counter easy hit

ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث صوبائی دارلحکومت پشاور سمیت صوبے بھر کے تاجر ارب پتی بن گئے

Due to the increase in dollar value traders became billionaire across the province including provincial capital Peshawarپشاور: ڈالر کی قیمت میں اضافہ کے باعث صوبائی دارلحکومت پشاور سمیت صوبے بھر کے تاجر ارب پتی بن گئے ہیں۔ صوبائی دارلحکومت پشاور میں ڈالر مارکیٹ سے غائب ہوگیا ہے اور بعض مقامات پر بڑے ڈالر مل رہے ہیں جبکہ چھوٹے ڈالر دستیاب نہیں ہیں بعض دیگر غیر ملکی کرنسی بھی مارکیٹ سے جزوی طور پر غائب ہیں۔ 100 بڑے تاجروں، 1 ہزار چھوٹے تاجروں اور 2 ہزار مزید چھوٹے تاجروں نے 2 دنوں میں مجموعی طور پر 5 ارب روپے سے زائد کا منافع کیا ہے چوک یادگار، قصہ خوانی، کارخانوں مارکیٹ سمیت شہر کے مختلف مقامات پر ڈالر، درہم، ریال، پاونڈ، کویتی دینار سمیت دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے کاروبار کرنے والوں نے کروڑوں روپے کی آمدن کر لی ہے۔ صوبے کے بعض مقامات پر بڑے اور چھوٹے ملکی اور غیرملکی قانونی اور غیرقانونی کرنسی کا کاروبار کرنے والے تاجر کروڑ پتی بن گئے ہیں قصہ خوانی اور خیبر بازار میں شوکیسوں میں غیر ملکی کرنسی فروخت کرنے والے اور نئے کرنسی فروخت کرنے والے دوران لاکھ پتی بن گئے ہیں۔ جبکہ بینکوں میں فارن اکاونٹ رکھنے والے بھی کروڑ پتی ہو گئے ہیں۔

دوسری جانب خبر کے مطابق بجٹ خسارہ اور شرح سود میں اضافے سے مجموعی قرضوں اور واجبات میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔مجموعی قرضے اور واجبات 35 ٹریلین روپےجو کہ جی ڈی پی کا 91 اعشاریہ 2فیصد ہے۔سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کا کہنا ہے کہ پالیسی ریٹ میں تبدیلی سے قرضوں کی مطلوبہ ضروریات میں مزید اضافہ ہوگا۔تفصیلات کے مطابق،شرح سود میں اضافہ اب 12اعشاریہ25 فیصد پر پہنچ گیا ہے اورمارچ 2019 کے اختتام پر پاکستان کا مجموعی قرضہ اور واجبات 35 اعشاریہ 094 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے تھے ، جب کہ بجٹ خسارے کے تناظر میں ان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔رواں مالی سال کے ابتدائی نو ماہ (جولائی تا مارچ) کے دوران مجموعی قرضوں اور واجبات میں 6 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا جو کہ جون 2018 میں 28 اعشاریہ 879 ٹریلین روپے سے بڑھ کرمارچ 2019 تک 35 اعشاریہ 094 ٹریلین روپے پہنچ گئے تھے۔

مجموعی قرضے اور واجبات جی ڈی پی کے 91 اعشاریہ 2 فیصد ہوگئے ہیں۔ مارچ 2019 کے اختتام تک بیرونی قرضے اور واجبات 105ارب ڈالرز کی حد عبور کرچکے تھے، جس سے آنے والے دنوں میں سنگین مشکلات پید اہوسکتی ہیں۔ موجودہ حکومت کے دور میں بیرونی قرضوں اور واجبات میں 10ارب ڈالرز کا اضافہ ہوچکا ہے۔مجموعی قرضے اور واجبات تیزی سے بڑھ رہے ہیں جس کی وجہ بڑھتا ہوا بجٹ خسارہ ، اس کی مالی ضروریات اور شرح سود میں اضافہ ہے۔پالیسی ریٹ میں 150 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہےجو کہ 10اعشاریہ 75 فیصد سے بڑھ کر 12 اعشاریہ 25 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔پاکستان کا مجموعی قرضہ 33 اعشاریہ 026 ٹریلین روپے ہے۔جس میں حکومت کا ملکی قرضہ 18 اعشاریہ 17 ٹریلین روپے اور سرکاری اداروں (پی ایس ایز) کا قرضہ 1 اعشاریہ 378 ٹریلین روپے ہے۔مارچ 2019 کے اختتام تک مجموعی واجبات 2 اعشاریہ 067 ٹریلین روپے تھے۔ مالیاتی ذمہ داری کی تعریف اور قرضوں کے حد کا ایکٹ (ایف آر ڈی ایل اے) کی تعریف کے مطابق مجموعی حکومتی قرضہ 26اعشاریہ 368 ٹریلین روپے ہے۔اس ضمن میں جب سابق سیکرٹری خزانہ اور معروف ماہر معیشت ڈاکٹر وقار مسعود سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ میں تبدیلی کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہےاس سے قرضوں کی مطلوبہ ضروریات میں مزید اضافہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ میں 150 بیسز پوائنٹس کے اضافے سے یہ 600بیسز پوائنٹس تک پہنچ چکا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس سے استحکام کے حصول کی کوشش کی جارہی ہےاور اس سے اصل موثر شرح سود میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے۔ 100 ارب ڈالرز کی نفسیاتی حد رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی (جنوری تا مارچ) میں ہی عبور ہوگئی تھی۔