counter easy hit

سابق و لاحق وزیراعلیٰ اور تین انار

سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے کہا ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک کا دورہ چین مکمل طور پر ناکام رہا ہے، ہم اسے وزیراعلیٰ می شناسد یا دورہ را دورہ وال می شناسد کے کھاتے میں ڈال کر بھول جاتے ہیں لیکن ایک تو آج کل ہم نے کسی بھی ’’غالب‘‘ کی طرف داری چھوڑ رکھی ہے اور صرف ’’سخن فہمی‘‘ پر دھیان دینا شروع کیا ہے، اپنے اس بدلاؤ یا کایاکلپ کے ذریعے ہم کوئی تعلی نہیں مار رہے ہیں بلکہ ’’سخن فہمی‘‘ ایک طرح سے ہمارے گلے پڑی ہوئی ہے، پہلے ہم غالب بلکہ ’’غالبوں‘‘ کے طرفدار ہوا کرتے تھے لیکن ’’غالبوں‘‘ نے ایسا ’’مغلوب‘‘ کیا کہ ہم ’’مغضوب‘‘ بھی ہو گئے ’’مضروب‘‘ بھی اور ’’معتوب‘‘ بھی اور یہ کسی اور نے نہیں ان غالبوں نے کیا۔

چین کی طرف داری ہم نے نہایت ایمان داری، استواری اور پائیداری سے کی تھی، تب ہم نے فیصلہ کیا کہ اب دوسرے آپشن یعنی ’’سخن فہمی‘‘ کو آزمائیں گے شاید ان ’’تلوں‘‘ میں کچھ ’’تیل‘‘ ملے، چنانچہ اب یہ جو وزیراعلیٰ ورسز وزیراعلیٰ بیان آیا ہے یا یوں کہئے کہ سابق وزیراعلیٰ نے ’’لاحق‘‘ وزیراعلیٰ کے دورہ چین کو مکمل طور پر ’’ناکام‘‘ قرار دیا ہے اس کی کچھ حقیقت بھی ہے یا وہی ’’سابق اور لاحق‘‘ کا پرانا جھگڑا ہے، جب سے دنیا میں یہ ’’دوروں‘‘ کا سلسلہ بلکہ بزنس شروع ہوا ہے تب سے ہر ’’دورے‘‘ پر کامیاب اور ناکام کا دورہ بھی پڑتا رہا ہے، دورہ کے پڑتے ہی فریقین پر بھی دورہ پڑ جاتا ہے ایک فریق پر ’’کامیابی‘‘ کا دورہ تو دوسرے پر ناکامی کا دورہ پڑ جاتا ہے۔

اب ہمیں نہیں معلوم کہ سابق کو لاحق کے دورے میں ایسا کیا نظر آیا ہے جو انھوں نے اسے مکمل طور پر ’’ناکام‘‘ قرار دیا ہے، جہاں تک ہماری سخن فہمی کا تعلق ہے تو وہ وہاں سے ’’خالی ہاتھ‘‘ تو بالکل نہیں لوٹے ہیں کچھ نہ کچھ تو لے کر آئے ہی ہیں اور جو کچھ بھی لائے ہوں گے نہ ہونے سے تو اچھا ہی ہو گا باقی چینیوں پر ہمارا کوئی قرضہ تو تھا نہیں جو وہ پورے کا پورا وصول نہ کر سکے ہوں، پشتو کی ایک بہت ہی مشہور اور مبنی برحق کہاوت ہے کہ ’’چہ درومے سہ بہ مومے‘‘ یعنی جاؤ گے تو کچھ پاؤ گے… اب کتنا پاؤ گے اس کی وضاحت کہیں نہیں ہے کیونکہ دینا، دینے والے کی مرضی پر ہوتا ہے اور کسی دینے والے سے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں تو ’’اتنے‘‘ کی توقع کر رہا تھا اور تم ’’اتنے‘‘ دے رہے ہو، کیونکہ ’’اتنا‘‘ اتنے سے کتنا ہی کم کیوں نہ ہو نہ دینے سے تو بہتر ہوتا ہے اور سفر کرنے والے کا کچھ بھی ’’لانا‘‘… لانا تو ہے، کہتے ہیں ایک شخص غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر پردیس چلا گیا۔

