counter easy hit

پنج پیر راکس

اگر ذیشان بلندیاں آپ کو عزیز ہیں، اگر آپ دل افروز فطرت کے دلدادہ ہیں، اگر آپ سطح زمین سے زمین کا فضائی نظارہ کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ من کے مسافر ہیں اور خود کو وسعتوں اور پنہائیوں کی نذر کرنا چاہتے ہیں، اگر آپ نے یونیک کلر، شیپ اور سائز کی راکس دیکھنی ہیں، اگر آپ ایڈونچرسٹ ہیں اور ہائکنگ، بائکنگ، کیمپنگ اور کلائمبنگ پسند کرتے ہیں، اگر آپ کی جیب کم خرچی اور دل بالا نشینی کا تقاضا کر رہا ہے تو نرڑ تا پنج پتھروں کی کہکشائیں آپ کی قدم بوسی کے لیے بے تاب ہیں۔

پنج پیر کی دل آویزی آپ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ پنڈی اسلام آباد سے دو گھنٹے لگتے ہیں۔ آپ کہوٹہ سے آزاد پتن جاتے ہوئے پنجاڑ سے بائیں ہو جائیں۔ چیڑ کے دلکشا جنگل سے گزرتی سڑک آپ کو نرڑ پہنچا دے گی۔ نرڑ سے پانچ کلومیٹر اوپر دیوزاد چٹانیں ہیں جن کی انتہا پنج پیر ہے۔

یہ علاقہ گردن کی طرح کھڑی چٹانوں کے باعث نرڑ کہلاتا ہے۔ ندی کنارے کنکروں سے لے کر فلک بوس چٹانوں تک پتھر ہی پتھر ہیں۔ جنہیں پتھروں کا جنون ہے ان کے لیے یہ جگہ جنت سے کم نہیں ہے۔

یونین کونسل نرڑ میں اکثریت ستیوں کی ہے۔ اس کے علاوہ منہاس اور عباسی بھی آباد ہیں۔ انسان دوست، مسافر نواز اور سادہ مزاج ہیں۔ پہاڑی علاقہ ہونے کے باعث یہاں کبھی کبھار آپسی لڑائیاں تو ہوتی ہیں لیکن سیاحوں کے ساتھ کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا حالانکہ اکثر من چلے یہاں کے کلچر اور روایات کا پوری طرح خیال نہیں رکھتے۔

نرڑ پر بہت سے ویو پوائنٹس ہیں لیکن اکثریت پنج پیر راکس کا انتخاب کرتی ہے۔ نرڑ سے آگے سڑک اکھڑی ہوئی ہے لیکن چیڑھ کے خشک مگر مخملیں پتوں نے سیاحوں کے لیے پتھروں کو ڈھانپا ہوا ہے۔ جگہ جگہ سڑک کنارے چلھٹوؤں نے مہمانوں کے لیے آنکھیں بچھائی ہوئی ہیں۔ پھل دار پیڑوں کی لچکتی باہیں مسافروں کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھلی ہوئی ہیں۔ مہمانوں کے منہ تر کرنے کے لیے جنگلی اناروں کے گچھے لٹک رہے ہیں۔ جھینگر استقبالیہ پیش کر رہے ہیں لیکن وقفے وقفے سے ابھرنے والے کوئل کی پرسوز آواز نے فضاؤں میں درد بھرا ہوا ہے۔

پنج پیر کو حیرت کدہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ اس کی دیوزاد چٹانیں اپنی غیر معمولی اٹھان اور پرجلال چوکور چہرے کے باعث بہت دور سے نگاہوں کو جذب کر لیتی ہیں۔ ان کے پاؤں میں جہلم بہہ رہا ہے۔ ان کے سینے سے شفا بخش چشمہ جاری ہے۔ ان کی آنکھیں پیر پنجال پر لگی ہوئی ہیں۔ ان چٹانوں کا ٹیبل کی طرح پھیلا ہوا سر ڈھلتے ڈھلتے دریائے سواں میں اتر جاتا ہے۔

یہ چٹانیں چٹیل اور بنجر ہیں۔ لیکن جہاں جہاں سے یہ چٹخی ہوئی ہیں وہاں سدا بہار چیڑ کی دلکش قطاریں ہیں۔ نیچے گہرائیوں سے بھی پائن سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ پتھر پھینکیں تو آواز کا سنسنی خیز انتظار کرنا پڑتا ہے۔ سیّاح ان شاداب گہرائیوں کے پس منظر میں یادگار سلفیاں بناتے ہیں۔

ان چٹانوں پر جب ہوائیں اٹھکھیلیاں کرتی ہیں تو چیڑ کی سرگوشیوں سے سماعتیں آباد ہو جاتی ہیں۔ گھنگور گھٹائیں جب آسمانوں کو چٹانوں سے ملاتی ہیں تو مادی وجود چکنا چور ہو جاتا ہے۔ لطافتیں پر کھول دیتی ہیں۔ آسمان ٹوٹتا ہے۔ چشمے، جھرنے، آبشاریں گنگنانے اور جذبات کا جہلم ہچکولے کھانے لگتا ہے۔

