counter easy hit

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اصل کہانی بیان کر ڈالی

Former Chief Justice Iftikhar Chaudhary described the original story

کراچی (ویب ڈیسک) سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ غلط تاثر ہے کہ ججز کا احتساب نہیں ہوتا ججز کا احتساب ججز خود کرتے ہیں 209آرٹیکل ہے وہ احتساب جو 209 کے تحت ہوتا ہے اس کا جنرل مشرف کے دور میں سامنا کرنا چکا ہوں جہاں تک فوج کی بات ہے اُن کا بھی ایک میکنزم ہے پچھلے دنوں آپ نے دیکھا ہوگا کہ جنرل جاوید اقبال ، بریگڈیئر رضوان اور ڈاکٹر وسیم اکرم وغیرہ کو سزائیں ہوئی ہیں جسٹس شوکت صدیقی کے کیسز کے حوالے سے تحفظات ہیں تحفظات اس لئے ہیں کہ اب اُن کی پنشن پینڈنگ ہے جب میں چیف جسٹس تھا 104ججز کا احتساب کیا۔ نومبر 2007کے آرڈر کے حوالے سے اس کے علاوہ اور بھی وقتوں میں ججز کے خلاف کارروائی شروع کی انہوں نے خود استعفے دیئے ایسا کہنا غلط ہے کہ ججز کا احتساب نہیں ہوتا۔موجودہ کیس میں تحفظات تھے آئین کے مطابق موجودہ حکومت گورن ہوتی ہے آئین کے نیچے آئین میں کچھ آرٹیکلز ہیں جس کی تشریح سپریم کورٹ آف پاکستان نے کر دی ہے اس میں موجود آرٹیکل 90-91-99اس میں یہ کہا گیا ہے کہ وزیراعظم انفرادی طور پر کچھ نہیں ہے وہ کیبنٹ کے ساتھ ہوگا اور جو کچھ کیبنٹ فیصلہ کرے گی وہ فیصلہ ہوگا اور میرا نقطہ نظر یہ تھا کہ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ کیبنٹ کی مرضی کے بغیر ہو رہا ہے افتخار چوہدری نے کہا کہ پراپرٹی کے حوالے سے میرا یہ کہنا تھا اور میں نے خط بھی لکھا جو میں نے سپریم کورٹ کے سیکرٹری کو بھجوایا بھی اس میں میرا کہنا یہ تھا کہ آپ کو آئین اور قانون کو فالو کرنا پڑے گا جج اپنے کنڈیکٹ کا ذمہ دار ہے اگر ان کے بچوں کا بیوی کا کنڈیکٹ خراب ہے تو جج ذمہ دار نہیں ہیں جو ہمارے رولز بنے ہوئے ہیں رولز میں ہم نے یہ کنٹرول کیا ہوا ہے کیوں کہ ایک جج کی شخصیت کی بات ہوتی ہے اوربھی ججز بیٹھے ہوتے ہیں اس انسٹیٹیویشن کا ٹرسٹ ہے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں روزآنہ عدالتوں میں آتے ہیں اپنے کیسز چلانے کے لئے اس ٹرسٹ کو قائم رکھنے کے لئے انہوں نے کہا اس حد تک جس کا پریس ریلز ہم دیں گے۔ پچھلے دنوں جسٹس فرخ لاہور ہائیکورٹ کے اور جسٹس شوکت صدیقی کا جو پہلے والے کا ریفرنس تھا انہوں نے کہا تھا مجھے اوپن کوٹ میں ٹرائل دے دیں ۔آرٹیکل 29 کا جو پرویژن ہے اس کو سب آرٹیکل 8 کہتے ہیں اس کے نیچے کوڈ آف کنڈیکٹ بنتا ہے اس کوڈ آف کنڈیکٹ کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ جج صاحب کی اور اگر ان کے گرون اب بچے ہیں یا اگر اُن کی بیوی امیر ہیں یا ان کے ریسوریس ہیں لیکن جج صاحب کی کوئی involvement سنز میں نہیں ہے کہ ان کی کوئی investment نہیں ہے نا، یہ بے نامی قسم کی انہوں نے کوئی ٹرانزیکشن کی ہے تو مس کنڈیکٹ کی اگر کوئی بات کرتا ہے تو کوڈ آف کنڈیکٹ میں ان کی ڈیفینشن میں نہیں آتا اس لئے ایسے جج کے خلاف کوئی بھی کارروائی سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے نہیں کرواسکتے۔ ہمیں ایم پی اے ، ایم این اے والی ڈیکلریشن نہیں دینی ہوتی، ہمیں اس اثاثے کی ڈیکلریشن دینی پڑتی ہے جو ہمارے ہوں ہاں اگر آپ الزام لگاتے ہیں ہیں تو آپ کو ثبوت لا کر دینا ہوگاجج کی ذات پر اگر کوئی لفظ نہیں ہے تو جج مس کنڈیکٹ کے زمرے میں نہیں آتے ۔ میں نہیں سمجھتا کہ فواد چوہدری کے کسی سوال کا جواب دوں ۔ کیسز ہارنا جیتنا گورنمنٹ کا کام ہوتا ہے ججز کا کام ہوتا ہے فیصلے دینا کا جو فیصلے دیئے جاتے ہیں وہ قانون کے مطابق دیئے جاتے ہیں ایسا نہیں ہوتا کہ جج نے کسی کو پھانسی دے دی پھانسی کے بعد کوئی آگیا اس نے کہا پھانسی غلط ہوگئی تھی تو جج کو بھی پھانسی دے دیں ایسا نہیں ہوتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے رائٹ میں نہایت ہی اسٹریٹ فارورڈ ، ایماندار اور قابل ہیں اور اگر ان کی فیملی بیک گرائونڈ دیکھا جائے تو قاضی عیسیٰ ہوا کرتے تھے جو قائد اعظم کے ساتھیوں میں شامل تھے اور ان کے دادا قاضی جلال الدین وہ وزیراعظم تھے قلات اسٹیٹ کے ۔ آج بھی قسم کھا کے کہہ سکتا ہوں کہ معتبر آدمی ہیں جہاں تک حکومت کی ان سے ناراضگی کی بات ہے independentجج سے حکومت کبھی خوش نہیں ہوتی اور ان کا یہی قصور ہے ۔مولانا خادم حسین رضوی نے جو دھرنا دیا تھا اس کا کیس چلا تھا اس میں انہوں نے بغیر لگی لپٹی فیصلہ میں لکھا تھا کہ ہم نے پہلے دو فیصلے اس ملک میں دے چکے ہیں ایک آپ کو یاد ہوگا کل پرسوں اس کی سماعت ہو رہی تھی اصغر خان والے کیس میں ہم نے رول جو ہے جو کہ ملٹری کا رول ہے، نیوی کا رول ہے، پی ایف کا رول ہے وہ ہم نے بالکل کلیئر کر دیا ہے اور آئین کے نیچے رہ کر ہم نے کہا کہ یہ ان کا رول ہے اور اس سے بیشتر مشرف والا کیس جس کے لئے اب کیس بھی چل رہا ہے ان کے اوپر، جسٹس فائز کا صرف قصور یہ تھا کہ انہوں نے independently فیصلہ دے کر کہا تھا کہ اس میں آپ کو آئین سے انحراف نہیں کرنا ہے جو آپ کے فرائض ہیں وہ ادا کریں۔ ہر انسٹیٹیویشن سے متعلق شکایت ہوتی ہے ہم وقتاً فوقتاً جیسے میرے وقت میں جوڈیشل پالیسی ہم نے نافذ کی ہوئی تھی تاکہ چیک اینڈ بیلنس رہے اور جلد از جلد لوگوں کے کیسز ڈیسائڈ ہوں اسی لئے موجودہ چیف جسٹس نے بھی ماڈل کورٹس اسٹبلیش کروائی ہیں۔افتخار چوہدری نے کہا کہ نواز شریف سے اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ انہوں نے آکر کورٹ کے سامنے سرینڈر کیا ہے ان کی اہلیہ بیمار تھیں اگر یہ چاہتے وہاں رُک سکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب اچھے آدمی ہیں لیکن سب میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں ہوتی ہیں ۔ اگر آپ پریشر قبول نہیں کریں اور آئین کو سامنے رکھ کر کام کریں آپ کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا جو حکومت کی اپوزیشن ہے ان کے لوگ تو جیل جارہے ہیں اور جو ان کے دائیں بائیں ہیں ان کے خلاف کچھ ایکشن نہیں ہورہا۔جہانگیر ترین کے خلاف سپریم کورٹ نے فیصلہ بھی دیا ہوا ہے ان کے خلاف کوئی اس قسم کا ایکشن نہیں ہو رہا ۔ آصف زرداری بیمار بھی ہیں لیکن بہادر آدمی ہیں جیل جانا اُن کے لئے پہلے بھی بڑی بات نہیں تھی لیکن یہ امتیاز نہیں برتنا چاہیے۔ مسلم لیگ شہباز اور کچھ وہی کے لوگ گرفتار ہوئے ضمانتیں بھی مل گئیں۔نواز شریف کے کیس میں کتنا لے دے ہوئی جب ٹرائل پر گئے ثبوت ہی نہیں اس کا مطلب ہے کچھ نہیں کیا ہے پھر بھی آپ نے جیل دی ہوئی ہے ۔ پارلیمانی سسٹم لوگوں کو ڈیلیور نہیں کر رہا ہم صدارتی نظام چاہتے ہیں اور میری پارٹی کا بنیادی سوال یہی ہے کہ صدارتی نظام چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہمیں بہت محنت کرنی پڑے گی اور ہم کریں گے ۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website