counter easy hit

نظام عدل پر مسلسل دستک

مہذب معاشروں میں فراہمی انصاف ریاست کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ فوجداری مقدمات میں ریاست بذریعہ سرکار خود آگے بڑھ کر مدعی بنتی ہے، اندراج مقدمہ کے بعد غیر جانبدارانہ نظام تفتیش اور خود مختار عدالتی نظام کے ذریعے شفاف ٹرائل مہیا کر کے ریاست اپنی اس اہم ذمہ داری کو سر انجام دیتی ہے۔

جرم کے سرزد ہونے کے بعد متاثرہ فریق پر کسی قسم کا مالی بوجھ ڈالے اور اسے تکلیف دیے بغیر از خود ریاستی قوانین کا حرکت میں آنا، اندراج مقدمہ سے شروع کر کے، شہادت اکٹھی کرنا، گواہان کو تحفظ دینا، جائے وقوعہ کا معائنہ کرنا، آلہ جرم برآمد کرنا، ویڈیو آڈیوز ریکارڈ محفوظ کرنا، فون کالز کا ریکارڈ اکٹھا کرنا، میڈیکو لیگل رپورٹس بنوانا، غیر جانبدار تفتیش مہیا کرنا نیز مقدمہ سے متعلقہ تمام ثبوت اکٹھے کرنا، حتیٰ کہ مفت وکیل مہیا کرنا، مقدمہ کی ابتدائی رپورٹ سے لیکر قانون کی آخری عدالت تک انصاف کی فراہمی کے لئے مختلف مراحل کو کماحقہ پورا کرنے کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کرنا ریاست کے امور کی نگرانی کرنے والی سرکار کی قانونی و آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔

صورتحال اس وقت پچیدہ ہو جاتی ہے جب کسی مقدمہ میں عوام کے حقوق کی محافظ ریاست کے نمائندے یعنی سرکار خود عوام کے خلاف جرم میں ملوث ہو، سرکار خود دھمکیاں لگانے والی اور سبق سکھانے والی ہو، متاثرہ فریق کمزور ہو اور اس کا تعلق حزب اختلاف سے ہو، تفتیش سے متعلقہ ادارے سرکار کے ملازم ہوں، ملزمان عرصہ دراز سے خود صوبہ کے سرکار ہوں، سیاہ و سفید کے مالک و سانحہ کے ذمہ دار و قاتل ہوں، ثبوت اکٹھے کرنے والے ثبوت مٹانے کے درپے ہوں، ملزمان کو سرکار کی طرف سے نوازا جا رہا ہو، انصاف کی راہ میں سرکار خود رکاوٹ ڈال رہی ہو تو اس صورتحال میں عام شہری کا سرکار سے انصاف لینا صرف مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتاہے۔ ایسے میں انصاف کے بنیادی حصول کو یقینی بنانا، عوام اور سرکار کے درمیان مقدمہ میں انصاف مہیا کرنا آئین و قانون کی سب سے بڑی محافظ عدالت کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔

عام فہم بات ہے جب تفتیش کرنے والے ادارے خود ملزم ہوں تو غیر جانبدار تفتیش کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے؟

جائے وقوعہ سے اپنے ہی خلاف شہادتیں کیونکر اکٹھی کی جائیں گی؟

سرکار خود ملزم ہو تو سرکاری لیبارٹریز سے سرکار کے خلاف رپورٹس کیسے آ پائیں گی؟

فون کالز، آڈیوز ویڈیوز و دیگر متعلقہ ریکارڈ کیسے محفوظ کیا جائے گا؟

ملزمان گرفتار نہیں ہوں گے تو آلہ جرم کیسے برآمد ہو گا؟ مقدمہ سے متعلقہ سرکاری و غیر سرکاری شہادتیں کیسے اکٹھی ہوں گی؟

جب پولیس خود لواحقین و متاثرین کے خلاف مقدمات درج کرنے لگے تو گواہان کو تحفظ کون دے گا؟

اور پھر ان سب اقدامات کے بغیر انصاف کیسے مہیا کیا جا سکے گا؟

جناب چیف جسٹس! سانحہ ماڈل ٹاون پوری قوم نے براہ راست ٹی وی سکرینوں پر دیکھا۔ متاثرین نظام عدل کے دروازے پر مسلسل دستک دے رہے ہیں، چار سال گزر گئے لیکن انصاف مہیا نہ کیا سکا۔ جناب چیف جسٹس! قانون اور عدالتوں کا وقار ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے میں ہے ورنہ عوام کی نظر میں عدالتوں کا نہ صرف وقار مجروح ہو گا بلکہ ذہنوں میں یہ بھی راسخ ہو جائے گا کہ طاقتور کمزور کو جب چاہے پوری قوم کے سامنے قتل بھی کر دے تو مملکت خدداد میں کمزور کو کبھی انصاف نہیں مل سکے گا۔v