counter easy hit

دھماکہ خیز انکشاف : معاملہ مونس الٰہی کو وزارت نہ ملنے کا نہیں ہارون الرشید نے اصل کہانی قو م کے سامنے رکھ دی

لاہور (ویب ڈیسک) اس قوم پہ اللہ رحم کرے۔ لیڈرانِ گرامی پہ اللہ رحم کرے۔ اپنی ذات کے جو اسیر ہوتے ہیں، اپنی ذات ہی کے اسیر ہوتے ہیں۔ ملک اور قوم کے خیر خواہ نہیں ‘اپنی خواہشات اور اپنی عادت کے غلام۔ایاز امیر نے ٹھیک کہا تھاقاف لیگ کے وزیر نے استعفیٰ خود نہیں دیا، نامور کالم نگار ہارون الرشید اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔مربیّ حضرات نے دلوایا ہے۔ خبر یہ ہے کہ ایک معروف چینل سے وزیر صاحب کا انٹرویو مونس الٰہی کے ایما پر ہوا۔ چوہدری پرویز الٰہی کی نگرانی میں، حتیٰ کہ کچھ جملے ان کی خواہش پر بعد میں حذف بھی کئے گئے۔ الیکشن 2018ء کے فوراً بعد عرض کیا تھا کہ چوہدریوں کا سیاسی کردار بڑھ گیا ہے۔ یہ انداز ہ صادق ہوا، جب سپیکر کے الیکشن میں تحریک انصاف کے ڈپٹی سپیکر سے چوہدری نے نسبتاً زیادہ ووٹ لئے۔ مطلب یہ کہ نون لیگ میں چوہدریوں کے اثرات موجود ہیں۔ حلیف باہم اگر مخلص ہوتے تو نون لیگ میں فارورڈ بلاک وجود میں آ چکا ہوتا۔ بڑھتے بڑھتے جو اسی طرح بڑھ جاتا، جیسے 2008ء کی اسمبلی میں قاف لیگ کا ناراض گروپ پھیل گیا تھا۔ ایک مرحلے پر ان کی تعداد 40 فیصد سے بڑھ گئی تھی۔ انہی دنوں شریف خاندان کے ایک قریبی ساتھی سے پوچھا کہ مزید چار پانچ ارکان شامل کر کے آپ لوگ ٹنٹا ختم کیوں نہیں کر دیتے۔ معلوم نہیں، ان صاحب کو کیا سوجھی بڑے میاں صاحب کو انہوں نے فون کیا اور موبائل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ چنانچہ ان سے کہہ دیا‘ بولے:پھر آپ ہی یہ نیک کام کر ڈالیے۔ موصوف کے طنزیہ لہجے کا سبب میں سمجھ نہ سکا۔کچھ دن بعدلاہور میں انسدادِ دہشت گردی پولیس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ تھی۔ رانا ثنا اللہ نے فون کیا: خادم اعلیٰ تمہاری موجودگی کے خواہشمند ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ تم آئو گے نہیں، لیکن مجھے رابطہ کرنے کا وعدہ نبھا ناہے۔ عرض کیا: رانا صاحب، آپ کو مغالطہ ہوا۔ میں نے سرکاری تقریبات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ اخبار نویس یہ کیسے کر سکتا ہے، بائیکاٹ توسرکار نے کر رکھا ہے۔تقریب صبح سویرے تھی۔ سفر کی کلفت اٹھا کر لاہور پہنچا۔ کالم لکھا تو حکومتِ پنجاب کو مبارک باد دی کہ نیکی کا ایک کام اس سے سرزد ہوا ہے۔ یہ الگ بات کہ فوجی افسروں کی نگرانی میں بہترین تربیت پانے والے ان جواں مردوں میں سے، بہت سوں کو اہم شخصیات کی حفاظت سونپ دی گئی۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت تیزی سے گری تھی۔ وزیراعظم نے مٹی کے تیل، پٹرول اور ڈیزل کے نرخ کم کرنے کا ارادہ کیا۔ اخبار نویسوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھا کر، تقریب کے اختتام پر انہوں نے اعلان کا فیصلہ کیا۔ اتفاق سے ان کے قریب کھڑا تھا۔ سوال کیا تو جواب دینے سے انہوں نے گریز کیا۔ سوال دہرایا اور قدرے بلند آواز میں۔ منہ پھیر کر وہ ایک دوسرے اخبار نویس کی طرف متوجہ ہو گئے۔خاکسار نے بات کو اہمیت نہ دی۔ یہ ہوتا ہے، بعض اوقات ایسا ہو جایا کرتا ہے۔ ممکن ہے، انہوں نے میری بات نہ سنی ہو، شاید سمجھی نہ ہو۔ تر دماغ مجیب الرحمن شامی تاڑ گئے۔ چائے والی میز کی طرف بڑھتے ہوئے وزیراعظم سے انہوں نے کہا: بھلا دیجئے، پچھلی باتوں کو بھلا دیجئے۔ ادھر میں جنرل راحیل شریف کی تاک میں تھا۔ ایک ضروری بات ان سے کہنی تھی ؛ چنانچہ پنڈ چھڑا کر بھاگا؛ البتہ شامی صاحب کا انداز مجھے خوش نہ آیا۔ اگلے کسی کالم میں گزارش کی‘ اس عنایت کی ضرورت نہ تھی۔ شامی صاحب نے کہا کہ تمہارے ایک جملے پر وزیراعظم ناراض ہیں۔ غور کیا تو محسوس کیا کہ واقعی ان سے زیادتی کی تھی۔ عرض کیا کہ معذرت کیے لیتا ہوں۔ اگر وہ چاہیں تو تحریری معذرت۔ ایک آدھ دن میں جواب ملا کہ انہوں نے شکریہ ادا کیا اور یہ کہا ہے کہ تحریری معذرت کی کوئی ضرورت نہیں۔ ولے بخیر گزشت‘ بات ختم ہوئی۔ ایک دن لفٹ میں اچانک مل گئے۔ بولے:منگل کو مدیرانِ اخبارات نے وزیراعظم کو مدعو کیا ہے۔ یہ اتوار کا دن تھا۔ سوموار کو مجھے اسلام آباد جانا تھا۔ سخت بوریت کا شکار، ان کے احترام میں رکا رہا۔وزیراعظم تشریف لائے تو ان کا موڈ خراب ۔انہوں نے کہا: میں کسی کی غیبت نہیں کرتا‘ اخبار نویس اور کچھ دوسرے لوگ اس پہ تلے رہتے ہیں۔ اس نکتے کو انہوں نے دراز کیا اور اس قدر دراز کہ سننے والوں کو تعجب ہوا۔ مجھے تو خیال نہ گزرا مگر علامہ صدیق اظہر نے کہا: تم کیسے کودن ہو، اتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ وزیراعظم کے مخاطب تم تھے۔ تمہیں دیکھ کر بگڑے، تم سے بہت ناخوش ہیں۔ ادھر میں حیران کہ معاملہ نمٹ گیا تھا۔ اب کاہے کی ناراضی۔ دو چیزوں کا رفتہ رفتہ اندازہ ہوا۔ ایک یہ کہ لیڈروں کی انا بہت بڑی ہوتی ہے۔ ثانیاً یہ کہ کم از کم میاں صاحب معاف کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔کبھی کوئی سوال کرتا ہے کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے تم اس قدر معترف کیوں ہو۔ دوسری چیزوں کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ کم از کم دو مواقع پر، خاکسار نے ان پہ سخت نکتہ چینی کی۔ پہلی بار یہ وکی لیکس کے افشا کا مرحلہ تھا۔ ایسی نکتہ چینی کہ صدمے سے ان کا برا حال تھا۔ مراسم توڑنا دور کی بات ہے۔ ملاقاتوں کا وقفہ بھی دراز نہ کیا۔ یاد کیا، حاضر ہوا تو بولے: موردِ الزام ٹھہرانے سے پہلے میرا مؤقف تو معلوم کر لیا ہوتا۔ عرض کیا:اگر بے نظیر بھٹو ، مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے باب میں وکی لیکس کی اطلاعات درست ہیں تو آپ کے باب میں کیوں نہیں۔ میں آپ کی بات نہیں مانتا۔بولے: میں نے کب کہا کہ مان لیں۔سن تو لیجیے۔امریکی سفیر کے ٹیلی گرام میں کہا گیا تھا کہ الیکشن 2008ء کے بعد جنرل کیانی ، اسفند یار ولی کو صدر بنانے کے آرزو مند تھے۔ جنرل صاحب نے کہا: اسی تار میں کیا یہ نہیں لکھا کہ جنرل نے صدارتی الیکشن سے الگ رہنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اسفند یار ولی سے پوچھ لیجئے کہ انہیں یہ پیشکش زرداری صاحب نے کی تھی یا میں نے۔ بات سمجھ میں آگئی اور سبب کا اندازہ بھی ہوا۔ احساس ہوا کہ امریکی سفیر کو مغالطہ ہوا۔ شاید اس لیے بھی کہ بات کرتے ہوئے جنرل صاحب سوچنے لگتے ہیں۔ ایسے میں دھیمی ہو کر ان کی آواز بڑبڑاہٹ میں بدل جاتی ہے۔ دو تین دن کے بعد وضاحت کر دی۔بعد میں جنرل صاحب نے کبھی اس کا ذکر تک نہ کیا۔پھر ایک اور خطرناک واقعہ پیش آیا۔ مجھے بتایا گیا کہ فلاں باب میں تم پر شبہ ہے۔ اب تمہارا فون ٹیپ کیا جائے گا۔ ان محترم شخصیت سے عرض کیا:الحمد للہ،دفاعی معاملات کی نزاکتوں کا ہمیشہ خیال رکھا ہے۔عمر بھر قانون کی پاسداری کی۔ شوق سے فون سنا کریں۔ کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی ذاتی زندگی کے راز دوسروں پر کھلیں، لیکن اندیشہ پالنے اور خوف زدہ ہونے کی ضرورت یہ ناچیز محسوس نہیں کرتا۔ تین ماہ بعد دہشت گردی کے موضوع پر سوات کے ایک سیمینار میں جنرل صاحب سے ملاقات ہوئی تو وہ خورسند تھے۔ الفت و انس کے ساتھ پیش آئے۔ اپنے تین چار با وردی ساتھیوں اور مشاہد حسین کی موجودگی میں دو تین گھنٹے گپ لگاتے رہے۔ لگتا ہے کہ چوہدری شجاعت نہیں، پرویز الٰہی بزدار صاحب سے ناراض ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مونس الٰہی کو وزارت نہ ملنے سے زیادہ، اس لئے کہ افسروں کے تقرر میں ان کی سفارش نہیں مانی جاتی۔ کہا جاتا ہے کہ گجرات ، سیالکوٹ اور بہاولپور میں وہ اجارہ چاہتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے یہ تو وہی بتا سکتے ہیں مگر بظاہر یہ انا ہی کا مسئلہ ہے۔ممکن ہے عمران خان کے ساتھ آج کی ملاقات میں تنازعہ طے پا جائے ‘ کم از کم وقتی طور پر۔ اس کا مگر کیا کیجئے کہ حصولِ طاقت کی تمنا Power Intoxicationچین نہیں لینے دیا کرتی۔ کبھی عمران خان یہ کہا کرتے تھے کہ انا کا بوجھ اٹھا کر خدمت کا حق ادا نہیںہو سکتا۔ آج ان کا حال یہ ہے کہ اپنی ذات ِگرامی کا حوالہ دیئے بغیر چند جملے بھی بول نہیں سکتے۔ اس قوم پہ اللہ رحم کرے۔ لیڈرانِ گرامی پہ اللہ رحم کرے۔ اپنی ذات کے جو اسیر ہوتے ہیں، اپنی ذات ہی کے اسیر ہوتے ہیں۔ ملک اور قوم کے خیر خواہ نہیں ‘اپنی خواہشات اور اپنی عادت کے غلام۔(ش س م)