counter easy hit

سکندر اعظم کے مورخین کا شہر سانگلہ ھل کھنڈرات۔جابجاگندگی ۔سڑکیں گندے پانی کا جوھڑ بن گئیں

سکندر اعظم کے مورخین کا شہر سانگلہ ھل کھنڈرات۔جابجاگندگی ۔سڑکیں گندے پانی کا جوھڑ بن گئیں

(کالم “اندر کی بات” اصغر۔علی مبارک”کے قلم سے) ضلع ننکانہ صاحب دنیابھر میں سکھ مذہب کے شروعات کی سرزمین تسلیم کی جاتی ھےجس سے اس ضلع کی اہمیت و افادیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مذہبی سیاحت فروغ دیکر اسے دنیا کے سب سے پرکشش بنایا جاسکتاتھا اس ضلع کی تین تحصیلوں میں سے ایک اھم تحصیل سانگلہ ہل ھےجسکی حدود پنڈی بھٹیاں سے شروع ہوکر شاہ کوٹ تک آتی ھے لاکھوں لوگوں کی دیرینہ خواہش تھی کہ سانگلہ ہل تحصیل کو ضلع شیخوپورہ کے ساتھ منسلک کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ ہر لحاظ سے مناسب اور قابل عمل ہونے کے علاوہ عوامی مشکلات میں کمی کا باعث بھی بن سکتا تھا مگر عوامی خواہشات کا احترام نہ کیا گیا۔ اور نیا ضلع ننکانہ بنا کر سانگلہ ھل کو ضلع ننکانہ صاحب میں شامل کر دیا گیا بعد ازاں یہ فیصلہ سراسر غلط ثابت ہواکوئی ترقیاتی کام نہ کروائے گئے اور مخالف سیاسی جماعتوں کو نیچا دکھانے کی پالیسی خود نون لیگ کو لے ڈوبی۔اس علاقے کے ممبرقومی اسمبلی چوہدری برجیس طاہر اور ممبر پنجاب اسمبلی محمد طارق باجوہ منتخب ھوتے رھے ھیں

city, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarak

سابق دور حکومت میں میاں نواز شریف نے موٹر وے سانگلہ انٹرچینج کے افتتاح پر علاقے کی قسمت بدلنےکی نوید سنائی تھی کجھ اس قسم کے خیالات کا اظہار چھوٹے میاں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب نے قائداعظم پارک سانگلہ ھل کے باضابطہ افتتاح پر مورخہ20مارچ2012 کو بھی کیاتھا جبکہ 2مارچ 2016 کوسانگلہ ھل شہر کے تاریخی سانگلہ ہل/قائداعظم پارک سانگلہ فیز ون کے افتتاح پر وفاقی وزیر برائے امورکشمیر و بلتستان نے بھی بھڑک ماری تھی کہ سانگلہ کی قسمت بدل دیں گے مگر ماضی کی یہ دعوٰی بھی دیوانے کی بھڑ ثابت ہوا اور سیاسی پسند و ناپسند کی بنا پر اس شہر کو قرون وسطٰی میں دھکیل دیا سانگلہ شہر کی تعمیر و ترقی میں حصہ نہیں لیاگیا اس کے باوجود علاقے کے لوگوں نے ایک بار پھر آزمانے کے لیے چوہدری برجیس طاہر کو منتخب کروا کر علاقے کی ترقی کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے مگر کروڑوں کے ترقیاتی بجٹ ھونے کے باوجود ایسا ممکن نہیں ہو سکا راقم الحروف کو سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ سانگلہ ھل موٹر وے انٹرچینج ٹول پلازہ کے افتتاح پر کوریج کا موقع ملاتھا

city, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarak

اسے آپ حسن اتفاق ہی کہہ سکتے ھیں کہ جب پہلی مرتبہ پاکستان میں موٹر وے کاافتتاح ھوا تو اولین افتتاحی سفر میں میرے والد محترم ڈاکٹر مبارک علی بھی ان چند معززین شہر میں شامل تھے جنہوں نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ھمراہ موٹروے کاسفر ایک ھی بس میں کیا اور اس وقت بھی اشارہ دے دیا گیا تھا کہ فصیل آباد کےلئےموٹروےبناکر قریب کے شہروں کو پاکستان کے مانچسٹر سے جوڑ دیا جائےگا۔ اسلام آباد لاہور موٹروے کے افتتاح پر اولین سفر میں شامل سابق وزیر اعظم کے ھمراہ ٹیم کے لوگ بخوبی واقف ہیں کہ موٹروےویز کے اس مقصد کو سابق حکمران بھول گئے

city, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarakcity, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarak

