counter easy hit

موجودہ حکومت کی منظر کشی کرتی پرانے زمانے سے ایک شاندار روداد

From ancient times, a spectacular period of view of the present government

یہ بہت پرانے زمانے کی بات ہے۔ ویسے پرانا زمانہ تھا ،بڑی سادگی کا۔ بادشاہ بھی عام انسانوں کی طرح کبھی کبھی بھیس بدل کر گھومتے پھرتے نظر آتے تھے تاکہ اپنی غریب رعایا کا حال معلوم کر سکیں۔ ایسا ہی ایک بادشاہ رات کے وقت گشت کر رہا تھا۔ ساتھ وفادار نوکر تھے۔ ایک مکان کے قریب سے گزرے، تو اندر سے عورتوں کے بولنے کی آواز آئی،جس طرح آواز سنائی دے رہی تھی، اسی طرح مکان کے تاکوں اور روشندانوں سے چراغ کی روشنی چھن چھن کر باہر آرہی تھی۔ بادشاہ نے کان لگاکر ان کی باتیں سنیں ایک عورت بولی ’’وہ گیا‘‘ دوسری عورت بولی ’’نہیں اگر وہ ہوتا،تو نہ جاتا‘‘ تیسری نے اضافہ کیا ’’نہیں نہیں، اگر وہ یہ ہوتا تو نہ وہ جاتا نہ یہ جاتا‘‘بادشاہ یہ مہمل باتیں سن کر فکر مند ہوا۔ اس نے سوچا یہ تینوں عورتیں بڑی چالاک لگتی ہیں۔ بہت ممکن ہے میرے دشمنوں سے سازباز کر لیں اور کل کو میرے تاج و تخت کے لیے خطرہ بن جائیں۔ اس نے اپنے ان شاہی ملازمین کو جو اس وقت ہمراہ تھے، حکم دیا کہ گھر کی شناخت کر لیں۔ صبح جب دربار لگا تو بادشاہ نے حکم دیا۔ تینوں عورتوں کو پیش کیا جائے۔ حسب الحکم جب تینوں کو دربار میں لایا گیا،تو بادشاہ نے رات والی تینوں باتوں کا سبب پوچھا۔ تینوں عورتیں کھکھلا کر ہنس پڑیں۔ ایک نے کہا ’’یہ تو وہ ہے‘‘ دوسری نے جواب دیا ’’اگر یہ وہ ہوتا تواس کے وہ بھی ہوتے‘‘ تیسری نے بڑی اعتماد کے ساتھ رائے دی ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی کے ہوتے ہیں اور کسی کے نہیں ہوتے‘‘ بادشاہ جو پہلے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا، آگ بگولا ہو گیا۔ میان سے تلوار نکالتے ہوئے اس نے کہا، تم تینوں کو اب میں اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا، ان میں سے ایک عورت نے جرأت کی اور بادشاہ سے یوں مخاطب ہوئی:بادشاہ سلامت !ہم تینوں بے قصور ہیں۔ ہمیں کوئی سزا نہ دیں۔ غربت کا وقت کاٹنا بڑا دشوار ہوتا ہے۔ کل رات ہم تینوں جب دیا جلا کر بیٹھی ہوئی تھیں ،تو ہمارا مقصد خوش گپیوں سے ایک دوسرے کا دکھ درد باٹنا تھا۔ غم بیان کر دینے سے بد نصیبی کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ بندہ بندے کا دارو ہے۔ دئیے کی روشنی سے ہماری یہ چھوٹی سی محفل آباد تھی۔ دیا بجھنے لگا تو ہم میں ایک نے کہا ’’وہ گیا‘‘ یعنی دیا گل ہو گیا۔ دوسری نے یہ دیکھتے ہوئے کہ لو چھوٹی ہو گئی ہےجواب دیا کہ اگر لو ہوتی تو دیا گل نہ ہوتا۔ اس پر تیسری نے برجستہ کہا: نہیں یہ بات نہیں، اگر تیل ہوتا تو لو بھی ختم نہ ہوتی اور نہ دیا گل ہوتا۔ بادشاہ کا غصہ ابھی باقی تھا۔ اس نے تینوں عورتوں سے دربار میں قہقہہ بلند کرنے کی گستاخی کی وضاحت چاہی۔ عورتوں نے جواباً عرض کیا۔حضور جانوں کی امان ملے، تو اس وضاحت کی جسارت کر سکتی ہیں۔ بادشاہ گرج کر بولا: بے خطر بات کرو۔ تمہیں امان دی جاتی ہے۔عورتوں نے جواب دیا۔ بادشاہ سلامت ہمارے ہنسنے کی وجہ یہ تھی کہ ہم معمولی ذہن کی عورتیں بھی آپس کی گفتگو کو آسانی سے جان لیتی ہیں ،مگر اتنی بڑی سلطنت کے بادشاہ ہونے کے باوجود یہ باتیں آپ کی سمجھ میں نہ آئیں چنانچہ ہم میں سے ایک نے کہا۔ یہ بیل (’’ڈاند‘‘) ہے۔ دوسری نے کہا، اگر یہ بیل ہوتا، تو اس کے دو سینگ ہوتے۔ تیسری نے خیال ظاہر کیا، بعض بیل بے سینگ کے (گہونے) بھی ہوتے ہیں۔ بادشاہ نے تینوں عورتوں کے ذہانت پر مبنی جوابات سن کر انہیں معاف کر دیا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website