counter easy hit

جسٹس انور ظہیر جمالی کا خطاب اور انصاف کی فراہمی

Chief Justice Anwar Zaheer

Chief Justice Anwar Zaheer

تحریر : محمد صدیق پرہار
نئے عدالتی سال کے ابتداء کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ آئین کے تحت کسی بھی ادارے کواپنی حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کی یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔

آئین میںتمام اداروں کی آئینی حدودکاتعین کردیا گیا ہے۔تمام ادارے اپنے اپنے آئینی دائرے کے اندررہتے ہوئے کام کریںتوبہت سے مسائل ختم ہوجائیں گے۔آئین میںنہ توکسی ادارے کواس کی حدودسے تجاوزکی اجازت ہے اورنہ ہی کسی شخصیت کوایساکرنے کی اجازت ہے۔پارلیمنٹ کاکام قانون سازی کرنا ہے۔مقدمات کے فیصلے کرنا نہیں ہے۔پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کی روشنی میں مقدمات کے فیصلے کرناعدلیہ کاکام ہے۔پولیس کاکام قانون کے نفاذکویقینی بنانااورعدلیہ کے فیصلوںپرعمل کراناہے۔ان کاکہناتھا کہ ملک کی بدلتی ہوئی معاشی،معاشرتی اورسیاسی صورت حال میں سپریم کورٹ کاکردارعوام کے لیے بہت اہمیت کاحامل رہا ہے۔عوام کی نظریںمعمول کے مقدمات کے تصفیے کے علاوہ دیگرسیاسی اورمعاشرتی امورکے حل کے سلسلے میں بھی سپریم کورٹ پرمرکوزرہیں۔ملک میں جب بھی غیریقینی کی صور ت حال کسی بھی حوالے سے پیداہوئی توعوام کی امیدوںکامرکزعدالت عظمیٰ ہی رہی ہے۔

ہرمعاملہ میں عوام کویہ یقین ہوتا ہے کہ عدلیہ کافیصلہ ہی صورت حال کوواضح کرے گا۔عدلیہ بحالی تحریک کے بعدعدلیہ پرعوام کے اعتمادمیں اوراضافہ ہوگیا۔اب بھی عوام کی امیدوںکامرکزسپریم کورٹ ہی ہے۔جسٹس انورظہیرجمالی کاکہنا تھا کہ بینچ اوربارکی مثال ایک چکی کے دوپاٹوں کی سی ہے۔جب تک دونوںمل کراورایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی سے کام نہ کریں فراہمی انصاف کامقدس فریضہ درست طورپرسرانجام دیناممکن نہیں ہوگا۔انصاف کی فراہمی میںباربینچ کی معاون ہے۔انصاف کی فراہمی میں جہاں عدلیہ کاکرداربہت ہی اہمیت کاحامل ہے وہاں وکلاء کاکرداربھی بنیادی اہمیت کاحامل ہے۔وکلاء ایک طرف عدلیہ کی معاونت کرتے ہیں دوسری طرف اپنے موئکلوں کی بھی آئینی معاونت کرتے ہیں۔ان کاکہناتھاکہ حصول انصاف کودرپیش مشکلات میں مقدمات کے فیصلہ میںہونے والی تاخیرسب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے۔جس سے غریب اورنادارطبقے پرانتہائی برااثرپڑتاہے۔

اب تک معززچیف جسٹس صاحبان کے مختلف فورمزپرکیے گئے جتنے بھی خطابات ہم نے پڑھے ہیں سب نے انصاف کی فراہمی میں تاخیرپرضروربات کی ہے۔انصاف کی فراہمی میں تاخیرکی وجوہات بتائی بھی ہیں اوریہ بتایاہے کہ عدلیہ ان وجوہات کے خاتمے کے لیے کیااقدامات کررہی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انورظہیرجمالی نے انصاف کی فراہمی میں تاخیرکے غریب اورنادارطبقے پرپڑنے والے اثرات پربھی بات کی ہے۔ان کاکہناتھا کہ ہم فوری اورسستے انصاف کی فراہمی ،غیرجانبدارانہ فیصلے،آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کے لیے اپنی کوششوںکوجاری رکھیں گے اوراس سلسلے میں عوام کی امیدوںپرپورااترنے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔عدلیہ کی ہردورمیں اورقسمی حالات میں یہی کوشش رہی ہے اوربھی ہے کہ سائلین کوبروقت اورسستاانصاف فراہم کیاجائے۔سستے اوربروقت انصاف کی فراہمی سے معاشرے میں عدم توازن کاخاتمہ ہوتا ہے۔