جس سے پاکستان نے اقتصادی ترقی کرناتھی اور جو سی پیک منصوبے کا بنیادی مرکزی خیال بھی ھے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کی مقبولیت کا گراف پنجاب میں ھمیشہ ذیادہ رہا مگر تھانہ کچہریوں کی سیاست نے پنجاب میں ن لیگ کو بے حد نقصان پہنچایا۔ عوامی مسائل حل کرنے میں مسلم لیگ کے راہنما پنجاب بھر میں بری طرح ناکام رہے ۔عوام ھمیشہ سے ایسے لیڈر کو پسند کرتے ہیں جو انکے دلوں کی امنگ اور دھڑکن بنے اور یہ کوالٹی سابق وزرائےاعظم شہید جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید میں موجود تھی ان تحریروں میں پہلے بھی تذکرہ کر چکا ہوں کہ جمہوریت عوامی خدمات کا نام ھے جس میں عوامی مسائل حل کیے جاتے ہیں جمہوریت میں جمہوری حکومت عوام کیلئے عوام کےذریعے ھوتی ھے۔موجودہ حکومت کےسربراہ وزیراعظم جناب عمران خان نے جب تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو ان کے ساتھ راقم الحروف نے بطور اعزازی میڈیا ایڈوائزر کی خدمات سر انجام دیں ۔ قومی انتخابات 2008 میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر راولپنڈی کےچھاونی کے حلقہ سے عام انتخابات میں حصہ لے کر جمہوریت کو مضبوط کیا جب موجودہ وزیراعظم عمران خان نے بھی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کی طرف سے دباو الیکشن کا بائیکاٹ کیا تاہم راقم الحروف پاکستان کی صحافتی تاریخ میں بطور صحافی روزنامہ جنگ راولپنڈی سے عام انتخابات لڑنے والے پہلے شخصیت کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔قریب قریب قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان کی بیٹ کرتے ھوئےتین عشرے گزر چکے ہیں جبکہ عام انتخابات میں چھ مرتبہ شرکت کرکے عوام سے براہ راست رابطہ کر نے کا عملی مشاہدہ و تجربہ حاصل کیا ھے کہ عوام اس پارٹی اور لیڈر شپ کو پسند کرتی ہے جو عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہو۔موجودہ وزیراعظم عمران خان کی کوالٹی ھےکہ عوام کی خدمت کی بات کرتے ہیں۔عمران خان مقبولیت کے اس گراف کو چھونے کے قریب ھیں جو ایک عوامی لیڈر کا خاصہ ھوا کرتی ھے۔

city, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarak

 

عمران خان کی سیاست میں ایک بات اھم ھے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرنے والے راہنماؤں کو بھی پسند کرتے ہیں اور اصولوں پر کبھی سودے بازی نہیں کی ۔ان کی اس کوالٹی کونقصان پہچانے کے لئےمختلف سیاسی جماعتوں کی اکٹھ بھی عمران خان کی محبت کو بھی دلوں سے نہیں نکال سکی بلکہ اب عوام علاقہ سانگلہ بھی بڑی تبدیلی کی ضرورت محسوس کررہے ہیں خوش قسمتی سے راقم الحروف چند روز قبل ہی سانگلہ شہر میں شادی کے بندھن میں بند چکااور دوست احباب نے سن ان لا آف سانگلہ کے نام سے پکارتے اور ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہیں کہ عوام کے مسائل حل کرنے کا سلسلہ جاری و ساری رہنا چاہیے اس حوالے سے ایک طویل شکایت بھرا خط جناب وزیراعظم عمران خان کوسیٹزن پورٹل پاکستان پر کوڈنمبر پی یو 1508-194130132 کے ذریعے ارسال کر چکا ہوں تاکہ عوام تک حقیقی تبدیلی کے ثمرات منتقل ھو سکیں۔قبل ازیں ماڈل ٹاؤن سانگلہ ھل کی عثمان سٹریٹ میں طویل عرصے سے متنازعہ پلاٹ پر گندگی و غلاظت سے پیدا ھونے والی عوام علاقہ کی اجتماعی مسائل کو حکمران بالا کے نوٹس میں لا چکا ہوں اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ وزیر اعظم ھاوس سے ڈی سی ننکانہ کو مسئلہ حل کرنے کی ھدایت قانون کی روشنی میں دے دی گئی ھے

city, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarakcity, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarak

