counter easy hit

معاشی بدحالی اور ہمارا نظام

حکومت کا کہنا ہے کہ معیشت اب جنرل وارڈ میں ہے۔ مزید بہتری کی امید ہے۔ اگرچہ اس میں ڈیڑھ سے دو سال کا وقت لگے گا۔ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو سابقہ حکومت سے خسارہ2 ارب ڈالر سے زائد ورثے میں ملا تھا، اس کے باوجود معیشت کی حالت پہلے کی نسبت کچھ بہتر ہوئی ہے۔ عمران خان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی پاکستانی معیشت انتہائی نازک صورتحال سے دوچار ہو چکی تھی لیکن اپوزیشن معیشت کی تباہی کی مکمل ذمے داری عمران خان پر ڈالتی ہے۔

ماہرین معیشت پچھلے تیس سالوں سے مسلسل خبردار کر رہے تھے لیکن ہمارے کان پر جوں نہ رینگی ۔ بقول قرض کی پیتے تھے مے، اور سمجھتے تھے کہ رنگ لائی گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔ بڑھتی ہوئی آبادی ہمارے وسائل پیدا وار کو مسلسل ہڑپ کر رہی ہے۔ قومی پیداوار میں اضافے کا صرف اُس وقت ہی فائدہ ہو سکتا ہے جب کسی ملک کی آبادی میں کمی ہو۔ اگر آبادی میں اضافہ خوش حالی، ترقی کا ضامن ہوتا تو ترقی یافتہ امیر ممالک کی آبادی سب سے زیاد ہ ہوتی۔

ہمارے بیرونی قرضے 98 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکے۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ ہم پرانے قرضوں کا صرف سود ادا کرنے کے لیے نئے قرضے لے رہے ہیں۔ پرانے قرضے اتارنا تو دور کی بات ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ غربت بر صغیر میں پائی جاتی ہے۔ پاکستان اور بھارت شروع دن سے ہی ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ نتیجے میں اُن کے وسائل کا بیشتر حصہ جنگی اخراجات پر لگ جاتا ہے ۔ ایٹم بم، ایٹمی میزائل اور دوسرے جدید ترین جنگی ہتھیار بنانا کوئی مذاق نہیں۔ بھارت اپنی آمدنی کا تقریباً 60 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے جب کہ پاکستان اپنے دفاع اور لیے ہوئے قرضوں کی سود کی ادائیگی پر70 فیصد خرچ کرتا ہے۔ جب کہ دونوں ملکوں کی دو تہائی آبادی غربت کا شکار ہے۔

خط غربت ایک معیار ہے جس کے ذریعے غربت کو مانپا جاتا ہے اگر کسی شخص کو ایک وقت کی روٹی دستیاب نہ ہو تو اسے خط غربت سے نیچے سمجھا جاتا ہے۔ خط غربت سے ذرا اوپر لوگ بھی غریب ہی شمار ہوتے ہیں۔ اس حساب سے بھارت میں کم از کم 80 کروڑ لوگ غربت کا شکار ہیں جب کہ پاکستان میں یہ تعداد14 کروڑ تک پہنچتی ہے۔ بیشتر لوگوں کو بمشکل دو وقت کی روٹی میسر ہے ۔ نتیجے میں وہ کم خوراکی کی وجہ سے خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جب روٹی ہی کھانے کو ہی میسر نہیں تو صحت اور تعلیم کی سہولتیں سہانہ خواب ہی ہیں۔

پاکستانی معیشت کی بد ترین صورتحال کے پیش نظر بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی سازش یہ ہے کہ مشرقی سرحدوں کو مسلسل گرم رکھ کر معیشت کو بحال کرنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا جائے۔ پلوامہ حملہ پاکستان کے خلاف سازش تھی۔ اس حملے کی ٹائمنگ (سعودی ولی عہد کے دورے سے چند دن قبل) اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ مشرقی وسطیٰ سے  بر صغیر کے علاقے میں دہشتگردوں کی بقا صرف اس صورت میں ہی ممکن ہے کہ پاکستان بھارت جنگ کرا دی جائے، چاہے اس کا نتیجہ ایٹمی جنگ کی صورت میں ہی کیوں نہ نکلے۔

