counter easy hit

پیاری زبان ایک مختصر تعارف اور جائزہ

Pyari Zaban

Pyari Zaban

تحریر: کامران غنی صبا
ہمارے زمانے میں یہ شکایت عام ہے کہ اسکولی سطح پر اردو زوال پزیر ہے اور یہ کسی حد تک درست بھی ہے۔ چونکہ میں خود بھی درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوں اس لیے مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ اسکولی سطح پر اردو ذبان کا مستقبل بہت تابناک نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً حکومت کا اردو کے ساتھ امتیازی سلوک، اساتذہ کی تساہلی، روز افزوں گرتا ہوا معیار تعلیم وغیرہ۔ ان سب سے قطع نظر طلبہ میں اپنی مادری زبان کے تئیں عدم دلچسپی کی ایک بڑی وجہ اچھی کتابوں کا فقدان ہے۔ یہ سچ ہے کہ آج اردو میں معیاری اخبارات و رسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔

گزشتہ چند سالوں میں اخبارات و رسائل کی اشاعت میں اضافہ ہی ہوا ہے لیکن مجھے یہ کہنے دیجیے کہ حالیہ چند برسوں میں بچوں کی دلچسپی، ان کی نفسیات اور جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر اردو میں نصابی کتابوں کی اشاعت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ہے۔ ماضی میں اسماعیل میرٹھی یا افضل حسین وغیرہ نے یقینا بڑی خدمات انجام دی ہیں لیکن بدلتے ہوئے وقت اور اس کے تقاضوں کے ساتھ نصابی کتابوں میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ آج کے بچے رنگ برنگی کتابوں کے درمیان اردو کی Black & White کتاب رکھنا باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں۔کل اور آج کے طریقۂ تدریس میں بھی نمایاں فرق آیا ہے۔بچوں کا ذہن جدت تلاش کرتا ہے۔ بچوں کی دلچسپی اور ان کی آموزش کی رفتار کو دیکھتے ہوئے بسا اوقات مختلف طریقۂ تدریس اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی دلچسپی، ان کی عمر ، ذہنی سطح اور تعلیمی نفسیات کو ملحوظ رکھے بغیر تدریس کا عمل کبھی کارگر نہیں ہو سکتا۔

حامد حسین ندوی کی کتاب پیاری زبان اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں بچوں کی عمر، ان کی ذہنی سطح ، معیار، عمر اور نفسیات کا حد درجہ خیال رکھا گیا ہے۔ زبان سیکھنے کے عمل میں بچہ سب سے پہلے آواز کی شناخت کرتا ہے اور سنی ہوئی آواز سے ملتی جلتی آواز نکالنے کی کوشش کرتاہے ۔ حامد حسین ندوی نے بچے کی اس نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے حروف تہجی کے ساتھ ایسے الفاظ کا انتخاب کیا ہے جو حروف کی آواز سے مشابہت رکھتے ہیں۔ مثلاً الف سے املی بھی لکھا جا سکتا ہے لیکن چونکہالف پر فتح ہے اور اس کی آواز ہندی اکشر کی طرح نکلتی ہے۔ اس لیے انھوں نے الف سے انار لکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اسی طرح ب سے بلا یا بکری کی جگہ بلی ،پ سے پتنگ نہ لکھ کر پیڑا، ت سے ترازو،ج سےجیپ، س سے سیٹی، ش سے شیشی وغیرہ لکھنا زیادہ مناسب سمجھا۔ میرے خیال میں مختلف حروف سے الفاظ کے انتخاب میں شاید اس سے پہلے کسی نے غور نہیں کیا ہے۔

مرتب نے حروف تہجی کی مروجہ ترتیب کے علاوہ نقطے اور تلفظ کے لحاظ سے ان کی الگ درجہ بندی بھی کی ہے۔اس طرح بچے کے ذہن میں حروف کا ایک عمومی نقشہ محفوظ کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ نیز مختلف حروف کی ترتیب سے بامعنی جملے بنا کر انھیں مزید دلچسپ بنا دیا گیا ہے۔ مثلاً د، ڈ اور ے ان حروف کو بغیر رکے رواں پڑھنے سے ایک بامعنی جملہ دال ڈالیے بن جاتا ہے۔ اس طرح د، ڈ ،پ، ط ،ت (ڈال ڈال پہ طوطے)، چھ ، پ، ڑ، ڈ ، ے(چھ پیڑے ڈالیے)جیسے حرفوںکی ترتیب سے بنائے گئے جملے مثال کے طور پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔

پیاری زبان کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ مصنف نے لفظوں کی ترتیب میں صوتی آہنگ کو ملحوظ رکھا ہے۔ مثال کے طور پر سہ حرفی الفاظ ڈول، روک، روز، ووٹ، دوم وغیرہ کو مجہول طریقہ سے پڑھا جاتا ہے جبکہ اون، دور، روس، روپ جیسے الفاظ معروف طریقے سے پڑھے جاتے ہیں۔ ایسے الفاظ جو صوتی اعتبار سے یکساں ہیں انھیں ایک ترتیب کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ اردو کی ابتدائی درسی کتابوں میں سہ حرفی، چہار حرفی الفاظ کی مشق کے لیے صوتی آہنگ کی جانب شاید اب تک کسی نے توجہ نہیں دی ہے۔

حامد حسین ندوی کی ترتیب شدہ کتابوں کی یہ سیریز بظاہر مختصر اور عام جیسی ضرور ہے لیکن بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ پیاری زبان کی یہ سیریز طویل محنت شاقہ کے بعد منظر عام پر آئی ہے۔ پیاری زبان کا تعارف پیش کرتے ہوئے مرتب نے لکھا ہے: اس میں سیکھنے اور سمجھنے کا آسان سے بتدریج مشکل کی طرف جانے کا مانوس اور دلچسپ طریقہ اختیار کیا گیا ہے تاکہ پڑھنے اور سیکھنے کا ابتدائی عمل ننھے منے بچوں کے نازک شعور پر بے جا بوجھ نہ سکے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بچے جنت کے پھول ہیں۔ زہے نصیب کہ حامد حسین ندوی نے جنت کے ان پھولوں کی آبیاری کو اپنا پسندیدہ مشغلہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں اس خدمت کے عوض بہترین جزا سے نوازے۔(آمین)
(مرتب سے موبائل نمبر 7870396757 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)

Kamran Ghani

Kamran Ghani

تحریر: کامران غنی صبا