جس سے انشاءاللہ بفضل خدا بہتری کی امید ہے۔سانگلہ ھل پاکستان کے چند نامور شہروں میں شامل ھے جس کی تاریخی اہمیت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔یہ بات کہی جائے تو غلط نہ ہوگی کہ کئی تہذیبوں کا مسکن سانگلہ ھل ھمیشہ سے دفاعی اور اقتصادی اعتبار سے ھر دور میں نمایاں مقام رکھتا تھا سانگلہ ھل کو سکندر اعظم کے مورخین کی سرزمین سے منسوب کیاجاتاھے اور یہ شہر عدم توجہ کی وجہ سے کھنڈرات میں تبدیل ہو رھا لوگ مریخ پر بسنے کا سوچ رہے ہیں اور ترقی کے اس دور سفر کے لیے پختہ سڑک بھی دستیاب نہیں۔ ھماری ھمیشہ سے کوشش رھی موٹروے کے راستے سانگلہ ٹول پلازہ سے براستہ بھیراوالا روڈ سے سانگلہ کا سفر کیا جائےمگر پنڈوریاں سے گزرنے والی سڑک کی حالت ناگفتہ بہ ھےعلاوہ ازیں شاہراہ عام پر پولیس چوکی پنڈوریاں کی ناک کے نیچے ڈکیتیوں کی وارداتیں پولیس کی روایتی بے حسی کا ثبوت ہیں اب لوگ پولیس چوکی پر جانے سے بھی گریزاں نظر آتے ہیں کہ کوئی شنوائی نہ ھوگی جو لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔تحریک پاکستان میں اس علاقے کے لوگوں نے کلیدی کردار ادا کیا اور جان و مال کی قربانیاں دیں۔ چند سال قبل سانگلہ ھل کو فیصل آباد موٹر وے سے لنک کر دیا گیا اور بھیرا والا روڈ سے بذریعہ پنڈوریاں اسکو منسلک کردیا گیا مگر علاقے میں روڈ کی خستہ حالی سے زمانہ قدیم کا منظر پیش کر رہے ہیں تھانہ سانگلہ ھل صدر کی طرف سے جاتے ہوئے بھیرا والا روڈ سڑک کم اور گندگے پانی کا جوھڑ زیادہ لگتی ہے جس سے گاڑی میں سوار ھوکر گزرنا بھی مشکل ھے اور آئے روز حادثات معمول بن چکے ہیں اس لیے ٹرانسپورٹ مافیا کی من مانیاں عروج پر ھیں۔ ٹھیک ایک ماہ قبل راقم الحروف کو اپنی شادی خانہ آبادی کے مبارک موقع پرالنور میرج ہال بھیرا والا سانگلہ ھل میں کچھ وقت گزارنے کااتفاق ھوا جہاں معززیں علاقہ سے ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو ھوئی جند باراتیوں کو جوھڑ نما روڈ سے گزارنے کا مشورہ مہنگا پڑگیا حالانکہ بارشوں کا موسم بھی نہیں تھا پھر بھی سڑک پانی کے تالاب کامنظر پیش کر رھی تھی جا بجا گندگی کے ڈھیر انتظامیہ کی بے حسی کا ثبوت تھے۔بتایا گیا کہ گندے پانی کی وجہ سے لوگ ناک کان گلے۔

city, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarakcity, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarakcity, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarak

پیٹ۔جگر۔سانس۔پھیپھڑوں۔گردوں۔آشوب چشم۔قے اسہال اور دیگر جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہو کر سسک سسک کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ۔سانگلہ ھل کے لوگ بڑے ملنسار۔خوش گفتار۔خوش اخلاق۔خوش لباس ۔خوش خوراک ہنس مکھ اور زندہ دل مشہور ہیں لیکن ہر چہرے پر دکھ۔ مسائل ۔بیماریوں اور تکالیف کا کرب محسوس کیا جا سکتا ہے جو ان کو بھوک افلاس۔ بےروزگاری صحت و تندرستی کی ناکافی سہولیات۔پینے کےصاف پانی کی عدم دستیابی۔صفائی کے ناقصانتظامات اور دیگر مسائل کی صورت میں نسل در نسل منتقل کرنا پڑرہی ھےاور ان مسائل میں روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہےاسکے باوجود لوگ زندگی اس آس پر گزاررھے ھیں کہ تبدیلی ضرور آئےگی اور خوشحالی ضرور انکا دروازہ کھٹکھٹائےگی۔یہ سچ ہے کہ امید پر دنیا قائم ھے اور سانگلہ کی عوام اس امید پر زندگی بسر کررہے ہیں کہ آنے والا وقت تبدیلی اور خوشحاخوشحالی کا ھوگا بات خوشحالی کی ھو رھیھے تو سانگلہ ھل ریلوے اسٹیشن جنکشن ھے جس مختلف شہروں کو گاڑیاں جاتی ہیں انگریز دور حکومت میں قائم ھونے والا ریلوے اسٹیشن بھوت بنگلہ میں تبدیل ھو چکاہے ریلوےاسٹیشن کوئی انتظارگاہ نہیں فیصل آباد راولپنڈی آنے جانے والے مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سفر کرنا پڑتاھے شدیدگرمی میں ترقی یافتہ دور 72 سال بعد بھی ریلوے ٹرین پاکستان ایکسپریس میں ایک بوگی بھی ائیرکنڈیشن نہیں ھوتیھے محترم وزیر ریلوے شیخ رشید احمد صرف ایک سفر پاکستان ایکسپریس کا راولپنڈی تا فیصل آباد کرلیں ان کو محکمہ ریلوے کی کارکردگی نظر آجائےگی۔پراڈو لینڈ کروزر گاڑیوں میں سوار ہو سفر کرنے والوں کو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کو عوامی مسائل کا اندازہ نہیں ھو سکتاقبضہ مافیا کو کروڑوں کی ریلوے اراضی کوڑوں کے بھاو دی جا رہی ھے ۔ریلوےاسٹیشن سانگلہ ھل کے 2 پھاٹک ابھی ٹرین فیصل آباد چلتی نہیں سانگلہ کے پھاٹک حفاظت کے نام پر گھنٹوں بند کر عوام کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جاتاھےسانگلہ ریلوے اسٹیشن کے اطراف میں پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں قبضہ مافیا کی ھٹ دھڑمی دیکھنے کو ملی ریلوے اسٹیشن سانگلہ ھل کی زبوں حالی وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد کی ریلوے کے ساتھ والہانہ محبت کی ایک جھلک قرار دی جاسکتی ھے فیصل آباد سے آنے والی گاڑی چھ سے آٹھ گھنٹے ھر روز تاخیر کا شکار ہو جاتی ھےجس کی وجہ عوام ریل کے سفربجائےبسوں ویگنوں میں خوار بوتے نظر آتے ھیں جو راولپنڈی سے کرایہ آٹھ سو روپے تو وصول کر رہے ہیں لیکن مسافروں کو پانی تک پینے کی سہولت فراہم نہیں کرتےمحکمہ صحت کی طرح محکمہ ٹرانسپورٹ ایکسایز و ٹیکسیشن گاریوں کو فزیکل چیک کرنے کے بغیر ھی فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے پہلے عوام کی زندگیوں کا خیال رکھنا ھوگا بات سرٹیفکیٹ کی ھو رہی ھےتو بتاتے چلیں کہ اندراج نکاح شادی سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کےلیےمیونسپل کمیٹی سانگلہ ھل کے دفاتر کے درجنوں چکر لگانے کے بعد بھی عوام کو آئندہ روز کا کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ھے گزشتہ کئی روز سے شادی سرٹیفیکیٹ کے حصول کیلئے میونسپل کمیٹی کے دفتر کے چکر لگانے پر بتایا گیا کہ ننکانہ سے فارم نہیں ملے جب اس مسئلے کو لیکر نادرا آفس سانگلہ کے مینجر سے رابطہ کیا تو بتایا گیا کہ فارم آفس میونسپل کمیٹی سانگلہ پہلے ہی بھجوائے جاچکے ھیں۔