counter easy hit

خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کا موسم

Mirza Galib

Mirza Galib

تحریر: ایم سرور صدیقی

غالب نے نہ جانے کیوں ہر موقعہ یا مناسبت کے مطابق کوئی نہ کوئی شعر ضرور کہا ہے شاید وہ ہمارے حالات سے واقف ہوں گے اسی لئے انہوںنے کہا تھا
ہر اک بات پہ کہتے ہو تو کیاہے؟
تم ہی کہو ۔۔یہ انداز ِ گفتگو کیاہے؟

چند سال پہلے پاکستان میں سیاہ و سفیدکے مالک ۔۔ طاقت کے نشے میں چور مخالفین کو مکے دکھا اور لہرا کر ان کا ناقطہ بند کرنے والا بر ملا کہتا پھرتا تھا ۔۔میں کسی سے ڈرتا وڑتا نہیں ہوں ۔۔اس کے ایک اشارہ ٔ ابرو پر ایک منتخب وزیراعظم کو جلاوطن کردیا گیا تو کسی نے چوں چراں تک نہ کی اس وقت ڈکٹیٹر کے حامی اسے دس دس بار باوردی صدر منتخب کروانے کا دعویٰ کرتے رہے

خود موصوف وردی کو اپنی کھال قراردیتیر ہے اور طاقت کے زعم میں انہوںنے کبھی لال مسجد کو خون سے رنگین کروایا تو کبھی ملک میں ایمرجنسی لگا کر عوام کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کرڈالا۔۔کبھی اکبر بگٹی کو منظرسے ہٹانے کیلئے بلوچستان میںبلا دریغ طاقت استعمال کی ۔۔کبھی معرکہ ٔ کارگل بپا کرکے دنیا کو حیران اور پاکستانیوں کو پریشان کر دیا

یہ دستور ِ زباں بندی، ظالم تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری کے ماحول میں جب پرویزی آمریت نے عدلیہ کو فتح کرنا چاہا تو اس نے پہلی بار منہ کی کھائی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ”انکار ”نے حالات ہی نہیں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔۔خداکی شان دیکھئے جب موجودہ حکومت نے پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کااعلان کیا اس وقت سارا زمانہ اس بات کو مذاق سمجھتا رہا شیدا۔۔ میدے کو میدا ساری خلقت کو کہتا پھرتا رہا یار!پاکستان میں بھی کبھی ایسا ہوا ہے؟ مشرف پر مقدمہ ۔۔۔ یہ میاں نواز شریف اور اس کے ساتھیوں کی مت تو نہیں ماری گئی لیکن جوں جوں وقت گذرتا جارہا ہے پہلے لوگ اشاروں کناتوں۔۔ پھر باتیں بنا کر اور اب بحث مباحثہ کرکے کہہ رہے ہیں کہ جب سب کا احتساب ہو سکتاہے

ایک آمر ِ مطلق کا کیوں نہیں؟ ۔۔ افتخار چوہدری کے ”انکار ”کے بعد حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا اوپر سے تیز زفتار میڈیا نے عام آدمی کو بھی سیاسی نابالغ سے” اینکر پرسن” بنا ڈالا ہے۔۔۔ میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ ہمارے ملک کے حالات مزید تیزی سے چینج ہوں گے اور جن لوگوں کو مقدس گائے کا درجہ حاصل تھا اب کٹہرے میں کھڑا ہونا ان کا مقدر بن چکاہے

سیاسی مبصرین نے تو کئی سال پہلے دعویٰ کر دیا تھا کہ جمہوریت کا تسلسل برقرار رہا تو پرویز مشرف ۔۔پاکستان کا آخری ڈکٹیٹر ثابت ہوگا اللہ کرکے ہماری یہ خوش فہمی حقیقت بن جائے ۔۔بہرحال بات ہورہی تھی اس شخص کی جوطاقت کے نشے میں چور مخالفین کو مکے دکھا اور لہرا کر ان کا ناقطہ بند کرکے ۔۔میں کسی سے ڈرتا وڑتا نہیں ہوں کے نعرے لگانے والا اب عدالت میں پیشی سے ڈررہاہے

غداری کے سنگین مقدمے میں پیشی دوران عدالت جاتے ہوئے اچانک سابق ڈکٹیٹر کی طبیعت خراب ہوگئی اور عدالت جانے کی بجائے اسے اسلام آباد کے ہسپتال داخل کروادیا گیا اب کراچی میں اپنے حالات کے رحم وکرم پرہے۔۔یہ بھی حالات کی سنگینی ہے کہ دس دس بار باوردی صدر منتخب کروانے کا دعویدار اب اپنے پرانے مربی و محسن سے کنی کترارہے ہیں جن کی امید۔۔ اور جانثاری کے بھروسے مشرف پاکستان آیا تھا ان کی طرف سے سرد مہری تو اس کہاوت کے مصداق ہے

جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے غداری کے مقدمہ نے جہاں اس حقیت کو آشکار کردیاہے کہ سدا بادشاہت صرف اللہ تبارک تعالیٰ کی ہے وہ جسے ”کرسی ” سے نوازتاہے در اصل اس دن سے اس کاامتحان شروع ہو جاتاہے جو اس امتحان میں سرخرو ہوجائے اسے دنیا ہمیشہ یادرکھتی ہے ورنہ رسوائی اس کا مقدر بن جاتی ہے ۔۔ موجودہ عام انتخابات میں قوم نے میاں نواز شریف کو اتنے ووٹ دئیے جس کی انہیں توقع بھی نہیں تھی یہ حکومت عوامی ترقعات پر پورا نہ اتری تو ہو سکتاہے پاکستان میں جمہوریت ناکام ہو جائے اور عوام عیر جمہوری قوتوں کی طرف نہ دیکھنے لگ جائیں خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ ملک وقوم کیلئے ایک بڑا المیہ ہو گا۔۔۔

بہرحال آنے والے ماہ وسال میں جو کچھ” ہونے” کی توقع ہے اس سے احتساب کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔۔ایک منصفانہ نظام معرض ِ وجود میںلایا جا سکتاہے۔۔ جمہوریت مستحکم کی جا سکتی ہے۔۔۔ہر ادارے کی حدودو قیود کا تعین کرنے میں معا و نت کی جا سکتی ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ہم اداروںکو مضبوط بنا سکتے ہیں جس سے قانون کی حکمرانی کا خواب پورا کیا جاسکتاہے عوام کی حالت بہتر بنانے کیلئے کچھ نہ کچھ کرنا ناگزیرہے پاکستان کی سرزمین صحیح معانوںمیں وہ ماحول مانگتی ہے جو قومی امنگوں کا ترجمان ہو آج عوام میں تحریک ِ پاکستان کا جذبہ بیدارکرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس پاک وطن میں ایسا معاشرہ پروان چڑھ سکے جس میں لڑائی نہ ہو،شرانگیزی نہ ہو،دہشت گردی نہ ہو، امن ہو، سکون ہو روز خوابوں میں ملاقات ہوا کرتی تھی اور خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کرتے تھے شایداب خواب شرمندۂ تعبیر ہونے کا موسم آگیا ہے۔

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی