counter easy hit

کراچی پر داعش کے کنٹرول کیلیے کالعدم تنظیموں کی طاقت آزمائی

کراچی: سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہارالحسن حملہ کیس میں عوام کے تشدد سے حملہ آور کی ہلاکت کی وجہ سے انصارالشریعہ پاکستان تنظیم کے نام سے بنائے جانے والا خود ساختہ ٹارگٹ کلنگ گروپ اپنے انجام کو پہنچ گیا.

Control of ISIS on Karachi tests of banned organizations

Control of ISIS on Karachi tests of banned organizations

کالعدم تنظیموں کے مابین ہونے والے اختلافات نے شہر میں بدامنی پھیلائی ہوئی ہے، کالعدم تنظیمیں شہر میں دہشت گردی کر کے ایک دوسرے کو اپنی طاقت کا احساس دلاتی ہیں تودوسری جانب کالعدم تنظیم داعش میں ذیلی ونگ حاصل کرنے کے لیے کوششیں کررہی ہیں تاکہ کروڑوں روپے فنڈ حاصل کیا جا سکے۔زیرحراست دہشت گردوں کے اہل خانہ اور دوستوں کے مبینہ طورپر ابتدائی بیانات میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔ ملیر ڈسٹرکٹ پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایاکہ روفی روز پیٹل، اسکیم 33 میں مقابلے کے دوران پولیس اہلکار اعجاز کو شہید اور خالد محمود کو زخمی کرکے فرار ہونے والے تنظیم الانصار الشریعہ کے اہم رکن عبدالکریم سروش کے والد سجاد صدیقی نے ابتدائی بیان ریکارڈکرادیاہے کہ انھیں ایک سال قبل معلوم ہوا کہ سروش نے اسلحہ رکھنا شروع کردیا ہے پوچھنے پر تسلی بخش جواب نہیں دے سکا لیکن چند ماہ سے اس کی حرکات مشکوک تھیں اور وہ پریشان اور گم سم رہتا تھا، اس کے دوست بھی شکل و صورت سے جرائم پیشہ نہیں لگتے تھے۔

جس کی وجہ سے مجھے تھوڑا اطمینان بھی تھا، پیر کی صبح جب پولیس نے صبح کے وقت گھر پر چھاپہ مارا تو سروش نے پولیس کو دیکھ کر اسلحہ نکال لیا اور فائرنگ کرنے کے لیے تیار تھا میں نے کافی منع کیا لیکن اس نے میری ایک نہ مانی اور پولیس پر اندھا دھند فائرنگ کردی اور فرار ہوگیا، اس دن ہی میرے سامنے سروش کی اصل حقیقت سامنے آئی اور حیرت بھی ہوئی کہ وہ دہشت گرد تنظیم کا رکن کیسے بن گیا۔ ذرائع کے مطابق سجاد صدیقی کا کہنا تھاکہ سروش اکثر رات کو پڑھائی کے نام پر گھر سے غائب رہتا تھا اور وہ پاکستان ٹور کے نام پر 2 سال قبل وہ کچھ ماہ کے لیے کراچی سے باہر گیا تھا۔ دوسری جانب خیابان اتحاد سے حراست میں لیے جانے والے تنظیم الانصار الشریعہ کے مبینہ سربراہ شہریار عرف ڈاکٹر عبداﷲ ہاشمی نے سنسنی خیز انکشافات کیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پولیس اور فورسز پر حملوں اور شہر میں بدامنی پھیلانے کے لیے 2015 کے آخر میں کراچی یونیورسٹی، این ای ڈی اورداؤد یونیورسٹی کے10سے15اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکوں پر مشتمل تنظیم انصار الشریعہ گروپ تشکیل دیا گیا تھا، گروپ کے 2 لیڈر بتائے جاتے ہیں۔

ذرائع نے بتایاکہ اس گروپ نے کالعدم القاعدہ سے رابطہ کرنے کے لیے افغانستان میں اپنے ایک پرانے ساتھی عبداﷲ بلوچ سے رابطہ کیا تھا جس پر عبداﷲ بلوچ نے انھیں کہا کہ وہ کوئی بڑا کام کرکے دکھائیں، جس پر گروپ نے اپنے آپ کو منوانے کے لیے کراچی میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ شروع کردی۔ عبداﷲ بلوچ کے بارے میں بتایاجاتا ہے کہ وہ2012 میں کراچی کے علاقے منگھوپیر میں رہائش پذیر تھا اور2012 میں طارق روڈ پر چھاپے میں عبداﷲ کے ٹھکانے سے اسلحہ اوربارود بھی ملا تھا جس کے بعدوہ افغانستان فرار ہو گیا تھا۔ ذرائع کا کہناتھاکہ عبداﷲ بلوچ القاعدہ، داعش، کالعدم لشکر جھنگوی، کالعدم تحریک طالبان پاکستان، حقانی نیٹ ورک و دیگر جہادی تنظیموں کے ذمے داروں سے رابطوں کے لیے اہم رابطہ کار سمجھا جاتاہے۔

شہریار عرف عبداﷲ ہاشمی نے مزید انکشافات میں بتایاکہ عوام کے تشدد سے مارے جانے والا حسان، مفرورعبدالکریم سروش، طلحہ، مزمل اور دیگر نے افغانستان کے علاقے شراوک میں عسکری تربیت حاصل کی تھی۔ ذرائع نے بتایاکہ عوام کے تشدد ہلاک ملزم حسان عرف ولید الیکٹرونک انجینئر تھا اور این ای ڈی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہا تھا، وہ داؤد یونیورسٹی میں الیکٹرونک سائنس کا ٹیچر تھا، 45 ہزارتنخواہ تھی، اس کی والدہ ڈاکٹراور والد پروفیسر ہیں، واضح رہے کہ اس قبل داعش کا ذیلی ونگ حاصل کرنے کے لیے سانحہ صفورا کے ملزمان نے کوشش کی تھی جو قانون نافذکرنے والوں کی انتھک محنت سے گرفتار کرلیے گئے ، سانحہ صفورا میں ملوث گروپ بھی چند افراد پر مشتمل تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ2 روز قبل گلزار ہجری کنیز فاطمہ سوسائٹی سے حراست میں لیے جانے والے سروش کے ایک قریبی دوست دانش رشید نے بھی تفتیش کے دوران اہم انکشافات کیے ہیں، دانش رشید کراچی یونیورسٹی کے سابق ڈین پروفیسر رشید کا بیٹا ہے جو چند روز قبل ہی انگلینڈ سے آیا تھا لیکن پروفیسر رشیدکے زیرحراست ہونے کی تصدیق نہیں ہوسکی۔