معاشرے میں جرائم میںکمی واقع ہوتی ہے۔قانون کی حکمرانی اورآئین کی بالادستی قائم ہوجائے توملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوجائے گا۔اس سلسلہ میں عدلیہ کے کردارکوخاص اہمیت حاصل ہے۔عدلیہ بحالی تحریک کے بعد اس بات کوزیادہ تقویت ملی ہے۔آئین پاکستان اس بات کی ضمانت فراہم کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کابلاشرکت غیرے حاکم کل ہے اورپاکستان کی جمہور کوتفویض کردہ اختیارواقتداراللہ کی مقررکردہ حدودکے اندراستعمال کرنے کاحق ہے۔جوایک مقدس امانت ہے۔ہم فاضل چیف جسٹس سے یہاں کچھ استدعاکرناچاہیں گے کہ آئین میںتویہ بات درج ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام کائنات کابلاشرکت غیرے حاکم کل ہے اورپاکستان کی جمہورکوتفیض کردہ اختیارواقتداراللہ کی مقررکردہ حدودکے اندراستعمال کرنے کا حق ہے۔

کیا ہمارے ادارے، سیاستدان، پالیسی ساز،ارباب اقتدارواختیاراللہ کی مقررکردہ حدودکے اندررہتے ہوئے ہی اپنے اپنے اختیارات کااستعمال کررہے ہیں یااس سے تجاوزبھی کررہے ہیں۔ہماراسودپرمبنی بینکاری نظام کیا اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزنہیں۔ شریعت کے قانون میں کچھ جرائم کی سزااورہے اورپاکستان کے آئین میںکچھ اورسزا ہے کیایہ اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزنہیں۔ ہم فاضل چیف جسٹس آف پاکستان سے استدعاکرتے ہیں کہ وہ ازخودنوٹس لے کراس مقدمہ کی سماعت کریں کہ پاکستان میں کون سے قوانین اورپالیسیاں اللہ کی مقررکردہ حدودکے اندرہیں اورکون سے قوانین وپالیسیاں اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزہیں۔جوقوانین اورپالیسیاں اللہ کی مقررکردہ حدودسے متجاوزہیں انہیں فوری طورپرتبدیل یاختم کرنے کاحکم جاری کریں۔چیف جسٹس آف پاکستان انورظہیرجمالی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل ٢٠٩ کے تحت زیرالتوا درخواستوں کومدنظررکھتے ہوئے خوداحتسابی کے اصول پرعمل پیراہونے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کومزیدمتحرک کیا جارہا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہناچاہوںگاکہ خوداحتسابی کایہ عمل یکطرفہ نہیں ہوناچاہیے بلکہ دوطرفہ ہوناچاہیے۔یعنی بارکونسلزکی طرف سے بھی اپنی ڈسپلنری کمیٹیوںکومتحرک کیاجاناچاہیے اورکسی بھی شکایت کی صورت میں حقیقت پسندانہ طریقے سے قانون کے مطابق تادیبی کارروائی کرکے اس کاازالہ کیا جانا چاہیے۔

عدلیہ کی طرح خوداحتسابی کایہ عمل ملک کے تمام قومی وصوبائی ادارے اپنالیں ۔اپنی خامیوںکی خودہی نشاندہی کرکے خوداس کے ازالے کے اقدامات کریںتواداروںسے متعلق اکثرشکایات کاخاتمہ ہوجائے گا۔خوداحتسابی کایہ عمل صاف شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوناچاہیے۔اداروں کے سربراہوں سے لے کرگیٹ کیپرتک سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوناچاہیے۔خوداحتسابی کایہ عمل ترقی کی رفتاربھی بڑھادے گا۔اس سے اداروںپرعوام کے اعتمادمیںبھی اضافہ ہوگا۔ان کاکہناتھا کہ گزشتہ سال ستمبر٢٠١٤ء میںسپریم کورٹ میں زیرالتوامقدمات کی تعدادتقریباً چوبیس ہزارکے لگ بھگ تھی۔ستمبر٢٠١٤ء سے اگست ٢٠١٥ء کے دوران ١٧ ہزارکے لگ بھگ نئے مقدمات دائرکیے گئے۔اورتقریباً چھ سوکے قریب مقدمات کوبحال کیاگیا۔اس عرصہ کے دوران پندرہ ہزارسے زائدمقدمات کافیصلہ کیاگیا۔اسی طرح ستمبردوہزارپندرہ میں زیرالتوامقدمات کی تعدادکم وبیش ٢٦ ہزارکے لگ بھگ ہوگئی۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے کہا کہ ہیومن رائٹس سیل نے عوامی شکایات کے ازالے میں بھرپورکرداراداکیا۔

