counter easy hit

خانہ خراب

Thinking

Thinking

تحریر: شاہ فیصل نعیم
سوچ قوموں کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔ کوئی قوم کیسی ہے؟ اس کا اندازہ اس کی سوچ سے لگایا جا سکتا ہے۔ آفاقی سوچ کی حامل اقوام کم وسائل کے باوجود دنیا میں اپنا نام پیدا کرتی ہیں اور گھٹیا سوچ قوموں کو وسائل کی بہتات کے باوجود ایسی تاریک رات میں گم کر دیتی ہے جہاں ڈھونڈنے سے بھی روشنی کا نشان تک نہیں ملتا۔

دوسروں کے بارے میں جاننے سے پہلے ہم اپنے گھر کا پتا لیتے ہیں کہ پاکستانیوں کی سوچ کیسی ہے؟مختلف عوامی مقامات ایسے ہیں جہاں لوگ مل بیٹھتے ہیںاور ایک دوسرے سے مختلف معاملات پر گفت وشنید کرتے ہیں۔ آپ بھی کسی ایسی ہی جگہ کا انتخاب کریں جہاں چند لوگ بیٹھے باتیں کررہے ہوںاور اُن کے درمیان جا کر بیٹھ جائیں۔ بس چُپ کرکے ان کی حرکات کا جائزہ لیں اورباتیں سنیںآپ پوچھے بغیر سب کچھ جان جائیں گے۔ میر ا مشاہدہ بتاتا ہے کہ اس قوم کے ٩٠ فیصد لوگوں کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں۔

وہ کیا کررہے ہیں؟ کس طرف جارہے ہیں؟اُن کا مستقبل کیا ہوگا ؟ اُنہیں اس کا کچھ پتا نہیں اور شانِ بے نیازی کا عالم یہ ہے کہ وہ اس بارے میں جاننا بھی نہیں چاہتے ۔ ایسے لوگ اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے ہیںاور شب و روز اس منصوبہ بندی میں لگے رہتے ہیںکہ دوسروں کی ٹانگ کھینچ کر خود آگے کیسے بڑھنا ہے ؟ کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو اُس میںسے کیڑے کیسے نکالنے ہیں؟اور کام کیے بغیر سرکار سے تنخواہ کیسے بٹورنی ہے؟
سنا تھا نوجوان قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں مگر آج تک یہ جاننے سے قاصر رہا ہوں کہ وہ کون سے ایسے نوجوان ہیں جو قوموں کی تقدیر بدل دیتے ہیں؟ کیونکہ اس قوم کے نوجوان طبقے کا تو خانہ ہی خراب ہے اور وہ کن کن خرابیوں میں ملوث ہیںاس کا اندازہ لگانا کسی کے لیے مشکل نہیں۔

اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے مگر اس ملک میں اسلام کا پیروکار ہے کون؟اس ملک کے لوگوں نے اسلام کی کم و بیش ١٠٠ سے زائد شاخیں بنا رکھی ہیںاور ہر کوئی اپنے فرقے کو سچا ثابت کرنے کے لیے سارا سارا دن فضول باتوں میں گزار دیتا ہے۔ اس ملک میں اتنے نئے اسلام آچکے ہیںیوں لگتا ہے کہ “اسلام” ناجانے کب کا یہ ملک چھوڑ چکا؟ آٹے میں نمک کے برابر ایسے لوگ ہیں جن کے پاس اچھی سوچ ہے، جو محنت اور لگن کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، وہ اس ملک کا مستقبل روشن دیکھنا چاہتے ہیںاور گاہے بگاہے دوسرے لوگوں کو بھی اس نیک کام کی دعوت دیتے رہتے ہیںمگر اُن کی سنتا کوئی نہیں۔ وہ جب بھی کسی سے ترقی کی بات کرتے ہیں تو سامنے والے کہتے ہیں: “جائو بھائی یہ رام کہانی کسی اور کو سنائو تم اپنے ڈیپارٹمنٹ کے نہیں ہو۔

اگر مختصر یہ کہوں تو بے جانا ہو گاکہ اس قوم کے ہر فردکی سوچ ذات سے شروع ہوتی ہے اور ذات پر ہی آکر ختم ہو جاتی ہے۔اس سے زیادہ سوچنااُس کے بس کی بات نہیں۔ ایسے لوگوں کو حیوان بھی نہیں کہا جاسکتا اُن میں ایک اچھی بات ہوتی ہے چاہے وہ اپنی ذات تک ہی سوچتے ہیںمگر جب اُن کا پیٹ بھر جاتا ہے تو پھر کمزوروں کے پیٹ کا بھی خیال رکھتے ہیںلیکن انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کا پیٹ بھر بھی جائے تب بھی کہتا ہے کہیں سے تھوڑا بہت اور مل جائے۔

مغربی سوچ کا ایک واقعہ بتانا چاہوں گاچاہے انہوں نے یہ سوچ مسلمانوں سے ہی چُرائی مگر اب وہ اس کے حامل ہیں۔ یورپ کی ایک یونیورسٹی میں ایک نوجوان سے ملاقات کا حال جو کسی ایسے مرض پر تحقیق کر رہا تھا جس کاعلاج موجود نہیں۔جب اُس سے پوچھا گیا:
“اے نوجوان! کیا تم اپنی زندگی میںاس بیماری کا علاج دریافت کر لوگے”؟ اُس نوجوان نے جو جواب دیا وہ اُس قوم کی سوچ کا عکاس ہے۔

نوجوان نے مسکراتے ہوئے کہا: “میں یہ کام اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے کر رہا ہوں، میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروںگا کہ اس بیماری کا علاج دریافت کر سکوںاور اگرمیں ایسا نا کر سکاتو بھی مجھے افسوس نہیں ہوگاکیوں کہ میں نے انسانیت کے لیے پوری ایمانداری کے ساتھ کام کیا جتنا مجھ سے ہو سکااور بعد میں آنے والے اسے جاری رکھیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں نہیں تو میرے بعد میں آنے والے اس کا علاج ضرور پا لیں گے”۔ قارئین ! افسوس اُنہیں ہوتا ہے جو اپنی ذات کے لیے جیتے ہیںجو اس چھوٹی سوچ سے باہرنکل آتے ہیںپوری کائنات اُن کی خضرِ راہ بن جاتی ہے۔

Shah Faisal Naeem

Shah Faisal Naeem

تحریر: شاہ فیصل نعیم