counter easy hit

ڈو مور اور نو مور کی جھڑکیوں سے نجات کیلئے ترجیحات اور بیانیے بدلئیے

بالآخر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشگاف الفاظ میں پاکستان کو دوغلے پن کا مرتکب قرار دیتے ہوئے نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بد دیانتی کا مرتکب قرار دیا بلکہ کولیشن سپورٹ فنڈ اور امداد بند کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے “نو مور” کا اعلان بھی کر ڈالا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ٹویٹ کے جواب میں عوام کا مورال بلند رکھنے کیلئے سیاسی اور عسکری قیادت کی جانب سے جذبہ حب الوطنی پر مبنی بیانات دئیےگئے۔ ان بیانات سے امریکہ کا موقف نہ تو ہمارے بارے میں تبدیل ہوا اور نہ ہی اقوام عالم نے ہمارے بیانیے کو من و عن تسلیم کیا۔

ہمارے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بیانیئے کو تسلیم نہ کئیے جانے کی بنیادی وجہ گڈ اور بیڈ طالبان کی پالیسی اپناتے ہوئے حقانی نیٹ ورک اوردیگر گروہوں کی سرپرستی کرنا اور جہادی تنظیموں کو سٹریٹیجیک اثاثے سمجھتے ہوئے ان کے دم پر ہمسایوں سے تنازعات کو بزور طاقت حل کرنے کی خواہش رکھنا ہے۔ حافظ سعید یا عصمت الہ معاویہ جیسے شدت پسند اگر ریاستی پروڑوکول کے ساتھ گھومتے دکھائی دیں گے تو پھر دنیا ہم پر انگلیاں ہی اٹھائے گی۔ احسان الہ احسان جیسا دہشت گرد اگر تمام جرائم اور قتل و غارت کے بعد بھی سرکاری مہمان بن کر رہے گا تو ہم پر سوالات اٹھیں گے ہی۔

جب زید حامد اور اوریا مقبول جان جیسے شدت پسند ففتھ وار جنریشن اور کفار کی ہمہ دم تخیلاتی سازشوں کا ذکر قومی ٹی وی چینلز پر کرتے پائے جائیں گے تو شدت پسند اذہان بھی پیدا ہوں گے اور نرگسیت پسندی اور اصلاف پرستی جیسے امراض سے قوم کو چھٹکارا دلوانا بھی ناممکن ہوگا۔ جب تک ہم خود احتسابی کے عمل سے گزرتے ہوئے اپنے دفاعی بیانیے اور اپنے رویوں کو درست نہیں کریں گے تب تک نہ تو ہم شدت پسندی اور دہشت گردی سے جان چھڑوا سکیں گے اور نہ ہی اقوام عالم میں اپنے موقف کو درست ثابت کرنے پائیں گے۔

امریکہ ایک سپر پاور ہے اور دنیا میں اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے وسائل پر قبضے کیلئے مختلف ممالک کو آگ و خون میں نہلاتا ہے۔ افغانستان جنگ بھی دہشت گردی سے زیادہ وسائل پر قبضے کی جنگ ہے  افغانستان سے ملنے والی ٹریلین ڈالر کی ہیروئن فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی ضرورت ہے۔ عراق سے نکلنے والا تیل امریکہ کی معاشی ضرورت ہے اس لیے ان علاقوں میں اپنے ہی بنائے گئے دہشت گردوں کا تسلط ختم کرکے امریکہ خود ان وسائل پر براہ راست قابض ہو چکا ہے۔ اس سارے عمل میں ہمارے پالیسی سازوں نے ڈالرز کے عوض کبھی نام نہاد ڈالر سپانسرڈ افغان جہاد کے ذریعے وطن عزیز کو شدت پسندی کی نظر کیا تو کبھی وار آن ٹیررزم کے نام پر۔

اب دنیا ہمیں کرائے پر لڑنے والی اجرتی ریاست کے حوالے سے جانتی ہے۔ اب ستر ہزار سے زیادہ ہموطنوں کی جانیں گنوانے اور معاشرے کو شدت پسندی کا شکار کروانے کے بعد بھی اگر ہم درست ترجیحات کا انتخاب نہیں کرتے تو پھر جدید دنیا میں بطور مہذب قوم کے ہماری پہچان بھی ممکن نہیں ہو سکے گی اور خود بطور ریاست قائم و دائم رہنے پر بھی سوالات کھڑے ہو جائیں گے۔

