counter easy hit

قرضوں کی معافی:کرپشن کی بدترین شکل

پاناما لیکس کا کوئی اور فائدہ ہو نہ ہو، کم از کم یہ تو ہوا کہ فریقین ایک دُوسرے کی چوریوں اور بدعنوانیوں کی تحقیق و تفتیش کا مطالبہ شد ّو مد کے ساتھ کرنے لگے۔ تحریک انصاف نے ’’رنگے ہاتھوں پکڑے جانے اور تلاشی‘‘ پر زور دیا تو نون لیگ نے چتائونی دی کہ تم کون سے زَم زَم کے دُھلے ہو۔ تمہاری صفوں میں بھی تو ایک سے بڑھ کر ایک خائن اور قرضہ خور شامل ہے اور پھر حکمران جماعت کی طرف سے تجویز کے انداز میں کہا گیا کہ قرضے ہڑپ کرنے والوں کا بھی احتساب ہونا چاہئے۔ نہ جانے سرکار یہ تجویز کس کو دے رہی تھی، حالانکہ احتساب اس کے اپنے فرائض میں شامل ہے۔ بہرحال سینیٹ نے نوٹس لیا اور قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست طلب کرلی۔ جس کے جواب میں سرکار تادمِ تحریر خاموش ہے اور مطلوبہ تفصیلات سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع نہیں کرائی جا سکیں۔ نیشنل بنک نے تو کورا سا جواب دیا کہ معزز صارفین کی معلومات شیئر نہیں کی جا سکتیں۔

