counter easy hit

چھوڑ امریکا کے لئے رقصِ بدن کے خم و پیچ

پاکستان کے لئے اس سے زیادہ شرم کی بات نہیں ہو سکتی کہ 14 مئی کو عین اس روز جب فلسطین پر اسرائیل کے تسلط کے ستر سال مکمل ہوئے تھے، امریکی سفارت خانہ، یروشلم منتقل ہورہا تھا اور محصور غزہ میں اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں کو اندھا دھند فائرنگ کا نشانہ بنا رہی تھی، پاکستان نہ صرف مصلحت کی چادر اوڑھ کر خاموش بیٹھا تھا بلکہ امریکا کی خوشنودی کے لئے اسلام آباد میں ایک پاکستانی نوجوان کی جان لینے والے امریکی فوجی اتاشی کرنل جوزف کو اسلام آباد میں فضائیہ کے ہوائی اڈہ پر امریکی فوج کے حوالہ کر رہا تھا۔ کرنل جوزف کو امریکا کے حوالے کرنے کے موقع پر دیت کا وہ ڈرامہ بھی نہیں کھیلا گیا تھا جو ریمنڈ ڈیوس کو امریکا کے حوالہ کرنے کے لئے کھیلا گیا تھا۔

پاکستان کے لئے انتہائی شرم کی بات ہے کہ ترکی واحد مسلم ملک ہے جس نے امریکی سفارت خانہ یورشلم منتقلی اور غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 60 فلسطینیوں کی ہلاکت کے خلاف بطور احتجاج امریکا سے اپنا سفیر واپس بلانے اور ترکی سے امریکی سفیر کو نکالنے کا اعلان کیا۔ غزہ کے قتلِ عام کے دوسرے روز لندن میں وزیر اعظم ٹریسا مے کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں صدر اردوان نے کھلم کھلا اسرائیلی فوج کی بر بریت کی شدید مذمت کی۔

غزہ میں فلسطینیوں کے قتل عام پر لندن سے لے کر نیویارک تک ساری دنیا میں صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے لیکن پاکستان میں مجرمانہ خاموشی کا کوئی جواز نظر نہیں آتا، سوائے امریکا کے خوف یا حکمرانوں کے امریکا سے وابستہ مفادات کے۔

ان حالات میں پاکستان کے عوام کی توجہ 1937ء میں لکھنو کی مسلم لیگ کی کانفرنس میں قائد اعظم محمد علی جناح کی اس تقریر کی طرف مبذول کرانا بے سود ہے، جس میں انہوں نے فلسطین کی حمایت کرتے ہوئے برطانیہ کو خبردار کیا تھا کہ بر صغیر کے مسلمان، ارض فلسطین پر کسی بیرونی طاقت کا تسلط برداشت نہیں کریں گے۔ پھر 1945ء میں بمبئی میں ایک جلسہ عام میں قائد اعظم نے اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کے مسلمان، فلسطین کے مسئلہ پر عربوں کے ساتھ ہیں۔ فلسطین پر دراصل برطانیہ کی بندوقوں اور امریکا کی دولت کی مدد سے یہودی ارض فلسطین کو فتح کرنا چاہتے ہیں جو انہوں نے دو ہزار سال قبل گنوا دی تھی۔

پاکستانی قوم اپنے قائد کے اور کن اقوال کا احترام کرتی ہے کہ اس سے یہ امید کی جائے کہ وہ فلسطین کے مسئلہ کے بارے میں بانی پاکستان کے جذبات کا احترام کرے۔

کس قدر فرق ہے 1920ء سے جب بر صغیر کے مسلمان خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور تحریک خلافت کے پرچم تلے، مسلح جدو جہد کا عزم کر کے برطانوی راج کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اُس وقت بر صغیر کے مسلمان، انگریزوں کی غلامی کے طوق میں بندھے ہوئے تھے لیکن آج پاکستان کے عوام، آزاد ہیں لیکن انداز غلامی کے دور سے بھی بد تر ہے۔

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر۔ ۔ مرداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر۔