counter easy hit

کوہلو کا بیل

Happy Life

Happy Life

تحریر : وقار انسا
اچھی خوشحال زندگی گزارنا ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے اور اسی خواہش کی تکمیل مین انسان سرگرداں رہتا ہے جو سہولیات اسے میسر نہیں ہوتیں انہیں پانا چاہتا ہے جن محرومیوں کا شکار خود رہا ہو آنے والی زندگی میں اپنے بچوں کو ان سے دور کرنا چاہتا ہے ان کو ہر ممکن آرام اور آسائش پہنچانا چاہتا ہے یہی خواہشات اسے کشاں کشاں دیار غیر لے آتی ہیں وہ بارڈر کراس کر کے آنے کی صعوبتں ہوں جعلی پاسپورٹ پر آنے کا انتہائی سنگین جرم یااپنی شناخت سے ہٹ کر کسی دوسری فیملی سے فراڈ سے جوڑا گیا تعلق انسان سب کر گزرتا ہے اس بات کی بھاری قیمت اسے یورپ آکر ادا کرنی پڑتی ہے چھپ چھپا کر کام کرنا کم اجرت پر کام کرنا اس کی مجبوری ہے۔

کیونکہ والدین کی جمع پونجی لگا کر وہ آیا ہے اس لئے جو کام ملے کرتا ہے ایک کمرے کے گھر میں چھ لڑکوں کے ساتھ رہتا ہے جہاں اسے مشکل سے لیٹنے کی جگہ مل پاتی ہے – والدین کہتے ہیں نائٹ ڈیوٹی بھی کر لو کیونکہ قرض چکانا ہے اسی بھاگ دوڑ میں چوبیس گھنٹے کے دن رات مین چار گھنٹے بھی آرام مل جائے تو بڑی بات مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق پوری جان لگا کر محنت مزدوری کرتا ہے اس کے نصیب میں تو تازہ روٹی بھی نہ رہی تھی رات کو روٹی بنا کر رکھتا ہے اور وہی جتنی دیر کام کرے کھا تا ہے۔

روکھی سوکھی کھا کر کام میں جتا رہتا ہے جب دوسال کی ہلکان کرنے والی دوڑ سے فراغت ہوتی ہے تو پاکستان کی یاد ستانے لگتی ہے کیونکہ قرض تو اس نے اتار دیا اب گھر والوں کا خرچ اور کاغذات بنوانے ہیں تاکہ لیگل ہو کر پاکستان جاسکے پھر دوہری مشقت کرنے لگتا ہے ابا جی کا حکم آتا ہے ابھی جوان جہان ہو کام کرو مکانوں کی حالت بہت خستہ ہے لوگ کہتے ہیں بیٹا یورپ میں ہے کاغذات کے بغیر بھی تو دوسال گزر گئے گھرزیادہ پیسے بھیجو کاغذات بعد میں بنتے رہیں گے نہ دن کا ہوش نہ رات کا مشینی زندگی نہ اچھا کپڑا پہننے کی ہوش۔

بالاخروہ پیسے لگا کر دوسرے ملک کے کاغذات بنوا لیتاہے مکان بھی دو سال کی کمائی کھا گئے اپنے وطن کی یاد پھر ستانے لگتی ہے پانچ سال سے اس نے گھر والوں کو نہیں دیکھا- پاکستان کہیں بھاگا جارہا ہے یہاں حالات ایسے ہیں ہر کوئی یہاں سے بھاگنا چاہتا ہے تمہارے بھائی بہنوں کو اب اچھا پہننے اوڑھنے کی عادت ہو گئی ہے ان کا خیال بھی کرنا پڑتا ہے وہ بے چارے یہاں رہ رہے ہیں تم یورپ میں کچھ احساس کیا کرو یہاں زندگی گزارنا کتنا مشکل ہے ؟ کیا تم نہیں جانتے؟اباجی پھر یہ مفصل جواب دیتے ہیں تمہاری دو جوان بہنیں ہیں ان کی شادی کرنی ہے دل لگا کر کام کرو اور پیسے بھیجو مہنگائی اتنی ہے کوئی چیز ھاتھ نہیں لگانے دیتی۔

