counter easy hit

کراچی شہر کے 21 ممبران قومی اسمبلی 15، 15 کروڑ کا فنڈ لے چکے مگر کراچی شہر کا حال کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ، قومی اسمبلی میں بحث ،

اسلام آباد(ایس ایم حسنین) قومی اسمبلی میں وفاقی وزیربرائے نجکاری محمد میاں سومرو کی طرف سے 20جولائی 2020 کو حکومت کی نجکاری پالیسی سے متعلق پیش کردہ تحریک پر مزید بحث کا آغاز کیا گیا۔ ممبرقومی اسمبلی امجد علی خان نے بحث کے آغاز میں کہا کہ اگر 1970میں جائیں تو راتوں رات تمام پاکستان کی انڈسٹری قومیا لی گئی اور ایک ایسے نظام کی بنیاد رکھی گئی جس نے پھلتی پھولتی صنعتی ترقی کو اندھیروں میں دھکیل دیا ۔ ان صنعتوں کو قومیانے کے بعد اس میں ایسی خامیاں پیدا ہوئیں جس کے نقصانات آج بھی ہم بھگت رہے ہیں۔ اس کے بعد 1978 میں مال مفت دل بے رحم کے مصداق جنرل ضیا الحق نے شریف برادران کوبغیر ٹینڈر اتفاق فائونڈری دے دی اور اپنا لے پالک بیٹا بھی بنالیا۔ اس کے بعد 22 جنوری 1991 کو دوبارہ نجکاری کا آغاز ہوا جس میں بہت سے کاروباری ادارے ایسے لوگوں کے حوالے کیے گئے جن کے اپنے کاروبار بڑھتے گئے مگربیچے گئے ادارے بدحالی کا شکار ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوجرانوالہ میں جوکچھ فاطمہ جناح کے ساتھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے لہذا خرم دستگیر خان کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ عدالت پر حملے کرنے والے کون تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 1992 میں جو یونٹس فروخت ہوئے انھیں اتنے سستے داموں بیچا گیا اور ان اداروں کو اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ سٹیٹ بنک کو اسے واپس لینا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ امپائر اللہ کی ذات ہے وہ بہت مہربان رحم کرنے والا ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ لوگ جب سجدوں میں گر جاتے ہیں تو این آر او ون ٹو اور تھرے آتے ہیں۔ جن لوگوں نے ووٹ کی عزت کو بڑھانے کا دعویٰ کیا ہے ان کو عوام جان چکی ہے۔ سلطنت کو دوام بخشنے کیلئے آپ نے جو ہتھکنڈے استعمال کیے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے لے پاک بیٹے کا دفاع کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس کا دفاع کر رہے ہیں۔ آخر ایسے کیا مفادات ہیں جن کے تحت دو متضاد پارٹیاں اکھٹی ہوگئی ہیں۔ ان لوگوں کا نظریہ کرپشن بچائو مال بنائو کا ہے۔ یہ لوگ اسی کیلئے کام کرتے رہے ہیں اور کرتے رہینگے۔

پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہا ہے کہ ہم تو دو سال پہلے پڑوسی ممالک خریدنے کی باتیں کرتے تھے، اربوں ڈالر واپس لانےکے دعوے کرنے والے اب اثاثے بیچ کیوں رہے ہیں؟ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عبد القادر پٹیل نے کہا کہ کیا صدر، وزیراعظم اور اسد عمر نے نہیں کہا تھا اسٹیل مل ہم چلائیں گے، انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل کے ساتھ سندھ کی 12 ہزار ایکڑ زمین بھی ہے، کورونا میں چھابڑی والے کا خیال رکھنے کا کہا دوسری طرف اسٹیل مل کے لوگ نکال دئیے، لاکھوں لوگ ملک میں بے روز گار ہوگئے ہیں۔ ایک وزیر نےبیان دے کر پی آئی اے کا بیڑا غرق کردیا۔ انھوں نے کہا کہ معاون خصوصی برائے سیاحت کی جو شہرت ہے، روزویلٹ سے لےکر پوری سیاحت کو خطرہ ہے۔ عبد القادرپٹیل کا کہنا تھا کہ کراچی میں دس سال کی ریکارڈ بارش ہوئی، تحریک انصاف کے کراچی سے 14 ایم این ایز ہیں، تحریک انصاف کے کراچی کے ایم این ایز کو 15،15کروڑ روپے بھی دیے گئے، ایم کیو ایم کے اتحادی ایم این ایز کو بھی فنڈز دیے گئے۔ کیا ان ایم این ایز نے اپنے حلقوں میں سیوریج پر یہ پیسے لگائے؟ عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ بلاول بھٹو کے بارش کے پانی کی بات پر مذاق اڑایا گیا، آپ نے رات کو آکسیجن نکال دی، جرمنی، جاپان کو ملادیا، پام آئل منہگا ہونے کو بجلی مہنگی ہونےکی وجہ بتادی۔ کے الیکٹرک کی نااہلی کی وجہ سے لوگ اب بھی کرنٹ لگنے سے مر رہے ہیں، پورا ملک ہی ایک ساتھ پرائیویٹائز کر دیں۔ عبد القادر پٹیل نے کہا کہ ملک کو دو سال میں اس نہج پر پہنچا دیا ہے، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی، عبد القادر پٹیل پر ذو معنی گفتگو کرنے پہ برہم ہوگئے۔ عبد القادر پٹیل نے کہا کہ ارکان کو کہیں پیٹھ نہ کیا کریں، ڈپٹی اسپیکر نے اس پر کہا کہ آپ ایسی باتیں نہ کریں آپ کی پیٹھ بھی کسی کی طرف ہے۔ جس پر قادر پٹیل نے کہا کہ آپ تو پتہ نہیں کیوں برہم ہو گئے میں نے تو رولز کا حوالہ دیا، رولز میں ہے چئیر کی طرف پیٹھ نہیں ہونی چاہیے، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ آپ یہ باتیں چھوڑیں اپنی تقریر کریں۔ قومی اسمبلی میں نجکاری پربحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے کمالیہ سے ممبرقومی اسمبلی ریاض فتیانہ نے کہا کہ ماضی کی نجکاری کی صورتحال انتہائی ناقص رہی ہے۔ سٹیل مل جو کہ 2007 تک منافع بخش ادارہ رہا ہے اس کے بعدیہ سفید ہاتھی بن چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوائنٹ سکورنگ کے بجائے قومی اثاثوں کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ لہذا وزیراعظم کا ویژن بہت کلیئر ہے کہ پاکستان کی معیشت کو بہترین بنایاجائے۔ اس لیے پی آئی اے اور سٹیل مل کے ساتھ ریل کا نظام بھی نجی تحویل میں دیا جانا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں غربت کے خاتمے کیلئے صنعتیں لگائی جانی چاہییں، زراعت کو بہتر بنایا جانا چاہیے تاکہ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری آئے۔ ماضی میں بیرونی سرمایہ کاری حکومتی اہلکاروں کی طرف سے کک بیکس کے تقاضوں پر کم رہی لیکن اب ایسا نہیں ہے لہذا بیرونی سرمایہ کاری آنے کے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website