اچھی بات، ریاستی اور محکمہ جاتی سیکرٹس لیک نہیں ہونا چاہئیں۔ بنکوں کے معزز گاہکوں کا بھید نہیں کھلنا چاہئے۔ مگر سینیٹ نے ان کے ذاتی رازوں سے پردہ اُٹھانے کیلئے تو نہیں کہا۔ اُسے تو قوم کے ان اربوں، کھربوں کی فکر ہے جو بنکوں کے پاس امانت تھے، جو نامی گرامی سیاست دانوں، صنعت کاروں، اعلیٰ فوجی اور سول اہلکاروں کو قرض دیئے اور پھر معاف کر دیئے۔ قومی اثاثوں کی لوٹ مار کی یہ داستان طویل ہے۔ گزشتہ تیس برسوں کے دوران سرکاری اور نجی بنکوں سے معاف کئے جانے والے قرضوں کا تخمینہ کم و بیش تین سو ارب روپے کا ہے اور ڈاکہ زنی کی اس واردات میں ملوث افراد کی تعداد دو ہزار سے بھی کم ہے۔ قرضوں کی سب سے زیادہ معافی پرویز مشرف نامی شخص کے زمانے میں ہوئی۔ جس نے سول حکومت کا تختہ اُلٹا، تو کرپشن کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مقام افسوس کہ 84 فیصد قرضے انہیں کے عہد میں معاف ہوئے۔ جن کی مالیت دو سو ارب کے برابر بنتی ہے۔ سیاسی حکومتوں میں آپ لاکھ کیڑے نکالیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ قرضوں کی معافی کے حوالے سے انہوں نے ہاتھ ہولا رکھا۔ مسلم لیگ نون کے تینوں اَدوار میں بائیس ارب کے قرضے معاف ہوئے جبکہ پیپلزپارٹی نے مزید احتیاط سے کام لیا اور اس کے تینوں اَدوار کی معافی محض چودہ (14) ارب روپے کی ہے۔
اخبار میں آئے روز مکانوں کی قرقیوں کے اشتہار چھپتے ہیں۔ چند مرلوں والے غریب غربا نے قرض لیا اور وقت پر ادا نہ کر سکے۔ دیری کی وجوہ معقول ہوتی ہیں اور وہ ادائیگی سے منکر بھی نہیں ہوتے۔ صرف تھوڑا وقت چاہتے ہیں، محض سانس لینے کی گنجائش، کہ جونہی کچھ ہاتھ میں آئے، قرض سے سُرخرو ہوں، مگر ان کی کوئی نہیں سُنتا۔ زیادہ دن نہیں گزرے کہ گھر میں برپا ہونے والے ایسے ہی ایک منظرنامے سے متاثرہ کراچی کے ایک حساس طالبعلم نے پنکھے سے جھول کر خودکشی کرلی تھی۔
ہمارا بھی عجیب کلچر ہے۔ پانچ دس ہزار کا ہاتھ ماریں تو جیل جائیں، ارب دو ارب لوٹ لیں تو وی آئی پی قرار پائیں۔ سرکاری دربار میں رسائی ہو، اور بیورو کریسی آپ کے اشاروں پر ناچے، عدالت سے واسطہ پڑ جائے تو چوٹی کے وکیل خدمت کے لئے حاضر ہوں، جوہر بداعمالی کی ایسی ایسی تاویل لائیں کہ ڈوب مرنے کو جی چاہے، چند برس پہلے بھی قرضوں کی معافی کی بات چلی تھی تو بعض ’’ماہرین‘‘ ڈکیتی کی اس واردات کو عین آئینی ثابت کرنے پر تُلے ہوئے تھے۔ آئین کے آرٹیکل 38 کا حوالہ دیا گیا جو شہریوں کی سماجی اور معاشی بہبود سے متعلق ہے اور نام نہاد آئینی ماہرین دلائل کے ڈھیر لگاتے نظر آئے کہ اس داد و دہش سے آئین اور عوام الناس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اس بھولی قوم کو تو یہ بھی پتہ نہیں کہ قرضوں کی معافی کا کھیل باقاعدہ تین ایکٹ کا ڈرامہ ہے۔ جسے قرض خور، ٹاپ بینکرز اور حکمران مل کر رچاتے ہیں۔ پہلے تو بینک اپنا حصہ کھرا کر کے، معقول گارنٹی اور کولیٹرل کے بغیر موٹی رقوم قرض دیتے ہیں۔ پھر خود سے قرض واپسی سے بچنے کی ترکیبیں بتاتے ہیں۔ ایسی اسامیوں کے ساتھ ان کا طرزعمل اس قدر دوستانہ بلکہ مؤدبانہ ہوتا ہے کہ گویا بینک ان کا مقروض ہو۔ جب بینکوں کی نالائقی، ذاتی مفادات اور غیرپیشہ ورانہ طرز عمل کے سبب بڑی تعداد میں لوگ ڈیفالٹ کر جاتے ہیں تو یہ اپنے قوانین کی پوتھی سے اک نسخۂ کیمیا برآمد کرتے ہیں۔ جسے عرف عام میں بینکنگ کمپنیز آرڈیننس کا سیکشن 33-B کہا جاتا ہے۔ یوں معافی تلافی کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسٹیریو ٹائپ قسم کی ضخیم رپورٹیں تیار کی جاتی ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں مقروض ڈیفالٹ کرگئے ہیں، وصولی ناممکن ہو چکی ہے لہٰذا ریلیف کا دیا جانا ضروری ہوگیا ہے اور ریلیف کی شکل یہ ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص قرض کی واپسی کا وعدہ کرلے اور تھوڑی بہت رقم ادا کر دے تو اس کا نہ صرف سود معاف کر دیا جاتا ہے بلکہ اصل زر کے ایک چوتھائی کی بھی چھوٹ ہو جاتی ہے۔ 10 اکتوبر 2002ء کو جاری ہونے والے اسٹیٹ بنک کے سرکلر نمبر529 کی نقل میرے سامنے پڑی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پچاس ہزارا سامیوں کے قرضوں کی واپسی مشکل ہوگئی ہے۔ رقوم پھنس جانے کی وجہ سے بینک ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ان کا منافع کم ہوگیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پرائیویٹائزیشن کا عمل متاثر ہو رہا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں سیکشن 33-B کے تحت زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جائے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرضوں کی معافی کے معاملےکو ری اوپن کرنا باسی کڑھی کا اُبال ہے۔ ’’کھیل ختم، پیسہ ہضم‘‘ کب کا ہو چکا، اور اب کہاں کی تفتیش اور کہاں کی وصولی۔ ایک پیسہ بھی واپس نہیں آئے گا، مگر یہ ’’فنکاروں‘‘ کی اپنی پھیلائی ہوئی ڈس انفارمیشن ہے۔ ایک ایک پائی کی وصولی ممکن ہے۔ صرف سیاسی عزم درکار ہے۔ چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے معاملہ اُٹھایا ہے۔ اگر وہی اسے انجام تک پہنچانے کا عزم کرلیں، تو بھی بات بن سکتی ہے۔ شاید یہ وقت بھی مناسب ہے، کیونکہ قوم بیک زبان کرپشن کے خلاف آواز اُٹھا رہی ہے اور قرضہ خوروں کے قرضے اسلئے معاف نہیں ہوئے تھے کہ وہ واقعی دیوالیہ ہو گئے تھے اور ادائیگی سے قاصر۔

 

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website