یقیناً ہم امریکہ سے لڑنے کی پوزیشن میں قطعاً بھی نہیں ہیں لیکن امریکہ اور اس کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بین الاقوامی سطح پر سفارتی محاذ کے ذریعے یہ ضرور باور کروا سکتے ہیں کہ آج جن دہشت گردوں کی معاونت کرنے پر امریکہ پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے ان کو پیدا کرنے میں بھی امریکہ کا ہاتھ شامل رہا ہے۔ یہ دہشت گرد اور شدت پسند تو شائد کبھی نہ کبھی ختم ہو جائیں گے لیکن جہاد کے ذریعے دنیا پر غلبہ پانے اور شدت پسندی کے مرض کا شکار اذہان کو جدید دنیا کی حقیقتوں سے روشناس کروانے میں دہائیاں درکار ہوں گی۔

کاش اپنے نصاب میں امریکی خواہشات کے مطابق اور اپنی نرگسی پسندی کے تابع ہم اصلاف پرستی اور شدت پسندی کے بیج نہ بوتے تو آج ہمیں معاشرے میں مارو اور  مر جائو کی سوچ کی بجائے برداشت اور علم و امن سے محبت کرنے والی نسلوں کو پروان چڑھتا دیکھ رہے ہوتے۔

کہتے ہیں کہ بنیادیں مضبوط ہوں تو عمارتوں کو بڑے سے بڑا طوفان بھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا لیکن اگر بنیادیں کھوکھلی ہوں تو محض ہوائیں بھی کمزور بنیادوں والی عمارتوں کو زمین بوس کرنے کیلئے کافی ہوتی ہیں۔ ہمارے قائم کردہ ریاستی و مذہبی بیانیے کا بھی یہی حال ہے۔ جب یہ بیانیے تشکیل دیئے جا رہے تھے تو ان بیانیوں کی بنیادیں رکھنے والوں نے عجلت میں نہ تو سچ کا سیمنٹ ڈالنا ضروری سمجھا اور نہ ہی حقیقت شناسی کے گارے کا استعمال کیا گیا۔ نتیجتاً یہ بیانیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں وطن عزیز کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے گئے وہیں بدلتی ہوئی جدید دنیا میں بھی ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہوتے چلے گئے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ ہمارے دفاعی اور مذہبی بیانیے کے خودساختہ ٹھیکیداروں کو دنیا کے دباؤ تلے گھٹنے ٹیک کر ان تمام سٹریٹیجک اثاثوں کو تلف کرنے کی اشد ضرورت آن پڑی ہے جو کبھی جہاد کی انڈسٹری اور کبھی مذہبی انڈسٹری کے ہیرو تصور ہوتے تھے۔

کشمیر کا مسئلہ کبھی بھی روایتی جنگ سے حل نہیں ہو سکتا یہ وہ حقیقت ہے جو روز اول سے کوئی بھی کامن سینس رکھنے والا آدمی باآسانی بتا سکتا ہے۔ لیکن آفرین ہے ہمارے بیانیے کو تشکیل دینے والوں پر  جنہوں نے جنگ جہاد اور مذہب پر مبنی ایسا بیانیہ تشکیل دیا جس کے بعد اب حالات یوں ہیں کہ امریکہ تو دور کی بات افغانستان جیسا ملک بھی دوٹوک الفاظ میں ہمیں دہشت گردی ایکسپورٹ کرنے والا ملک قرار دے کر کبھی حقانی نیٹ ورک اور کبھی دیگر جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

ہم بھلے ہی اپنے وطن میں جس قدر مرضی پراپیگینڈہ پھیلا کر سادہ یا نیم خواندہ ذہنوں کو بے وقوف بنالیں کہ ہم دہشت گردی ایکسپورٹ نہیں کرتے بلکہ جہاد کر کے مظلوموں کی مدد کرتے ہیں لیکن عالمی دنیا نہ تو ہمارا یہ پوائنٹ مانتی ہے اور نہ ہی ہمارے بیانات کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو سدھار کر اپنا مذہبی و دفاعی بیانیہ تبدیل کرنے کے بجائے حیلوں بہانوں سے کام لیتے ہیں اور پھر بین الاقوامی دباؤ کے تحت اپنے ہی اقدامات اور نظریات سے سبکدوش ہو جاتے ہیں اور پوری دنیا میں اپنی سبکی اور رسوائی کا بھی خود ہی باعث بنتے ہیں۔

حافظ سعید کو بھارت کے خلاف پراکسی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ہمارے بیانیوں کے ٹھیکیداروں نے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ جہاد اور آزادی کشمیر کو گلوریفائی کر کے معاشرے میں شدت پسندی اور عسکریت پسندی کا جو کلچر پروان چڑھ رہا ہے اس کے مضمر اثرات سے خود اپنے ہی معاشرے کو کیسے بچایا جا سکے گا۔