تاریخ ان چٹانوں کے بارے میں خاموش ہے۔ ”کیگوہر نامہ” کے مطابق پھروالہ کے گکھڑ سرداروں پر جب کوئی مشکل وقت آتا تو وہ ان پہاڑیوں کا رخ کرتے تھے۔ جودھ سنگھ چوہدری نے ہسٹری آف کہوٹہ میں صرف پانڈوؤں کے چشمے کا ذکر کیا ہے۔ البتہ گزیٹیر بتاتا ہے کہ گوروں کی بلوری آنکھیں ان چٹانوں کے اندر بہت دور تک چلی گئی تھیں۔

یہ چٹانیں دنوئی ریج کہلاتی ہیں۔ دنوئی کوٹلی ستیاں میں ہے۔ انتظامی لکیر یک جان ستیوں کو تقسیم نہیں کر سکی۔ یہ چٹانیں اپنے یامین نامی فرہاد پر آج بھی فخر کرتی ہیں۔ اس سے پہلے ایک صدیق نامی تیشہ بدست پنڈی سازش کیس سے ابھرتے ابھرتے رہ گیا۔ اس سال ایک جاوید نامی چٹان حوصلہ نے صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی کو جا لیا۔

پہاڑ اور جنگل انسان کے جنم جنم کے ساتھی ہیں۔ شاید اسی لیے یہ چٹانیں بیس سال سے مجھے سندیسے بھیج رہی ہیں۔ ان سے میری محبت کا پہلا تحریری اظہار 2007 میں ”برف پوش پنج پیر” سے ہوا جس پر ”پنج پیر کی چٹانیں اور محبت کا عالمی دن” کے عنوان سے 2016 میں ایک مہربان نے ہاتھ صاف کیا۔

آج میں ان سے عید ملنے آیا ہوں اور اپنے ہم سفر محسن ظفر کے ساتھ ان پر بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ اگر یہ چٹانیں کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتیں تو یہاں کوئی میوزیم یا کسی یونیورسٹی کے جیالوجی ڈیپارٹمنٹ کا کیمپس ہوتا۔ ٹورازم ڈیپارٹمنٹ نے جگہ جگہ تختیاں، بورڈ اور نقشے لگائے ہوتے۔ یہاں اگر چیئر لفٹس لگی ہوتیں تو شاید مری بائیکاٹ مہم کی نوبت نہ آتی۔ اگر گہرائی تک رسائی کے لیے کوئی سیڑھی ہی لگا دی جاتی تو نیچے جنگل میں منگل کا سماں ہوتا۔

میلوں پر پھیلی ان راکس کا بلند ترین پوائنٹ چھ ہزار فٹ کی بلندی پر پنج پیر ہے۔ یہاں 1902 کا تعمیر شدہ فاریسٹ ریسٹ ہاؤس اب بھی بہتر حالت میں ہے۔ ریسٹ ہاؤس میں ایک مرمریں لوح پر پہلی عالمگیر جنگ میں نرڑ سے شریک ہونے اور کام آنے والوں کی تفصیل درج ہے۔

چوٹی کے دوسرے سرے پر ”پنج پیر بیٹھک” ہے۔ پانچ پانڈو اور پنج پیر اساطیری کردار ہیں جن کے استھان اور بیٹھکیں پشاور سے بنگال تک موجود ہیں۔ ایک قدیم درخت کے نیچے چبوترہ بنا ہوا ہے۔ جس کے عین اوپر ایک ڈال کے ساتھ گھنٹی بندھی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں مشہور کر دیا گیا ہے کہ یہ دعا قبول ہونے پر بجتی ہے۔ بقیہ ڈال نارسائوں کی مرادوں کی سبز دھجیوں سے بوجھل ہیں۔ نیچے شو کیس میں ایک پتھر پر ایک نقش ہے جسے نعلین شریف سے منسوب کر دیا گیا ہے۔

بیٹھک کے گرد بہت سے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ جہاں شعور مردہ ہو وہاں دعاؤں کی قبولیت کی اطلاع گھنٹیاں دیتی ہیں۔ مقدس نقوش کا ظہور ہوتا ہے۔ امام الاولیاء حضرت شاہ شمس کی نشست گاہیں لگتی ہیں۔ خواجہ خضر بادشاہ کے چشمے ابلتے ہیں۔ مکر لباسِ خضر اوڑھتا ہے۔ فریب نعرے لگواتا ہے اور جہالت دھمال ڈالتی ہے۔

ہم پنج پیر ٹاپ سے سڑک کی ننگی چٹانیں اور نوکیلے پتھروں سے گرتے پڑتے بمشکل اس جگہ پہنچے جہاں سرکس لگتا ہے۔ جس میں شیر دھاڑتے ہیں۔ ماہر تیر انداز اور مشاق بلے باز کرتب دکھاتے ہیں۔ ڈگڈگی پر جمہورا نچاتا ہے۔ سرکس کا اختتام جمہورے کی قربانی پر ہوتا ہے۔ جمہورے کی عقل پر پڑے پتھروں نے اسے یہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ قربانی سے پہلے پیٹ پر بندھے پتھروں سے شیطانوں کو مارنا بھی ضروری ہے۔