عوام دو دفاتر کی باہمی ناقص رابطہ کے باعث شٹل کاک بن چکے ہیں جس بالخصوص خواتین کو شدید زھنی کوفت کاسامنا کرنا پڑتاھے۔ذہنی کوفت کا سامنا توعوام کو اس کےشہر کے ھر چوک اور سڑک پر بھی کرنا پڑتا ھے جو گھنٹوں ٹریفک میں پھنس کر حکمران کو کوسنے دیتے نظر آتے ہیں اس سال عید قربان اور جشن آزادی کی خوشیاں ساتھ ساتھ منائی گئی ہیں اس تاریخی موقع کو یادگار بنانے کے لیے میری نور نظر نے بذریعہ ٹرین پاکستان ایکسپریس جانے کا پلان بنایااور یوم آزادی کے روز کی سیٹ بھی کنفرم کروا لی مگر واپسی پر سانگلہ سے بتایا گیا کہ سیٹ کنفرم نہیں ھوگی بلکہ اضافی رقم فیصل آباد سے شمار ھوگی جس پروگرام ملتوی کر کے بذریعہ روڈ سانگلہ ھل جانےکا فیصلہ کیا گیاجو سودمند ثابت نہ ھوا۔حسب معمول اس بار بھی وڑائچ برادرز کی کوچ سکھیکی انٹرچینج کے قریب اےسی وائرنگ کے شارٹ سرکٹ کے باعث ایک بڑے حادثہ کا شکار ھونے سے بال بال بچ گئی جو کہ ڈرائیور الفت حسین کی حاضر دماغی کا نتیجہ تھا کہ ویگن کی شارٹ سرکٹ سے لگنے والی آتشزدگی پر اپنی مدد آپ کے تحت قابو پایا گیا اور موٹروے پر ایک بڑا حادثہ ھوتے ھوتےرہ گیا اور ویگن ایک بڑے حادثے کا شکار ہو جانے سے بچ گئی تاھم مساوں شدید ذہنی کرب سے گزرنا پڑا موٹروے پر ٹول پلازہ کے عملہ کی بدولت خواتین مسافروں کو تحفظ کااحساس رھا تاہم یہ واقعہ بھی ایک سوال چھوڑ گیا کہ ھمارے ذمہ داراں کب تک چشم پوشی کرتے ہوئے ناکارہ اور کھٹارا گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کر کے مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔گو کہ ننکانہ صاحب کو ضلع کادرجہ حاصل ھو چکا ھے مگر انتظامیہ متحرک اور فعال نہیں۔ ضلع ننکانہ کی نئی حد بندی سے عوام کو انتظامی، سیاسی، مواصلاتی اور عدالتی نظام کے ثمرات تاحال دستیاب نہیں ہو سکے جسکی تمنا کی جارہی تھی تاکہ عوام کو خاطر خواہ سہولتیں میسر آ سکیں۔سیاسی و دینی جماعتوں کی قیادت کے نزدیک سانگلہ ھل کی عوام صرف احتجاجی سیاسی مظاہروں کیلئے محدود ھو کر رہ گئی ھے باشعور عوام کو ریلیف کیلئے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔میرے ایک دیرینہ صحافی دوست بہزاد سلیمی کا تعلق بھی اسی علاقے سے ھے جو پارلیمانی رپورٹرزایسوسی ایشن کے صدر بھی ھیں جو ھمیشہ اس علاقے کا گن گاتے ہیں مگر شائد امریکہ یاترا کے بعد اس علاقے کو بھول گئے ہیں اکثر اوقات سانگلہ میں اتحاد پریس کلب کے دورے کی تصاویر سوشل میڈیا کی زینت بنی نظر آتی ہیں راقم الحروف کے ان لاز کا گھر بھی اتفاق سے اتحاد پریس کلب کے قریب ہی واقع مگر تاحال صدر سانگلہ پریس کلب سے بالمشافہ ملاقات حسرت ہی رھی کیونکہ جناب ملک صاحب اکثر اوقات پیشہ ورانہ امور کی ادائیگی کے لیے شہر سے باہر گئے ہوئےملے اس حقیقت سے انکارنہیں کہ مقامی میڈیا نے کم وسائل کے باوجود عوامی مسائل اجاگر کرنے میں نمایاں فریضہ سرانجام دیا اور عوام علاقہ کےمسائل کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا جو لائق تحسین اقدام ہےتاہم عوام کے دیرینہ مطالبات کو اجاگر کرتے رھنا ہی صحافت جیسے پیغمبرانہ مقدس پیشہ کی معراج ھے۔