ہم آئی ایم ایف کے پاس جا کر اصلاحات لائیں گے، حکومت کی کوشش ہو گی کہ کمزور طبقے پر کوئی بوجھ نہ پڑے۔ انھوں نے کہا کہ حکومتی وسائل وہاں لگائیں گے جہاں روز گار کے مواقع پیدا ہوں، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو ۔

پاکستان کے معاشی حالات کو سدھارنے کے لیے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم نافذ کی جا رہی ہے تا کہ خفیہ ملکی وغیر ملکی اثاثہ جات کو قانونی بنایا جا سکے۔ وفاقی بجٹ میں نان فائلرز کے لیے جائیداد وں کی فروخت پر عائد پابندی ختم اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کم کر دی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ عوام جیل نہیں جانا چاہتے تاہم وہ ایسی ٹیکس ایمنٹسی اسکیم سے استفادہ کرنے کے خواہش مند ہیں جس کے تحت انھیں ملکی وغیر ملکی اثاثہ جات ظاہر کرنے اور ان پر ٹیکس ادا کرنے میں کم سے کم مشکلات درپیش ہوں۔ انھوں نے بتایا کہ بے نامی اکاؤنٹس، بے نامی جائیداد یں اوربے نامی منقولہ و غیر منقولہ اثاثہ جات بھی اس اسکیم کے تحت ظاہر کرکے قانونی بنوائے جا سکیں گے۔

یہ وہ طبقہ ہے جس نے غیرقانونی ذرایع سے اپنے اثاثے بنائے اور بہت بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری کی ۔قانو ن کی نظر میں یہ مجرم ہیں مگر اس کے باوجود ان لوگوں کو نواز نے کے لیے قوانین میں ترمیم کی جاتی ہے۔ یہ کس قدر بالا دست ہیں اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پارلیمنٹ میں کوئی قانون ان کی مرضی کے بغیر ایسا نہیں بن سکتا جو اس طبقے کے مفادات کو نقصان پہنچا سکے۔اس کی گواہی خود ہمارے وزیر خزانہ یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ چند ہزار اشرافیہ کے چنگل میں ہے۔ غریب کا کوئی والی وارث نہیں، غریب کے لیے قانون مکڑی کا جالا ہے۔ مغرب میں ٹیکس نہ دینا گناہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی کوئی معافی نہیں۔ معاشرہ اس کا بائیکاٹ کرتا ہے جب کہ ہمارا معاشرہ نیچے سے اوپر تک ٹیکس چور ہے۔

ہمارے ہاں عام آدمی سے لے کر بالا دست طبقات کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ ٹیکس دیا ہی نہ جائے۔دوسری بڑی وجہ ٹیکس اکٹھا کرنے والی مشینری کی  بڑے پیمانے پر کرپشن ہے۔ ایک طرف آپ ان کی تنخواہ دیکھیں دوسری طرف ان کا لائف اسٹائل دیکھیں، مغرب خاص طور پر سکینڈے نیوین ملکوں میں ٹیکس کی شرح 50فیصد تک ہے یعنی جتنا آپ کماتے ہیں اُ س کا نصف حکومت لے لیتی ہے اور یہ رقم عوامی بہبود پر خرچ کی جاتی ہے ۔ یعنی ضرورت سے زائد دولت غریبوں محروموں کا حق ہے۔ چنانچہ پاکستانی معاشرے میں بھی ضرورت سے زائد دولت امیروں سے لے کر غریبوں پر خرچ کی جائے، پھر ہی جاکر اسلام کے عادلانہ نظام کا نفاذ ممکن ہوسکے گا۔