counter easy hit

ہارس ٹریڈنگ

Pakistan

Pakistan

تحریر:پروفیسر رفعت مظہر
آجکل پورا ملک گھوڑوں کی ہنہناہٹ سے گونج رہا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے علاوہ سیاسی جماعتوں میں بھی ”گھوڑے”ہی زیرِبحث ہیں اور ہم لکھاریوں کے ہاتھ ایک ایسا ”چَٹ پٹا” موضوع لگ گیا ہے جس پراب ڈھیروں ڈھیر کالم لکھے جاتے رہیںگے ۔ ہارس ٹریڈنگ پرتو ہم بعد میں بات کریں گے پہلے ذرا گدھوں کی بپتا سُن لیجئے جن کی قصابوں کے ہاتھوں شامت آئی ہوئی ہے ۔ہرروز کہیں نہ کہیں سے گدھے کا گوشت برآمد کرکے قصابوں کو”وقفِ مصیبت”کیا جارہا ہے جو ہمارے نزدیک بہت زیادتی ہے کیونکہ قوم ٹھہری گوشت خور اور پاکستان میں”گدھوں”کی کمی نہیں۔ گدھوں کے گوشت پر زیادہ سے زیادہ یہی الزام دھرا جاسکتا ہے کہ یہ گوشت حرام ہے

لیکن ”حرام خوری” توہماری نَس نَس میںسما چکی ہے اِس لیے اگرپاکستان میں استعمال ہونے والی دیگر بہت سی حرام چیزوںمیں گدھابھی شامل کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ گدھے کے گوشت کو حلال قرار دلوانے کے لیے ہمارے ذہن میںکچھ تجاویز آئی ہیں جنہیں ہم اپنے قارئین سے ”شیئر” کررہے ہیں۔ پہلی تجویزیہ کہ سیکولر دوستوں سے مشورے کے ساتھ حکومت کویہ تجویز دی جاسکتی ہے کہ وہ ”حکومتی مفتیوں”سے فتویٰ لے کرگدھے کوبھی حلال جانوروں میں شمار کرلے۔ اگر حکومت لیت ولعل سے کام لے تواُس کے خلاف جلوس نکالا اور دھرنا دیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہوتو ”نظریۂ ضرورت”کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ ایسی آئینی راہ ہے جسے جب ،جہاں اور جیسے جی چاہے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ نظریۂ ضرورت صڑف پاکستان میںہی استعمال کیاجا سکتاہے ۔اگر کچھ بھی بَن نہ پڑے تو سیّد شریف الدین پیرزادہ کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ہمیںیقین ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی آئینی راہ نکال کر گدھے کو حلال قرار دلواہی دیں گے۔

ہم گدھوںکی حمایت میںیہ ”بھرپور”دلائل محض اِس لیے دے رہے ہیںکہ ایک طرف تو”گھوڑوں”کے نخرے اٹھائے جارہے ہیں اوردوسری طرف اِس شریف جانور کا ہرجگہ استحصال ہورہا ہے جبکہ بنیادی طور پر گدھے ،گھوڑے میںکوئی فرق نہیںبلکہ ہم توسمجھتے ہیںکہ گدھا گھوڑے سے کہیں زیادہ مفید جانور ہے ۔وہ گھوڑے سے سو گُنا زیادہ کام انتہائی شریفانہ اندازمیں کرتا رہتا ہے اورکبھی اُف تک نہیں کرتا البتہ کبھی کبھار احتجاجی ”دولتی”ضرور جھاڑ دیتا ہے لیکن اُس کی شرافت کی انتہا دیکھیں کہ وہ تھوڑی ہی دیر میں اپنی”احتجاجی دولتی” بھول کرکام میں جُت جاتا ہے

ایسا کرتے ہوئے اُسے یادہی نہیں رہتا کہ کبھی اُس کی انانیت بھی جاگی تھی ۔کچھ بزرجمہریقیناََ یہ اعتراض کریںگے کہ گدھا قَدکاٹھ میںگھوڑے سے کہیں کمترہے لیکن شایدایسے بزرجمہروںکو سمجھانے کے لیے ہی شیخ سعدی نے کہاتھا ”ہرکہ بہ قامت کہتر بہ قیمت بہتراست”۔یعنی جس کا قَدچھوٹا ،اُس کی قیمت زیادہ البتہ ہمارے ہاں معاملہ اُلٹ ہے ۔اگرکسی سے سوال کیا جائے کہ ایسا کیوں ہے توتُرت جواب آتا ہے کہ گھوڑے کاتعلق ”طبقۂ اشرافیہ” سے ہے جبکہ گدھا ”کمی کمین”۔گدھے کی اسی شرافت کو ”بیوقوفی”سے تعبیر کیاجاتا ہے حالانکہ آج تک کبھی کسی نے گدھے کی کوئی بیوقوفی نہیں پکڑی۔ جبکہ دوسری طرف گھوڑے کے تونخرے ہی نہیں مان کے۔

