counter easy hit

گلگت بلتستان سخت خطرات کی زد میں

سائنسدانوں اور ماہرین ماحولیات کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات دنیا کے پہاڑی اور ساحلی علاقوں پر سب سے زیادہ مرتب ہو رہے ہیں۔ گلگت بلتستان تیزی سے رونما ہونے والی موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کے حساس ترین پہاڑی علاقوں میں شمار کیا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد علاقہ ہے جس کی سرحدیں چین، بھارت اور تاجکستان (3 ملکوں) سے ملتی ہیں۔ اس لحاظ سے اس علاقے کو ایک اہم دفاعی حیثیت بھی حاصل ہے۔

پاکستان واٹر پارٹنرشپ جوگلوبل واٹر پارٹنر شپ کا حصہ ہے گلگت بلتستان میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پانی اور دیگر ماحولیاتی مسائل پر مرتب ہونیوالے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے فیلڈ ٹرپ پر جانے والی ٹیم جس میں آبی ماہر سردار طارق، ماحولیاتی ماہر ڈاکٹر پرویز امیر، محمد اویس اور ذاکر رومی شامل تھے کے ساتھ راقم کو بھی ان پہاڑی علاقوں کے ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل کا بغور مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔

دنیا کے تیسرے سب سے بڑے برفانی پہاڑ گلگت بلتستان کے علاقے میں پائے جاتے ہیں، اس لیے اسے تھرڈ پول کے نام سے جاناجاتا ہے۔ اس علاقے میں پائے جانے والے گلیشیرز کی تعداد 5 ہزار سے زائد ہے۔ دنیا کے 3 سب سے بڑے گلیشیرز سیاچن، بٹورا اور بلٹورہ بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ گلگت بلتستان کے 9 اضلاع ہیں جن میں 4 بلتستان، 3 گلگت اور دو ہنزہ اور نگر پر مشتمل ہیں۔ اعداد وشمار کیمطابق اس علاقے کی آبادی 18 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں اردو رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، خطے سب سے زیادہ بولی جانیوالی زبان شینا، دوسرے نمبر پر بلتی جب کہ دیگر زبانوں میں بروشکی، وخی اور کھووار شامل ہیں۔ دریائے سندھ بھی گلگت بلتستان کے علاقے عکر منگ سے گزرتا ہے جس میں دریائے ہنزہ، دریائے غذر اور دریائے استور بھی شامل ہوجاتے ہیں۔

جنت نظیر گلگت بلتستان پاکستان کا وہ علاقہ ہے جہاں کی 80 فیصد افرادی قوت (مرد، عورتیں) پڑھی لکھی ہے جس میں گلگت اور ہنزہ کا علاقہ سر فہرست ہے۔ مقامی آبادی کا زیادہ تر روزگار زراعت اور لائیو اسٹاک سے متعلق ہے یہاں کی سب سے بڑی صنعت سیاحت ہے۔ گلگت بلتستان ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی کے ڈائریکٹر شہزاد حسن شگری کیمطابق رواں سال اب تک 5 لاکھ سیاح یہاں آچکے ہیں اس حوالے سے مقامی افراد ہوٹلنگ کے بزنس کی طرف تیزی سے متوجہ ہورہے ہیں، اس وقت گلگت بلتستان کے مختلف ضلعوں میں ہزاروں کی تعداد چھوٹے بڑے ہوٹل کھل چکے ہیں۔

موسمیاتی و ماحولیاتی ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے سب سے زیادہ منفی اثرات گلگت بلتستان پر مرتب ہورہے ہیں جوپورے پاکستان کو شدید متاثر کررہے ہیں۔ درجہ حرارت میں تیزی سے ہونیوالے اضافے کے باعث اس خطے میں موجود گلیشیرز کے پگھلاؤ کے عمل میں تیزی آچکی ہے۔ گلیشیائی جھیلوں کے ٹوٹنے، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور دریائی کٹاؤ کے نتیجے میں ہونیوالے نقصانات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ لینڈ سلائڈنگ گلگت بلتستان کا ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے رونما ہونے والا سب سے بڑا واقعہ 2010ء میں عطا آباد جھیل کی شکل میں سامنے آیا تھا جب کہ چھوٹے چھوٹے واقعات سڑکیں اور چھوٹی چھوٹی آبادیاں شدید متاثر ہوتی رہتی ہیں۔ اس خطے میں آنیوالی قدرتی آفات میں سب سے زیادہ واقعات لینڈ سلائیڈنگ کے ہی ہوتے ہیں۔ اکثروبیشتر پہاڑی تودے گرنے سے شاہراہیں بند ہوجاتی ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر ایسے واقعات عام ہیں۔