تاریخ سانگلہ ھل کے بارے میں قائد اعظم پارک سانگلہ ھل کے بارے ایک فولادی سلیٹ پر تحریر میں بتایا گیا ہے کہ سی جے راجرز رپورٹ پنجابڈسٹرکٹ گریٹر 1896۔کے مطابق سکندر اعظم کے مورخین کے شہر سانگلہ۔برھمنوں کے سکالہ اور بدمت کے ساگل کی بنیادی وجہ شہرت وہ پتھریلی پہاڑی مشہور ھےجوکہ 1896 سے سانگلہ والا ٹبہ نام سے بھی منسوب ھے اسکی اونچائی شمالی جانب سے 215 فٹ تھی واضح رھےکہ سکالہ کی برھمنی سرگزشت کی بنیاد مہابھارت ھے بدھ مت کے پیروکاروں کے مطابق سکالہ کا تاریخی تعلق بدھ مت سے ھے ایک روایت کے مطابق جب سات بادشاہ ملکہ بھاوتی جوکہ بادشاہ کسا کی بیوی تھی اسکو اٹھا لے جانے کیلئے شہر ساگل روانہ ہو تو بادشاہ کسا ھاتھی پر سوار شہر کی جانب نمودار ھوا اور بلند آواز میں پکارا کہ میں بادشاہ کسا ھوں یہ آواز اتنی بلند تھی کہ سب نے ھر جگہ سنی اور سات کے سات بادشاہ خوفزدہ ہو کر بھاگ گئےسانگلہ کے متعلق اور کوئی روایت نہیں ملتی جب ھہوین تھانسانگ نے اس علاقےکا سفر کیا اس مے سکھیکی کے کے قریبی قصبہ کے بارے میں تحریر کیا جوکہ اس وقت کی ایک سلطنت کا دارالحکومت تھا اور یہ حکومت سندھ سےلے کے بیاس تک اور پہاڑوں کے نیچے سے لیکر پانچ دریائوں تک پھیلی ہوئی تھی۔عظیم فاتح سکندر اعظم کے مورخین آریانز  اور کورئیس  کے مطابق جب سکندر اعظم کو اس بات کا علم ھوا کہ سانگلہ ھل کے رہائشی اسکےخلاف ھیں تو سکندر اعظم نے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا اور ھند گنگا کی جانب پیش قدمی کا فیصلہ ترک کرکے شہر سانگلہ کی جانب اپنی فوج کا رخ موڑ دیا۔سکندر اعظم نے دریائے راوی دوبارہ عبور کیا اورعوام کو ان کی جراتمندانہ فیصلے پر سبق سیکھانے کا فیصلہ کیااس وقت شہر سانگلہ ھل کے گرد دفاعی دیوار فیصل اور ایک جھیل موجود تھی جوکہ شہرکی حفاظت کا باعث بنی مورخین کے مطابق شہر سانگلہ قدرتی اور انسانی حصاروں کی بدولت مستحکم رھا تھاسکندر اعظم کی یونانی فوج نے شہرکے حفاظتی حصار کے دو حصوں کو گرا کر شہریوں کو شہر کے اندر دھکیل دیااور بعد میں تیسرے حصار کو ختم کر کے سانگلہ شہر میں داخل ہو گئی۔بعد ازاں ایک خونریز مقابلہ ھوا اورشہر سانگلہ کے باشندوں نے عزت ۔فخر اور ناموس کو بلند رکھنےکیلئےبےدریغ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ھمیشہ کیلئے اپنا نام تاریخ میں درج کروالیا اس شہر کے مسائل حل کرکے اس کو دنیا میں ایک بہتر مثال کے طور پر پیش کرکے پاکستان کے سافٹ امیج میں اضافہ کر سکتے ہیں۔۔

city, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarakcity, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarakcity, of, historians, Sangla Hill, turned, to, ruins, column, by, Asghar Ali Mubarak