دوپہر ایک بجے راولپنڈی میں واقع بنی چوک کی گلیوں میں کافی چہل پہل نظر آتی ہے۔

ہمارے سفر کا آغاز مرکزی راولپنڈی میں واقع کرتارپور مارکیٹ سے ہوا جہاں سے پھر پھولوں اور مصالحوں کی بازار عبور کرتے ہوئے، سید پوری گیٹ کی تلاش اور حویلی سجان سنگھ حویلی کا راستہ پوچھنے میں آدھے گھنٹے کا وقت لگ گیا۔
علاقے میں جا بجا کولونیل دور کے پرانے گھروں کی بالکونیاں نظر آ رہی تھیں.کسی زمانے میں راولپنڈی شہر کے دروازے بھی ہوا کرتے تھے وقت کی مار کھاتے اب ان کا نام و نشان ہی موجود نہیں۔ البتہ سید دروازہ ماضی کی یاگار بنا ہوا ہے۔ چہل پہل سے بھرپور چھوٹی بازار آتی ہے جہاں کولونیل وقت کی بالکونیوں سے آراستہ سرخ رنگ میں رنگی حویلی اور برابر موجود شیشوں والی مسجد کا منظر ماضی کی شاندار یادگار سے ہم کنار کرتا ہے۔
گیٹ میں داخل ہونے پر تنگ گلیاں 19 ویں صدی کے بنے گھروں کی طرف لے جاتی ہیں۔ لکڑی پر ماہرانہ دستکاری کے نمونوں سے مزین دروازے اور سحن کو راہداریاں ہیں، برٹش دور کے زیادہ تر ان دو یا تین مالے کے گھر عمدہ طرز تعمیر کے داخلی حصے کے ساتھ رنگے ہوئے ٹائلس اور چھت سے آراستہ ہیں۔
ابھی آپ گھروں کی فن تعمیر کے سحر میں گرفتار ہوتا ہی کہ گلی کا ایک تنگ موڑ آپ کو ایک کھلے صحن کی طرف لے جاتا ہے۔ آپ کے سامنے اپنے دور کی ایک شاہکار عمارت سجان سنگھ حویلی کا دلکش بیرونی حصہ نظر آتا ہے۔
کسی دور میں حویلی کے اندرونی حصے کو سونے، ہاتھی دانت اور نفیس لکڑی کے کام کے ساتھ آراستہ کیا گیا تھا، حویلی کی خستہ حالی شاندار ماضی، طاقت اور وقار کو بیان کر رہی تھی۔ اس حویلی کو ایک امیر تاجر رائے بہادر سجان سنگھ نے 1893 میں تعمیر کروایا تھا، یہ عمارت تاریخ اورفن تعمیر میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔
پرانے وقتوں کے فن تعمیر کے رنگ خوبصورتی بکھیر دیتے ہیں.
شام کے وقت سجان سنگھ حویلی سے پرانے شہر کا دلکش نظارہ۔.تنگ گلی میں ہر قدم کے ساتھ خستہ حالی کا شکار پرانے گھر اپنی خوبصورتی دھوپ میں چمکتے کسی ہیرے کی طرح نمایاں کرتے جا رہے تھے۔
ہم بالآخر بھابرہ بازار پہنچ گئے تھے، جو اپنے دور میں امیر ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا تھا اور فن تعمیر کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھا۔
اس علاقے کی آبادی 18 ہزار افراد پر مشتمل ہے جو یہاں واقع کئی حویلیوں اور گھروں میں رہائش پذیر ہے۔
دیگر دیکھنے لائق جگہوں میں صدیوں پرانی شاہ دن چراغ امام بارگاہ اور صرافہ بازار شامل ہیں، صرافہ بازار میں آپ آج بھی روایتی انداز میں زیورات بنائے جاتے ہیں۔

بھابرہ لفظ سنسکرت سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے کہ جین مذہب سے تعلق رکھنے والی تاجر برادری۔ بھابرہ تاجر اور سنار تھے جو موجودہ صرافہ بازار اور موتی بازار میں کام کرتے تھے۔ ان کی دولت اور امیری کا اندازہ ان کی حویلیوں اور مندروں سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ جن کے آثار جھروکوں، نفیس دستکاری سے بنائی گئی راہداریوں اور سجے دھجے بیرونی حصوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔
تقسیم ہند نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا۔ سکھوں اور ہندوؤں کی ہی طرح بھابرہ برادری کو بھی فوراً اپنے علاقے چھوڑ دینے پڑے۔ تاہم کئی علاقوں کے نام وہی کے وہی رہے۔




یہاں صرف طرز تعمیر ہی دیدنی نہیں۔ بھابرہ بازار ایک ایسی جگہ ہے جہاں اس شہر میں آپ کو خالص برصغیر کی سب سے لذیذ اور کھانے چکھنے کو مل جاتے ہیں۔ امرتسری اور کشمیری کلچھے، چاٹ کھانے سے آپ کو پرانی دہلی کی لذتیں یاد آ جائیں گی۔ امبالا کی کھیر اور مٹھائی، اور نرم حلوہ پوری اور کچوری، مطلب آپ سمجھیں کہ یہاں کا کھانا لاہور کی لذتوں کو بھی پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔ لاجواب دہی بھلے کے تازہ دہی بھلے اور میٹھی دہی اور چٹنی کے ساتھ چنا چاٹ وہ بھی صرف 80 روپے میں، بازار آنے کے لیے آپ کو ایک اچھا بہانہ فراہم کرتا ہے۔









ایک تنگ، ٹیڑھی میڑھی سیڑھیاں محفوظ کی گئی حویلی کی طرف لے جاتی ہیں، جس میں اس کی 1893 میں ہونے والی شاندار تعمیر کے اب بھی آثار موجود ہیں.
سجان سنگھ حویلی کی تنگ گلیاں، جو اپنے دور میں شہر کا ایک مشہور علاقہ ہوا کرتا تھا.
پرانے گھروں کے بیرونی منظر اور تنگ گلیاں.
صرافہ بازار سے ملحق شاہ چن چراغ کے قریب موجود گلیوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے.
بھابرہ بازار سے ملحقہ علاقے بھی آپ کے لیے تاریخ کے دریچے کھول دیتے ہیں۔ گلیوں میں شاندار تعمیر کے نمونے اور ختم ہوتی روایتوں کو اب بھی زندہ دیکھ سکتے ہیں۔ تمام پرانی عمارتوں کے باہر محلے کے رہائشیوں کے بیٹھنے اور آپس میں مل جل کر بات چیت کرنے کے لیے ٹھارا بنے ہوئے ہیں۔ ٹھارا کلچر محلوں کی رونق میں اضافہ کر دیتا ہے۔ بڑھتی آبادی، کمرشل سرگرمیوں اور حکومت ک بے دھیانی کے سبب یہاں کی تاریخی خوبصورتی خطرے کی زد میں ہے۔ نئی تعمیرات کے لیے چند پرانے گھروں کو بھی گرا دیا گیا ہے۔ یہاں میرے ذہن میں جون ایلیا کا ایک شعر بے ساختہ گونج اٹھتا ہے: شہر دل میں عجب محلے تھے ان میں اکثر نہیں رہے آباد