پوری دنیا میں گلیشیرز تیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں۔ ماہرین کیمطابق چین کے گلیشیرز زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں، ہمالیائی گلیشیرز بھی پگھل رہے ہیں جب کہ گلگت بلتستان میں موجود قراقرم گلیشیرزکے بارے میں مختلف مفروضے بیان کیے جارہے ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ قراقرم گلیشیرز نہیں پگھل رہے ہیں، کچھ کے نزدیک قراقرم گلیشیرز بڑھ رہے ہیں جب کہ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ قراقرم گلیشیرز بھی اسی طرح پگھل رہے ہیں جس طرح دنیا کے دیگر گلیشیرز۔ راقم نے اس حوالے سے متعدد ایسے لوگوں سے بات کی جو متواتر گلیشیر پر جاتے ہیں۔

نور علی جو گزشتہ 10 برسوں سے متواتر گلیشیرز پر جاتے ہیں کا کہنا ہے کہ اب بہت سے گلیشیرز 10 کلومیٹر تک پیچھے جاچکے ہیں جب کہ ان کی اونچائی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گزشتہ 5 سال میں گلیشیرزکے پگھلاؤ میں واضح طور پر تیزی آئی ہے۔ متعدد لوگوں کا کہنا تھا کہ ہر سال جب گرمیوں میں پانی کے بہاؤ میں تیزی آتی ہے تو اس سے ہمیں اندازہ ہوجا تا ہے کہ گلیشیرز کتنا پگھلا ہے۔

شمالی علاقہ جات کا ایک اور اہم مسئلہ گلیشیائی جھیلیں ہیں۔ یہ جھیلیں زیادہ تر بگلوٹ، اسکردو اور ہنزہ میں ہیں جہاں ششمال، پھسو اور حسنی گلیشیر موجود ہیں۔ ایک اندازے کیمطابق گلگت بلتستان میں 2420 گلیشیائی جھیلیں موجود ہیں جن میں سے 52 کو خطرناک قرار دیا جاچکا ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے کیے جانے والے سروے کیمطابق 52 میں سے 36 جھیلیں انتہائی خطرناک ہیں۔

بلتستان یونیورسٹی اسکردو کے عقب میں چند دنوں پہلے پھٹنے والی گلیشیائی جھیل کا راقم نے خود مشاہدہ کیا جس کے نتیجے میں ایک گاؤں کے متعدد مکانات تباہ ہوئے جب کہ رابطہ سڑک اور پل مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے،گاؤں کے لوگوں کی زندگیاں اس لیے محفوظ رہیں کہ وہ سب ایک شادی کی تقریب میں شریک تھے۔ایک اور انتہائی تشویشناک صورتحال صحت کے حوالے سے سامنے آئی وہ یہ کہ گلگت بلتستان کا علاقہ گزرے وقتوں میں زیادہ عمر اور مثالی صحت کے حوالے سے مشہور تھا لیکن اب وہاں ہیپاٹائٹس اے، بی، سی اور کینسر جیسے موذی امراض کے علاوہ ہائی بلڈ پریشر میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

گلگت بلتستان جو صاف ترین پانی کے لیے مشہور تھا اب وہ پانی انتہائی آلودہ ہوچکا ہے۔ سولڈ ویسٹ کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے آبادیاں اپنا کچرہ دریا میں پھینک دیتی ہیں جب کہ یہاں کا سیوریج سسٹم بھی دریا سے ملا ہوا ہے خصوصاً گلگت بلتستان کا۔ سیاحوں کا فضلہ اور گند بھی براہ راست دریا کے صاف پانی میں شامل ہورہا ہے جس سے نہ صرف یہاں کے مقامی افراد مہلک بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں بلکہ نیچے کی جانب جہاں تک یہ پانی جاتا ہے وہ انتہائی آلودہ ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان نہ صرف ماحولیاتی سے، دفاعی لحاظ بلکہ سی پیک راہداری منصوبے کے انٹری پوائنٹ کی حیثیت سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

خطے میں امن و امان کی مثالی صورتحال کے باعث لاکھوں کی تعداد میں ملکی خصوصاً غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مرکزی حکومت، صوبائی حکومت اور عسکری اداروں کو بدلتے ہوئے موسمیاتی و ماحولیاتی عوامل پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ گلگت بلتستان میں سیاحت کو ایکوٹورازم کا درجہ دے کر آنیوالے سیاحوں پر گرین ٹیکس لگا کر اس پیسے کو یہاں کے بدلتے ہوئے ایکو سسٹم اور موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے کیا جاسکتا ہے۔