اس دفعہ زیادہ بھیجنا ابا جی کا طویل حکم ملتا ہے میرا دل بھی چاہتا ہے ان کی شادی میں شریک ہوں کیوں کرایہ لگائے گا اور ایک مہینہ کی تنخواہ کا بھی گھاٹا کھائے گا شادی تمہارے بغیر بھی ہو جائے گی میں اور حسیب ہیں سب سنبھال لیں گے تم وہی رقم گھر بھیج دو کسی کام آ جائے گی ابا تو اسے گھر آنے کی اجازت قطعا نہ دیتے تھے سوچنے لگتاہے بہنوں کی شادی کے بعد پاکستان جائیگا اس نے بھی تو شادی کرنی ہے۔

لیکن اس فریضہ کے ادا ہونے کے بعد بھی اجازت نہین ملتی حسیب کو موٹر سائیکل لے کر دینا ہے اور بینا کے ہاں بیٹا ہوا ہے پہلا بھانجا ہے ماموں ہو اتنا تو اور بھیجو کہ اس کو کچھ دے دلا آئیں- پہلیرابی کی بچی کوصرف لاکٹ بنوا کر دیا تھا اب خیال ہے دونوں بہنوں کو بالیاں بنوا دوں- پاکستان والے تو عیش کر رہے ہیں میرا نہیں سوچتے بیچارہ سوچتا رہ جاتا۔

شادی کی خواہش کی تو آخر اجازت مل ہی گئی تصویر بھیجو لڑکی ڈھونڈتے ہیں – اس نے سوچا کبھی ڈھنگ کاکپڑا تو لیا نہیں ان دس سالوں میں !دوست کی جیکٹ اور شرٹ لیتا ہے پینٹ پرانی ہی ٹھیک ہے ہاں دوسرے دوست سے کالا چشمہ لے لیتا ہوں-بالوں کی کٹنگ کروا کر جل لگا تا ہے پھر باہر کسی اچھی سی گاڑی سے ٹیک لگا کر اور پھر کسی پارک میں پھولوں کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنا لیتا ہے بات پھر بھی نہیں بنی اباجی کہتے ہیں حسیب آسٹریلیا جانا چاہ رہا ہے وہ پریشان ہو کرکہتا ہے اسے کیا ضرورت ہے اتنی آسائشوں کی زندگی تو گزار رہا ہے وہیں نوکری ڈھونڈھے ملک سے باہر کچھ نہیں رکھا- بھائی کا فون آتا ہے خود تو عیش کر رہے ہیں مجھے پاکستان رہنے کا کہتے ہیں۔

سو یہ کام بھی وہ سرانجام دے ہی لیتا ہے حسیب آسٹریلیا پہنچ جاتا ہے خیر اس کا رشتہ پکا ہو جاتا ہے اور وہ سر میں چاندی کے تار اور آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے پاکستان پہنچ ہی جاتا ہے شادی بھی ہو جاتی ہے جس میں اس کا بھائی شریک نہیں-وہ آسٹریلیا چلا گیا تھا-زندگی میں بیوی کے آنے سے کچھ بہتری محسوس ہو تی ہے واپس آتا ہے تو ذمہ داریوں کا بوجھ اور بڑھ جاتا ہے ابھی تو بیوی کو یہاں بلانے کا مرحلہ باقی ہے۔

محنت محنت اور محنت باقی کچھ نہیں-قدرت نے یہ معرکہ بھی سر کروا ہی دیا اس کی ساتھی اس کے پاس پہنچ گئی بیوی نے آ کر دیکھا دن رات کی مزدوری اور میلے کچیلے کپڑے!ایسا تو میں نے نہیں سوچا تھا !! سارا سارا دن مین اکیلی بولائی ہوئی پھرتی ہوں اور آپ اس قسم کی مزدوری کیوں کرتے ہیں آپ کے پاس اب تو اس ملک کے پیپر ہیں کوئی کاروبار کر لیں آج ہم دو ہیں کل بچے ہوں گے ان پر برا اثر پڑے گا مجھے بھی یہ حلیہ دیکھ کر سخت کوفت ہوتی ہے کوئی صاف ستھرا کام کریں محنت کریں کوئی اپنا کاروبار شروع کریں محنت !!! کوہلو کا بیل پھر جت جاتا ہے۔

تحریر : وقار انسا