آدمی محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایمان دار بھی تھا اس لیے کوئی غلط کام کیے بغیر ایمان داری سے مزدوری کرنے لگا وطن کی یاد نے ستایا تو اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے تھے کہ صرف ’’تین دانے‘‘ انار ہی خرید سکا اور یہ انار ایک قافلے کے ذریعے وطن بھجوا دیے، چلتے چلتے یہ قافلہ ایک ایسے ملک سے گزرا جہاں کا بادشاہ بیمار تھا اور اس کا علاج طبیبوں نے ’’انار‘‘ تجویز کیا تھا، بادشاہ کے لوگوں نے قافلے والوں سے پوچھا کہ تمہارے پاس انار تو نہیں ہیں، قافلے کے سربراہ نے کہا کہ انار تو میرے پاس ہیں لیکن یہ کسی کی امانت ہیں اور میں امانت میں خیانت نہیں کر سکتا نہیں دے سکتا، بادشاہ کے لوگ واپس گئے وزیروں اور حکیموں نے مشورہ کر کے قافلے والوں سے استدعا کی کہ چلو انار نہیں دے سکتے تو نہ دو لیکن اتنا تو کر سکتے ہو کہ ہم یہ انار لے جا کر بادشاہ کو سنگھا سکیں، سونگھنے سے بھی اسے افاقہ ہو جائے گا، قافلے والا مان گیا بادشاہ کے آدمی انار لے گئے۔

اناروں کو نہایت احتیاط سے کاٹا گیا، دانے نکال کر بادشاہ کو کھلا دیے اور اناروں میں ہیرے موتی ڈال کر مہارت سے ایسا جوڑ دیا گیا کہ پتہ ہی نہیں چل سکتا تھا، قافلہ اپنے انار لے کر چل پڑا اور اس شخص کے اہل خانہ کو وہ انار پہنچا دیے، اس شخص کے اہل خانہ کو بڑی مایوسی ہوئی کہ اتنی مدت بعد اتنی دور سے صرف تین انار؟ بڑے بیٹے نے غصے سے وہ انار دیوار پر دے مارے … تو اندرسے قیمتی جواہرات نکل آئے اور یوں اس گھر کی حالت بدل گئی، اب ہمارے وزیراعلیٰ گئے، چین والوں پر ان کا زور تو نہیں چلتا تھا انھوں نے تین انار پکڑا دیے تو اس میں ناکامی کہاں سے آ گئی۔

کم از کم اس باراس صوبے کے کسی وزیراعلیٰ نے ’’مرکز‘‘ کے سوتیلے پن سے مجبور ہو کر ایک کوشش تو کی… اور جو کچھ بھی ہاتھ لگا لے آئے، ہمارے ایک دوست تھے مرحوم شمس الزمان شمس خٹک معروف شاعر اور پولیس میں ایس پی تھے چنانچہ دنیا جہاں کے شاعر گائیک اور فن کار ان کے پاس طرح طرح کی پریشانیاں لاتے تھے اور وہ انکار کسی کو نہیں کرتے تھے فوراً ٹیلی فون کرتے یا خود ہی وہ کام کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہو جاتے، ہم نے ایک دن ان سے کہا کہ تم ہر ممکن ناممکن کام کے لیے کمر بستہ ہو جاتے ہو ضروری تو نہیں کہ ہر کسی کا کام ہو جائے اور اکثر ایسا ہوتا بھی رہتا تھا۔

باوجود کوشش کے وہ ناکام بھی لوٹ آتا تھا، جواب میں انھوں نے کہا مجھے یار دوست کے لیے غوطہ لگانا چاہیے اب غوطہ لگانے پر کچھ ہاتھ آتا ہے یا نہیں یہ اس کی قسمت ہے لیکن میرا فرض تو غوطہ لگانا ہے، پرویز خٹک نے بھی غوطہ لگایا ہے کیا ہاتھ آیا کتنا ہاتھ آیا؟ یہ الگ بات ہے، ہم نے ابتداء ہی میں عرض کیاکہ ہم نے غالبؔ کی طرف داری چھوڑ کرسخن فہمی اختیار کر لی ہے ورنہ نہ تو ہم پی ٹی آئی کے طرف دار ہیں نہ پرویز خٹک کے … بلکہ بہت زیادہ ’’شاکی‘‘ بھی ہیں اور نہ ہی سابق وزیراعلیٰ سے ہمیں کچھ بیر ہے بلکہ فاصلہ ناپا جائے تو ان کے زیادہ قریب ہوں گے لیکن حق توحق ہے، پرویز خٹک چین سے اتنا کچھ نہ لائے ہوں جتنی توقع تھی لیکن پھر بھی جھولی میں کچھ نہ کچھ تولے کر آئے ہیں اب یہ ہماری قسمت اور اہلیت ہے کہ ان تین اناروں کا کیا کرتے ہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website