اس شعبہ میں زیرالتواشکایات کی تعدادبارہ ہزارتین سوپانچ تھی۔گزشتہ سال کے دوران کل چھبیس ہزارسات کواکتیس شکایات موصول ہوئیں۔اٹھائیس ہزارچونتیس شکایات کونمٹادیاگیا۔ ان میں سے زیادہ ترپولیس ، انتظامیہ اورارباب اقتدارکی مبینہ زیادتیوں ،عورتوں کے حقوق،اقلیتوں کے ساتھ نارواسلوک ،ریٹائرڈ ملازمین کی پنش سے متعلق تھیں۔اس طرح زیرالتوا درخواستوں کی تعدادکم ہوکرگیارہ ہزاردورہ گئی۔بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل کے حل کے لیے علیحدہ شعبہ قائم کیاگیاتھاجس میں گزشتہ سال دوہزار٥٥ شکایات موصو ل ہوئیں۔جن میں سے تیرہ سوچورانوے کونبٹادیاگیا۔اورزیرالتوادرخواستوںکی تعداد٦٦١ رہ گئی۔ان کاکہناتھا کہ اسلامی تشریح کے مطابق جمہوریت، آزادی، برابری،رواداری اورمعاشرتی عدل کے اصولوںپرعمل کیاجائے۔یہی وہ مسلمہ اصول ہیں جس سے معاشرے کی بنیادی مضبوط ہوتی ہیں۔ان اصولوںمیں اسلامی تعلیمات پرعمل کیاجائے تومعاشرہ میں واضح تبدیلی نظرآئے گی۔چیف جسٹس آف پاکستان کاکہناتھا کہ عدلیہ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال میںآئینی اورقانونی حدودکومدنظررکھتے ہوئے ایسا حکم جاری کرے جس سے صرف اورصرف غیرقانونی اقدام کی تصیح ہواورساتھ ہی ساتھ اداروںکے مابین ہم آہنگی پیداہواورریاست کی بنیادوںکومضبوط سے مضبوط ترکرنے میںمدد ملے۔

