counter easy hit

پردے کے پیچھے

Education

Education

تحریر : وقار انساء
آج کے دور میں تعلیم ایک کاروبار بن کر رہ گئی ہر شہر کے ہر کوچے اور ہر گاؤں میں انگلش میڈیم سکولوں کی تعداد اتنی ہے کہ حیرت ہوتی ہے –ان سکولوں کا سلیبس دیکھیں تو ہر ایک پر آکسفورڈ کا سلیبس ہونے کی سند ضرور ہے ایسے لگتا ہے جیسے اس کے علاوہ پڑھائی بیکار ہے –اس پر طرہ یہ کہ استاد کے لئے تعلیم یافتہ ہونا بالکل ضروری نہیں جہاں کہیں روپیہ پیسہ ہے وہیں تعلیم کی تجارت ہو رہی ہے ایسا لگتا ہے جیسےبھاری فیسوں اور بھاری بستوں کی موجودگی ہی تعلیم کا حصول ممکن بنا رہی ہے شاندار عمارات اور جدید سہولتوں سے آراستہ یہ سکول شہروں میں پھر قدرے کام کر رہے ہیں

جبکہ دیہات میں ایک یونیفارم شاندار سلیبس کا جھانسہ دے کر عوام کو لوٹا جا رہا ہے فیس اتنی ہے کہ عام انسان کی پہنچ سے باہر ہے جس کسی کے چار پانچ بچے پڑھتے ہیں ان کے لئے تو گھر کی دال روٹی چلانا بھی مشکل ہو رہا ہے خدا بھلا کرے اس نظام کا کہ جس کے تحت بچوں کو سکول وین لگوا کر دینا بھی ضروری ہے اور اس کے بعد ٹیوشن بھی ایک طرف تو یہ پرائيویٹ سکول تعلیم کوبھاری فیسوں کے باعث مہنگے داموں بیچ رہے ہیں

دوسری طرف اساتذہ کی نا اہلی چھپانے کو رشوت دیکر سکول کا رزلٹ شاندار دکھانے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں حيرت سے آنکھیں کيا منہ بھی کھل جاتا ہے جب دیہاتوں میں تعينات میٹرک پاس استاد سو فيصد رزلٹ دکھاتے ہیں جس سے پوچھو وہاں کے بچے ہزار میں سے نو سو نو سو پچاس نو سو ستر اس سے تو کم نمبر نہیں اس طرح وہ والدين جو فيس کے نام پر ہر مہينہ ہزاروں میں فيس بھرتے ہیں–

ان کے لئے خوش کن لمحات ہوتے ہیںاس طرح سے تیار ہونے والی نسلیں کسی بھی شعبے میں جائیں گی تو کبھی اپنے پیشے سے انصاف نہیں کر سکیں گی-بلکہ ناجائز طريقے سے کام کرتے ہوئے رشوت اور کرپشن کو فروغ ملے گا اب پردے کے پیچھے دوسرا نظارہ گورنمنٹ سکول کا ہے اس کو بھی دیکھ لیںکيا وجہ ہے کہ یہاں لوگ بچوں کو داخل نہیں کرواتے ؟یہاں وہی بچے پڑھتے ہیں جو پرائیویٹ سکولوں کی فیس برداشت نہیں کر سکتے اساتذہ کی بڑی تعداد کے ساتھ کلاس فور ملازمين کی بھی کثير تعداد موجود ہوتی ہے جن کے ذمہ کوئی خاص کام بھی نہیں ہوتا ايسا ہی ايک سکول بھکھی شريف ہائر سيکنڈری سکول ہے سيکنڈری حصے میں اساتذہ کی تعداد پندرہ کے قريب ہے جن کے پاس پڑھنے والے بچوں کی تعداد بارہ تھی

جنھوں نے ايف اے کے امتحانات دئیے ان میں سے ايک طالبعلم پاس اور گيارہ فيل ہو گئے ملکی حالات اور یہ تعليمی نظام-کس طرح لوٹا جا رہا ہے اس ملک کو گورنمنٹ سکولوں ییں تعينات اساتذہ کی یہی کارکردگی توطالبعلموں کو پرائيویٹ سکولوں کی طرف متوجہ کرتی ہے- ليکن وہاں بھی یہ کاروبار خاطر خواہ فائدہ نہیں دے رہا کيوں توجہ نہیں کی جا رہی تعليمی نظام پر کہ جس سے نسلیں سنوریں گی

ايک جيسا تعلیمی نظام تو خواب ہی نظر آتا ہے –ليکن دونوں رخ پر موجود پرائيویٹ اورگورنمنٹ سکولوں کے معيار کو بڑھانے کے اقدامات کئے جا سکتے ہیںپہلے وقتوں میں محنتی استاد گورنمنٹ سکولوں کے بچوں کوچند بنيادی مضامين پڑھا کر تختياں لکھوا کر پہاڑے رٹوا کر کسی بھی اچھی ملازمت کے قابل بنا ديتے تھے آج بڑے عہدوں پر نااہل لوگ اسی نظام کی پيدا وار ہیں تو بتایے ملک کيسے ترقی کرے گا؟

تحریر : وقار انساء