حضرات کی سرپرستی کی اشد ضرورت ہے۔سرکاری ہسپتالوں کے علاوہ پرائیویٹ اداروں میں بھی مہلک بیماریوں کے اچھے علاج کی سہولیات بھی قابل ذکر نہیں مثال کے طور پر شوگر یا ذیابیطس جیسے مہلک مرض جس میں پاکستان کی ایک بڑی آبادی مبتلا ہے اس کا اچھا علاج کسی سرکاری تو کیا پرائیویٹ ادارے میں بھی ڈھونڈنا ناممکن نظر آتا ہے، لاہور سمیت پاکستان میں ہیپاٹائٹس اور شوگر سمیت مہلک امراض کے سپیشل علاج اور آپریشن کیلئے ادارے بہت کم پائے جاتے ہیں

،جن میں گھرکی ہسپتال ،جیل روڈ لاہورپر قائم ڈائیبیٹک انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اور اسلامیہ پارک لاہور میں ریاض قدیر انسٹی ٹیوٹ عوام کو صحت کی اچھی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صحت کی ناگفتہ بہ صورتحال میں ایسے ادارے بھی غنیمت ہیں کیونکہ زیادہ فیس پر ہی سہی لیکن کم از کم مریضوں کا علاج کرنے والے سپیشلسٹ تجربہ کار ڈاکٹر تو موجود ہو تے ہیں، ان اداروں میں پاکستان کے دور دراز علاقوں لوگ علاج کرانے آتے ہیں۔

گھر کی ہسپتال لاہور کے ڈاکٹر عامر عزیز نے پاکستان میں اعلی درجے کا سپائن آپریشن سنٹر قائم کیا ہے وہ اور عارف ریاض قدیر جو لاہور میں ریاض قدیر ذیابیطس انسٹی ٹیوٹ چلا رہے ہیں ان جیسے اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی پاکستان کو بہت ضرورت ہے۔ محب وطن جذبہ خدمت خلق سے سرشار کئی سینئیر ڈاکٹر لاکھوں ڈالروں کی غیر ملکی تنخواہیں چھوڑ کرپاکستان میں عوام کی خدمت کیلئے اداروں کے قیام اور چلنے میں اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں صحت کی اچھی صورتحال کیلئے بجٹ کا بڑا حصہ مختص کیا جائے اورصحت کی سستی لیکن اچھی سہولیات فراہم کرنے یلئے پرائیویٹ سیکٹر کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کرنے کیلئے مخیر حضرات زیادہ سے زیادہ سامنے آئیں۔

 Naeem Islam Chaudhry

Naeem Islam Chaudhry

تحریر: نعیم الاسلام چوہدری