counter easy hit

ٹوئٹر کا گٹر

Dangerous, effects, of, Twitter, on, our, younger, generationبچپن سے ایک ہی شوق ہے اور وہ ہے وقت ضائع کرنا۔ جب چھوٹے تھے تو گھنٹوں بھینس کی دم پکڑ کر نہر میں بہتے جاتے تھے اور اپنے آپ کو بڑا تیراک سمجھتے تھے۔گھر میں پڑی سبزی کی ٹوکری سے رسی باندھ کر چڑیاں پکڑنے کی کوشش کرتے تھے۔ سائیکل چلانے کے قابل ہوئے تو شہر کے سینیما میں لگے فلم کے فوٹو سیٹ کے سامنے اتنا وقت گزارتے تھے کہ پوری فلم کی کہانی بغیر دیکھے سمجھ آ جاتی تھی۔اب بھی اخبار ہاتھ میں آ جائے تو ٹینڈر نوٹسوں پر ضرور نظر ڈالتے ہیں کہ شاید ہمارے کام کا کوئی ٹھیکہ نکل آئے۔ جب ٹی وی کی عادت پڑی تو ان مارننگ شوز کو جنھیں ہم خود برا بھلا کہتے ہیں کبھی دیکھنے سے باز نہیں آئے۔

ٹوئٹر کی اپنے یوزرز سے معذرت

Dangerous, effects, of, Twitter, on, our, younger, generation کوئی کوکنگ شو دیکھتے ہیں تو اتنے منہمک ہو جاتے ہیں کہ کھانا کوئی پکا رہا ہو دل ہمارا چیخ رہا ہوتا ہے کہ بھائی دھیان سے پیاز نہ جل جائے۔اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ سارے ایسے کام جن سے ہمیں کوئی فائدہ ہوتا ہے نہ کسی کا نقصان، ان میں بہت دل لگتا ہے۔ نہ کسی بھینس کا کوئی نقصان ہوا نہ زندگی میں کوئی چڑیا پکڑی گئی۔ہم جیسے سست الوجود لوگوں کے لیے انٹرنیٹ ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ اب نہ ٹی وی آن کرنے کی ضرورت نہ جنگ اخبار کے اندرونی صفحات میں بقیے تلاش کرنے کی جدوجہد۔ اب ساری دنیا کا علم اور پورے جہان کی خرافات لیپ ٹاپ پر موجود۔

Popular videos today:

Dangerous, effects, of, Twitter, on, our, younger, generation ہم بھی باقی لوگوں کی طرح فیس بک اور ٹوئٹر پر جا کر چپکے چپکے دوسرے لوگوں کی شادیوں اور یورپ میں چھٹیوں کی تصویریں دیکھتے ہیں۔ اپنے اور گھر کے کام بھی متاثر ہوتے ہیں۔کبھی کبھی دل بھی ملامت کرتا ہے کہ تم کیسے انسان ہو، ایک ہاتھ سے بچے کو دودھ پلا رہے ہو اور دوسرے ہاتھ میں فون پکڑ کر ماہرہ خان کی نئی فلم کا ٹریلر دیکھ رہے ہو۔پھر اپنے آپ کو ذمہ دار شہری ثابت کرنے کے لیے کسی کتاب پر تبصرہ پڑھ لیتے ہیں، فلسطین میں ہونے والے مظالم پر کوئی کہانی یا کسی دوست کی کسی نئی نظم کو لائیک کر دیتے ہیں۔ کسی مرحوم عالمِ دین کا خطاب سن لیتے ہیں، عالم لوہار کا لندن پروگرام دیکھ لیتے ہیں اور اپنے آپ کو تہذیب یافتہ اور ثقافت کا دلدادہ قرار دے دیتے ہیں۔ایسی لغویات کی طلب اس وقت بڑھ جاتی ہے جب کوئی ضروری کام کرنا ہو۔ اب بھی ڈیڈ لائن سر پر ہے لیکن دل کہہ رہا ہے کہ نوجوان صحافی صبا امتیاز نے گوبھی تراش کر چاول بنانے کے بارے میں ایک مضمون لکھا تھا وہ مزیدار تھا لیکن پوری طرح سمجھ نہیں آیا تھا، پہلے اسے دوبارہ نہ پڑھ لیا جائے۔

بشکریہ محمد حنیف،