اُس کی ”ٹہل تواضح ”میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی جاتی پھربھی وہ جب جی چاہے ” لوٹا” بَن جاتا ہے ۔یقین نہ آئے تو خیبرپختونخواہ اورفاٹا میںجاکر بچشمِ خود مشاہدہ کرلیجئے جہاںاِن کے ریٹس دو کروڑسے بڑھ کر پانچ کروڑتک جاپہنچے ہیں۔اگرہمارے ملک میںہارس ٹریڈنگ کی بجائے ”ڈونکی ٹریڈنگ”کا رواج ہوتاتوایک تو گدھوںکی عزتِ نفس مجروح نہ ہوتی اوردوسرے گھوڑوںسے کہیںکم قیمت پر دستیاب ہوتے۔

ہمارے مُرشد ڈاکٹرطاہر القادری کہتے ہیںکہ نوازلیگ نے ”گھوڑوں”کی خریداری پر بارہ ارب روپے صرف کردیئے ہیں۔مُرشد اگر کہتے ہیںتو پھرٹھیک ہی کہتے ہونگے اوریقیناََ یہ اُن الہامی کیفییات کا اثر ہوگا جو گا ہے بگا ہے اُن پروارد ہوتی رہتی ہیں ۔انہی الہامی کیفییات کے زیرِاثر اُنہیں سات سمندرپار بھی پتہ چل گیاہوگا کہ نوازلیگ نے بارہ ارب روپے گھوڑوںپرصرف کردیئے اوراب ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے محض ڈرامے رچارہی ہے۔

وزیرِاعظم صاحب کی زیرِصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میںیہ فیصلہ ہوا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے آئینی ترمیم لائی جائے ۔اِس آئینی ترمیم کے لیے سیاسی جماعتوںسے رابطے کرنے کے لیے دو کمیٹیاںقائم کی گئیں۔وزیرِ اطلاعات جناب پرویز رشید کہتے ہیںکہ” 5 مارچ سے قبل 22 ویں آئینی ترمیم کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خاں اپنی اناچھوڑیں اورپارلیمنٹ میں آکر ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے لیے اپنا کردار اداکریں”۔ہم اسے نون لیگی ڈرامہ سمجھتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن نے واضح طورپر کہہ دیاہے کہ اگرسینٹ کے انتخابات مؤخرہوئے توسینٹ تحلیل ہوجائے گی اوراگر آئینی ترمیم لائی گئی تواِس کااطلاق سینٹ کے موجودہ انتخابات پرنہیں ہوگا کیونکہ شیڈول جاری ہوچکاہے اوراب انتخابی عمل تبدیل نہیں ہوسکتا ۔

گویا اگر حکومت 5 مارچ تک آئینی ترمیم لے بھی آتی ہے توپھر بھی ”گھوڑے”بکتے ہی رہیں گے کیونکہ اِس ترمیم کاآمدہ سینٹ الیکشن پر ”کَکھ”اثر نہیں ہونے والا۔ اُدھر کپتان صاحب بھی پریشان کہ اُن کے کئی گھوڑے اِدھراُدھر ہوگئے ہیں جن کی تلاش جاری ہے لیکن وہ ”چمک” دیکھ کرایسے سَرپَٹ ہوئے کہ اب ہاتھ آنے مشکل ہیں ۔بچے کھچے گھوڑوںکے گرد وزیرِاعلیٰ پرویزخٹک” کُنڈلی” مارکربیٹھ گئے ہیںکیونکہ خاںصاحب نے صاف کہہ دیاہے کہ اب اگرکوئی گھوڑا اِدھراُدھر کھسکا توخٹک صاحب کی خیرنہیں ۔تحریکِ انصاف میں نَوواردسابق گورنر پنجاب چودھری سرور نے بھی تحریکی گھوڑوں کے سَرپَٹ ہونے پرکہہ دیاکہ تحریکِ انصاف کوبیرونی نہیں اندرونی خطرہ ہے۔

چودھری صاحب نے نوازلیگ کواُس وقت ”داغِ مفارقت”دیا جب نوازلیگ شایداپنی سیاسی زندگی میںپہلی باراسٹیبلشمنٹ کے کندھے سے کندھا ملاکر کھڑی پہلے سے کہیںزیادہ مضبوط نظرآتی ہے اورتحریکِ انصاف اندرونی ٹوٹ پُھوٹ کاشکار۔ چودھری صاحب اچھے بھلے عقیل وفہیم سیاستدان ہیں،اُنہوںنے ایسے وقت میںجب تحریکِ انصاف اندرونی ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے ،تحریک میںشمولیت اختیارکرکے ہمیں شَک میں مبتلاء کردیاہے اوراب ہم دورکی کوڑی لاتے ہوئے یہ کہنے پرمجبور ہیںکہ چودھری صاحب گئے نہیں،بھیجے گئے ہیں ۔ وہ اب تحریکِ انصاف میںبیٹھ کر نوازلیگ کے لیے وہی کام کریںگے جونجم سیٹھی صاحب کی ”چڑیا”اُن کے لیے کرتی ہے ۔اِس لیے اکابرینِ تحریکِ انصاف کوکہے دیتے ہیں کہ ”ذرابچ کے”۔کہیںایسا نہ ہوکہ کل کلاںچودھری صاحب ”باغی”ہو جائیںاور شاہ محمودقریشی صاحب کاحلق داغی داغی کے نعرے لگاتے خشک ہوجائے ۔

Prof Riffat Mazhar

Prof Riffat Mazhar

تحریر: پروفیسررفعت مظہر