counter easy hit

الیکشن 2018 : کن کن اہم حلقوں میں بڑے اپ سیٹ ہونیوالے ہیں ؟ کن رہنماؤں کی ضمانتیں ضبط ہونے والی ہیں ؟ ناقابل یقین سیاسی تبصرہ ملاحظہ کیجیے

لاہور ; انتخابات 2018 کی پولنگ میں تین روز باقی ہیں اور سیاسی جماعتوں نے الیکشن جیتنے کے لیے جائز اور ناجائز تمام حربوں کا استعمال شروع کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے پارٹی قیادت کو ہی نہیں امیدواروں کی بھاری تعداد کو نوٹس دے رکھے ہیں ۔

نامور تجزیہ کار ارشد یاسین اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔ انتخابات 2018 اس لحاظ سے ھی منفرد ہیں الیکشن میں حصہ لینے والی ایک بڑی جماعت کے قائد نااہل ہیں اور جیل سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں ۔ اور چند مذہبی جماعتیں جن پر پابندی عائد کی گئی ہے انہوں نے دوسری جماعتوں کے پلیٹ فارم سے اپنے امیدوار میدان میں اتار دیئے ہیں ۔ انتخابی مہم جو اس وقت بن چکی ہے اس میں دو جماعتوں کے درمیان ہی مقابلے متوقع ہیں ۔ ہنجاب میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف جبکہ خیبرپختونخوا می تحریک انصاف اور مجلس عمل جبکہ ن لیگ اور اے این پی کے درمیان غیر اعلانیہ اتحاد ہے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے ساتھ ہے ۔ جبکہ بلوچستان میں بے این اے کا قوم پرست جماعتوں کے ساتھ ہے ، چند روز بعد ہونےو الے انتخابات کا نقشہ یہ ہے کہ اس میں چھوٹی بڑی کئی جماعتیں اور آزاد امیدوار قسمت آزمائی کر رہے ہیں ۔ انتخابات میں جہاں بڑے بڑے برج الٹنے کے خدشات ہیں وہیں ضمانتیں ضبط کروانے والوں کا تاریخی ریکارڈ بنے گا۔ ضمانتیں ضبط کروانے کا ریکارڈ اس سے قبل 1977 کے انتخابات تھے۔

ضمانتیں ضبط ہونے کے زیادہ امکانات اس لیے ہیں کہ ان انتخابات میں کاسٹ ووٹ کا ساڑھے بارہ فیصد ووٹ لینے والے کی ضمانت ضبط ہوتی تھی نگر اب ووٹ کاسٹ کرنے کے 25 فیصد ہو گا ۔ نئے قانون کے بعد شوقین امیدواروں اور دہاڑی لگانے والوں سے جان چھوٹ گئی ہے ۔ اس لیے اب کاغذات نامزدگی جمع کروانے والے افراد کی تعداد میں بھی کافی کمی نظر آ ئی ۔ حلف ناموں کے باعث کافی افراد نے کاغزات نامزدگی جمع نہیں کروائے ۔ جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو بھاری نقصان ہوا ہے مگر الیکشن فیس میں 100 فیصد اضافے پر الیکشن کمیشن کے خزانے مین 49 کروڑ روپے جمع ہوئے ہیں اور اب ضمانتیں ضبط ہونے والے امیدواروں کے کروڑوں روپے بھی خزانے میں جائیں گے ۔ ایکشن کامیاب ہونے والے امیدواروں میں سے چند ایک ہی اپنی ضمانتیں بچا سکیں گے ۔ انتخابی مہم کے ہنگامے میں جو فضا بن چکی ہے ، اس میں یہی اندازہ لگایا گیا ہے کہ قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے 80 کے قریب امیدواروں میں ون ٹو ون مقابلے ہیں ۔ باقی امیدواروں کی ضمانتیں ضط ہونے کے امکانات ہیں صرف مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے امیدوار ہی اپنی ضمانتیں بچا سکیں گے ۔ کراچی کے 21 ، لاہور کے 14 ، فیصل آباد کے 10، راولپنڈی کے 7 گجرانوالہ، رحیم یار خان ، مظفر گڑھ اور ملتان کے چھ چھ حلقوں میں ون ٹو ون مقابلہ ہے ۔ جہاں ن لیگ پری پول دھاندلی کا رونا رہی ہے وہیں پی ٹی آئی کے امیدوار احمد حسین ڈاہر الیکشن میں مخصوص اداروں کی مداخلت کی درخواست لے کر الیکشن کمیشن پہنچ گئے ہیں ، جبکہ پیپلز پارٹی ، مجلس عمل اور تحریک لبیک سمیت دیگر جماعتوں نے بھی اپنے امیدوار میدان میں اتار رکھے ہیں مگر اپنی ضمانتیں کو ن بچائے گا یہی اصل الیکشن ہو گا ۔