تمام شعبہ جات میں غیرقانونی سرگرمیوںکوروکنے کے احکامات جاری کرناعدلیہ کے فرائض میں شامل ہے۔اداروں کے درمیان ہم آہنگی سے ہی ملک کی تعمیروترقی کی راہیںہموارہوتی ہیں۔ریاست کی بنیادیں بھی آئین کی بالادستی سے مضبوط ہوتی ہیں۔ان کاکہناتھا کہ آنے والے دنوںمیں انشاء اللہ میںاورمیرے برادرجج صاحبان اس بات کویقینی بنانے کی کوشش کریں گے کہ غیرضروری التواء اورمقدمات تاخیرکاخاتمہ کرتے ہوئے مقدمات کافوری اوربروقت فیصلہ کیاجائے۔انہوںنے کہا کہ اس سلسلہ میں وکلاء اوربارکے نمائندوں سے مشاورت کے بعدمزیدبہتری لانے کے لیے ترتیب دیاجائے گا۔اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عدلیہ کوانصاف کی فراہمی میں تاخیرکابخوبی احساس ہے۔عدلیہ انصاف کی فراہمی میں تاخیرکوکم سے کم کرنے کے اقدامات کررہی ہے۔اس تاخیرکوکم سے کم کرنے کے لیے دیگراداروں اورذمہ داروں کوبھی اپناکرداراداکرناچاہیے۔اس ضمن میں ان کاکہناتھا کہ یہاںمیں یہ کہناچاہوںگا کہ تمام جج صاحبان نے زیرالتواء مقدمات کی تعدادمیں کمی لانے کی ہرممکن کوشش کی۔چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ہم پندرہ ہزارسے زائدمقدمات کافیصلہ کرنے میںکامیاب ہوئے مگرکچھ نامساعد حالات کی وجہ سے اس میںمزیداضافہ نہ ہوسکا۔ان میں ایک وجہ سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والادھرناتھاجس کی وجہ سے کئی ماہ تک وکلاء اورسائلین کوعدالت میںحاضرہونے میں دشواری پیش آئی اورمقدمات غیرضروری التواء کاشکارہوتے رہے۔پی ٹی آئی اورپی اے ٹی کے دھرنوں کے اثرات پرراقم الحروف اکثرکالم نویسوں نے لکھا تھا۔راقم الحروف نے دھرنے کے پاکستان کی معیشت پرپڑنے والے اثرات پرلکھاتھا۔تاہم اس بات پرغورنہ کرسکے اورنہ ہی لکھ سکے کہ اس دھرنے کی وجہ سے انصاف کی فراہمی بھی متاثرہوئی۔چیف جسٹس نے دھرنے کے ایک اورنقصان سے بھی آگاہ کردیاہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقدمات کے التواء میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ عوامی اہمیت کاحامل ہونے کی وجہ سے آئینی ترامیم کے مقدمہ فل کورٹ تشکیل دی گئی جسے کئی ماہ تک اس مقدمہ کی بحث سنناپڑی اوراس دوران دیگرعام مقدمات کی سماعت پربہت اثرپڑا۔اس کے علاوہ انتخابات ٢٠١٣ء تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل بھی اس کی وجوہات کی میں شامل ہے۔چیف جسٹس کاکہناتھا کہ اگریہ تمام عوامل درپیش نہ ہوتے تویقینا زیرالتواء کی مقدمات کی تعدادمیں خاطرخواہ کمی واقعہ ہوتی۔گزشتہ سال کے دوران دوانتہائی قابل احترام چیف جسٹس صاحبان جسٹس ناصرالملک اورجسٹس جوادایس خواجہ کے علاوہ قابل احترام جج جسٹس اطہرسعیداپنی مدت منصبی کی تکمیل کے بعدہم سے جداہوگئے۔اگرچہ وہ سب حضرات بینچ کاحصہ نہیں ہیںمگران کے فیصلے مگران کے فیصلے ہمارے لیے مشعل راہ رہیں گے اورنہ صرف ہم بلکہ قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے تمام افرادان سے استفادہ کرتے رہیں گے۔

چیف جسٹس انورظہیرجمالی نے انصاف کی فراہمی میں تاخیراورمقدمات کے التواء کی وجوہات میں آئینی مقدمات کی سماعت بھی بتائی ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقدمات کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے۔بدلتے حالات ، سیاسی کشمکش اوردیگروجوہات کی وجہ سے عدالتوںمیں دائرہونے والے مقدمات کی تعدادمیںاضافہ ہورہا ہے۔عدلیہ کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کوبھی عدالتوںپرمقدمات کابوجھ کم کرنے ،مقدمات کے غیرضروی التواء اکاباعث بننے والے عوامل کوختم کرنے کے لیے اپناکرداراداکرنا چاہیے ۔جس طرح دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کی گئی ہیں۔ اسی طرح سیاستدانوںکے مقدمات اورآئینی ترامیم جیسے مقدمات اورکسی بھی معاملہ کی تحقیقات کے لیے تحقیقاتی کمیشن وغیرہ کے قیام کے لیے بھی الگ سے خصوصی عدالتیں بنائی جانی چاہییں۔سماجی جرائم اورسٹریٹ کرائم کے مقدمات،ملاوٹ، حرام گوشت ، ناقص خوراک کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کے لیے بھی خصوصی عدالتیں قائم کی جانی چاہییں۔عدالتوںپرمقدمات کابوجھ کم کرنے اورانصاف کی فراہمی میں تاخیرکوکم سے کم کرنے کے لیے اوربھی تجاویزہمارے پاس محفوظ ہیں۔ ان کولکھنے کے لیے ایک اورکالم درکار ہے۔

Siddique Prihar

Siddique Prihar

تحریر : محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com