
پڑھنا لکھنا، تعلیم یافتہ ہونا بلوغت سے بھی آگے کی بات ہو چکی۔ تعلیم یافتہ مائیں ہی ان نسلوں کی پرورش کر سکتی ہیں جنہوں نے اس گلوبل ویلیج میں سروائیول آف دی فٹسٹ کے قانون کی روشنی میں زندہ رہنا ہے۔ زندگی آج ہی اتنی مہنگی اور مشکل ہو گئی ہے کہ اک معقول آمدنی والا شخص بھی تن تنہا کنبے کی کفالت کو مشکل تر ہوتے دیکھ رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ’’حیات‘‘ کے لئے ہر دو ’’شریک حیات‘‘ کو اک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہوگا۔ عورت کو جنیڈر سے ماورا اک انسان کی حیثیت سے باہنر، باعلم اور مضبوط بنانا صرف ترقی کا مسئلہ ہی نہیں رہ گیا… ’’سروائیول‘‘ کی بات ہے۔ عمومی اقتصادی دبائو سے لے کر کسی بھی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لئے علم و ہنر سے آراستہ بلکہ ’’مسلح‘‘ ہوئے بغیر آسودہ زندگی کا تصور بھی ناممکن سمجھو۔آدھی بلکہ آدھی سے بھی کچھ زیادہ آبادی کو بیک جنبش جہالت عضو معطل بناکر کسی معاشرہ کا مقابلہ کی دوڑ میں باعزت رہنے کا تصور کم از کم میرے لئے بہت محال ہے اور شاید ایسے ہی حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے علی شریعتی نے کہا تھا”اصولوں کا بدلنا ضرورتوں کے بدلنے کے ساتھ اور اصولوں کا نہ بدلنا ضرورتوں کے نہ بدلنے کے ساتھ”اس عہد کی ضرورت ہے عورت کو عورت کے ساتھ ساتھ ہی انسان بھی سمجھا جائے اور بطور انسان اسے مضبوط کیا جائے لیکن ہم نے تو مردوں کو بھی انسان نہیں سمجھا ورنہ شرح خواندگی اتنی شرمناک اور تعلیم کا معیار اتنا گرا ہوا نہ ہوتا۔ معاشرت سے لے کر معیشت تک جس زبوں حالی کا سامنا ہے، کبھی نہ ہوتا اگر انسان سازی پر توجہ دی جاتی۔ ہر تعلیم اور تربیت یافتہ انسان ’’سونے کی کان‘‘ اور ’’تیل کا چشمہ‘‘ ہوتا ہے تو دوسری طرف علم مومن ہی نہیں مومنہ کی بھی گمشدہ میراث ہے اور بات صرف بچیوں تک ہی محدود نہیں…. لڑکوں کو بھی بالغ ہوتے ہی بیاہ دیا جائے تو یہ کون سی توپیں چلالیں گے… لمبی بحث ہے جو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ اللہ ہمارے کرتوں دھرتوں کو مثبت اور بہتر فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے لیکن اتنا ضرور یاد رہے کہ کسی بھی مسئلہ پر اختلاف انسان ہونے کا ثبوت اور زندگی کی علامت ہے ورنہ اشیاء اور مردے ہمیشہ متفق پائے جاتے ہیں۔رہ گیا بھانت بھانت کی اشیاء کا پی ٹی آئی میں جمع ہو کر اس پر قبضہ کر لینا تو ہماری تاریخ ہی کچھ ایسی ہے۔ ہم جمہوریت کی آڑ میں دراصل جوا کھیلتے ہیں۔ ہم سیاسی تاش کو پھینکتے نہیں صرف پھینٹتے ہیں جس کے بعد کوئی جیتے، ہارنا عوام نے ہی ہوتا ہے البتہ جوا خانوں کے نام مختلف ہوتے ہیں مثلاً پی پی پی، ن لیگ، پی ٹی آئی…. اور مخصوص جواری بلکہ شارپنگ ایکسپرٹس مختلف جوا خانوں میں بازیاں جیتتے رہتے ہیں…. عوام ہارتے رہتے ہیں۔