اس جہاد کی انڈسٹری نے نفرت اور شدت پسندی کے جو بیج معاشرے میں بوئے ہیں نہ تو وہ حافظ سعید یا مسعود اظہر کو نظر بند کرنے سے ختم ہو سکتے ہیں اور نہ ہی زندگی کے تمام شعبہ جات میں موجود ان صاحبان کے ہمدردوں کی سوچ کو اس سے بدلا جا سکتا ہے۔ بندوقوں سے محبت کرنے کا جو فلسفہ ملک کی گلی گلی اور چوراہوں تک دہائیوں پر محیط ریاستی پراپیگینڈے کے ذریعے پھیلایا گیا اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے بھی اب دہائیوں پر محیط صبر آزما سفر طے کرنا ہو گا لیکن اس کے لیئے ہمیں دفاعی اور مذہبی بیانیے کو تبدیل کرنا ہو گا۔  دو تین صدیوں قبل صنعتی انقلاب سے پہلے کی دنیا میں ایسے بیانیے قوموں اور معاشروں کو جنگوں میں جھونک کر علاقوں پر قبضہ کرنے کیلئے مفید ثابت ہوتے تھے لیکن صنعتی انقلاب کے بعد اور پھر اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے انقلاب کے بعد ایسے بیانیے نہ صرف زنگ آلود ہو گئے بلکہ خود اپنے تشکیل کرنے والوں کے وجود کیلئے خطرہ بن گئے۔ اب سٹریٹیجک اثاثے بل گیٹس مارک زکربرگ یا سٹیفن ہاکنگ جیسے افراد کہلاتے ہیں جن کی بدولت ممالک کی معیشت اور تحقیق کے میدان مضبوط رہتے ہیں اور بنا کسی جنگ کے دنیا میں معاشی غلبہ پا کر تسلط قائم کر لیا جاتا ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اگر مجاہدین کے دم پردنیا کو فتح کیا جا سکتا تو آج افغانستان دنیا کی سپر پاور ہوتا۔ اگر محض جہادی یا شدت پسند تنظیموں کے بل پر جنگیں جیتی جا سکتیں تو کشمیر سے لیکر دہلی کے لال قلعے تک ہمارا سبز ہلالی پرچم لہرا رہا ہوتا لیکن ایسا نہ ہوا اور نہ ہو گا۔ اس لیئے حافظ سعید کوّنظر بند کرنے اور دیگر شدت پسندوں کی خاموش حمایت کرنےسے بہتر ہے کہ اپنے گلےسڑے دفاعی اور مذہبی بیانیےکو تبدیل کیا جائے۔

ہمارا مذہبی بیانہ دنیا پر مسلمانوں کے غلبے اور امت مسلمہ کے تصور کے گرد گھومتا ہے جبکہ اپنے معاشرے میں فرقہ واریت شدت پسندی کو ہوا دینے کے کام آتا ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ نے جب سات مسلمان ملکوں کیلئے ویزے پر پابندی کا اعلان کیا تو ہمارے بیانیے کی خود ساختہ مسلم امہ سلیمانی ٹوپی اوڑھ کر کہیں غائب ہو گئی۔ کسی ایک مسلم ملک میں نہ تو کوئی احتجاج دیکھنے کو ملا اور نہ ہی سفارتی سطح پر کوئی خاص کوشش نظر آئی۔  اب حقیقت پسندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ ہمارا مذہی بیانیہ رواداری اور پوری دنیا کو برابر سمجھتے ہوئے انسانیت کی تکریم اور بنا کسی مذہب رنگ نسل کی تفریق پر قائم کیا جائے اور ہمارادفاعی بیانیہ بندوقوں تلواروں اور عہد رفتہ کے پرفریب قصوں سے تبدیل ہو کر امن محبت علم تحقیق ٹیکنالوجی کے گرد قائم ہو تا کہ حافظ سعید ،مسعود اظہر یا احسان الہ احسان جیسے شدت پسندوں کے بجائے ہمارے ہاں بھی آئن سٹائن سٹیفن ہاکنگ اور بل گیٹس جیسے افراد پیدا ہو سکیں۔ بصورت دیگر جدید دنیا میں اب ایسے بیانیوں کے پنپ پانے کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اجرتی قاتلوں سے کام نکلوانے کے بعد اکثر و بیشتر انہیں مار دیا جاتا ہے۔ اجرتی قاتل یا کرائے پر پراکسی جنگیں لڑنے کے بجائے ریاست کو اپنا ایک امن پسند بیانیہ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے تا کہ ہم بطور ریاست اپنا تشخص ایک آزاد،خود مختار اور امن پسند قوم کے طور پر کروانے کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے سے بھی شدت پسندی کا خاتمہ کر سکیں۔ بصورت دیگر امریکہ اور عالمی اقوام سے ہم ان کے ملازموں کی مانند ڈو،مور اور نو مور جیسی جھڑکیاں سنتے ہی جائیں گے۔