counter easy hit

مردم شماری اور چھوٹے صوبے

سپریم کورٹ کے حکم پر مارچ میں مردم شماری ہو ہی جائے گی۔ بلوچستان اور سندھ کی حکومتوں کو مردم شماری کے طریقہ کار پر اعتراضات ہیں۔ نیشنل عوامی پارٹی، جو وفاق اور بلوچستان حکومت کا حصہ ہے، مطالبہ کر چکی ہے کہ جب تک بلوچستان سے افغان مہاجرین کو نہ نکالا جائے اور فوجی آپریشن کی بنا پر ہجرت کرنے والے بلوچ اپنے گھروں کو لوٹ نہ جائیں، تب تک بلوچستان میں مردم شماری نہ کی جائے۔ وفاقی وزیر حاصل بزنجو بلوچستان میں مردم شماری رکوانے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔

سندھ کی کابینہ نے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں غیر قانونی طور پر مقیم  غیرملکی شہریوں کو مردم شماری میں شامل نہ کیا جائے۔ سندھ کے وزراء کی متفقہ رائے ہے کہ فارم 2 اے کو ابتدائی مرحلے میں پر کرایا جائے۔ فارم میں گجراتی، بوہری اور پارسیوں سمیت سندھ میں مقیم برادریوں کی زبانوں کا اندراج کیا جائے۔ صوبائی وزیر منظور وسان کہتے ہیں کہ محمد علی جناح کی مادری زبان گجراتی تھی۔ مردم شماری میں گجراتی زبان بولنے والوں کا اندراج ضروری ہے۔ حکومت سندھ نے نادرا کو 15 ہزار شناختی کارڈز متعلقہ افرد تک پہنچانے میں تعاون کی پیشکش کی ہے۔

نادرا کا کہنا ہے کہ جس شخص کے پاس شناختی کارڈ ہو گا اس کا اندراج ہو گا، یوں ہر بالغ شخص کو شناختی کارڈ ملے گا۔ ادارہ شماریات والے کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوں گے ان کا اندراج تو ہو گا مگر یہ تحریر کیا جائے گاکہ ان افراد کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ مردم شماری کے اعداد و شمار 60 دن میں مرتب کر لیے جائیں گے۔

مردم شماری کا معاملہ ہمیشہ پیچیدہ رہا۔ چھوٹے صوبوں کے لوگوں کو یہ خطرہ رہا کہ دیگر ممالک اور دیگر صوبوں سے ہجرت کر کے آنے والے گروہوں کی بنا پر ان کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا افغان وار سے براہ راست متاثر ہوئے تھے۔ لاکھوں افغان مہاجرین دونوں صوبوں میں آ کر آباد ہو گئے۔ ان لوگوں کے آنے سے ایک طرف ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پھیلا، جس سے ان صوبوں میں امن و امان کی صورتحال بگڑی اور پھر مقامی آبادی کے وسائل بھی کم ہو گئے۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کا یہ موقف تھا کہ افغان مہاجرین عارضی بنیادوں پر آئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کو کیمپوں میں آباد کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کا مہاجرین کا ادارہ ان لاکھوں افراد کی دیکھ بھال کرتا ہے، جب افغانستان میں صورتحال معمول پر آئے گی تو یہ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔

مگر یہ مہاجرین صرف کیمپوں تک محدود نہیں رہے بلکہ شہروں میں آباد ہو گئے۔ پختونوں کے دو بڑے شہروں کوئٹہ اور پشاور کی ہیئت تبدیل ہو گئی۔ ان مہاجرین نے جائیدادیں خریدیں اور کاروبار پر چھا گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہروں میں آنے والے مہاجرین مقامی آبادی میں ضم ہو گئے۔ ایسا بلوچستان میں بھی ہوا۔ وہاں افغان مہاجرین پشتون آبادی کا حصہ بن گئے۔ ان لوگوں نے شناختی کارڈ حاصل کر کے ووٹر لسٹوں میں نام درج کرا لیے۔ جمعیت علمائے اسلام نے تو کئی افغان مہاجرین کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ٹکٹ بھی دیے مگر اس صورتحال سے بلوچ آبادی براہ راست متاثر ہوئی۔

بلوچ علاقے مسلسل سیاسی کشمکش کا شکار ہیں۔ فوجی آپریشن اور جنگجو بلوچوں کی کارروائیوں کی بنا پر مقامی آبادی شدید متاثر ہوئی ہے۔ گزشتہ سال اخبارات میں خبریں شایع ہوئی تھیں کہ تربت کے علاقے میں ہونے والے آپریشن کی بنا پر مقامی آبادی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئی اور ان میں سے کچھ خاندان کراچی کے مختلف علاقوں میں آ کر آباد ہوئے۔ بلوچ آبادی والے علاقوں میں گزشتہ چند برسوں سے خشک سالی اور زلزلے کی بنا پر مقامی آبادی ہجرت پر مجبور ہوئی، اس طرح مردم شماری کے اعداد و شمار صوبے کے سیاسی حالات پر براہ راست متاثر ہو سکتے ہیں۔ مقامی آبادی کے خدشات سندھ میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ روزگار کی تلاش میں کراچی میں آ کر آباد ہوتے ہیں۔

یہ ہجرت روز ہوتی ہے۔ خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کی بنا پر مقامی لوگ اپنے علاقوں کو چھوڑ نے پر مجبور ہیں۔ 2008ء کے بعد سے خیبر پختونخوا اور جنوبی پنجاب میں آنے والے سیلابوں کی بنا پر بھی لوگ اپنے علاقوں کو چھوڑ کر کراچی آنے پر مجبور ہوئے۔ غیر ملکیوں کے بڑے بڑے گروہ بھی کراچی میں آ کر رہنے لگے۔ ان گروہوں میں بنگالی اور برمی افراد کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ایرانی، افغانی، چینی اور وسط ایشیائی ممالک کے افراد بھی کراچی میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ماہی گیری اور شپ بریکنگ کی صنعتوں میں اب برمی اور بنگالیوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ جئے سندھ کے رہنما خالق جونیجو نے ہمیشہ سندھیوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اردو بولنے والی آبادی سندھ کا حصہ ہے مگر باہر سے آکر آباد ہونے والوں سے مقامی آبادی کے لیے روزگار اور ترقی کے مواقع کم ہوتے ہیں۔ مقامی افراد کے حقوق کے لیے روزگار کے لیے آنے والوں کے لیے پرمٹ لازمی ہونا چاہیے اور مردم شماری میں ان افراد کا علیحدہ اندراج ہونا چاہیے۔

ترقیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مردم شماری منصوبہ بندی کے لیے لازمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحیح اعداد و شمار کی بنا پر حقیقی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے اور جب درست اعداد و شمار ہوں گے تو پھر ہی ریاست کے وسائل کی تقسیم منصفانہ ہو گی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ آبادی کی گنتی کی بنا پر انتخابی حلقہ بندیاں ہوں گی تو پھر عوام کی اکثریت کے نمایندے منتخب ایوانوں تک پہنچیں گے اور یہ نمایندے اکثریت کے حقوق کا تحفظ کریں گے اور ایک ایسا منصفانہ نظام قائم ہوگا جس سے عام آدمی کو سماجی انصاف میسر آئے گا۔ اگر مردم شماری کے اعداد و شمار 60 سے 70 فیصد تک بھی درست ہوئے تو منصوبہ بندی خاصی موثر ہو سکتی ہے۔

مگر مردم شماری کو زیادہ معروضی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے اور عملے کی تربیت، ان کی نگرانی اور سیکیورٹی پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ماضی میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسا طریقہ کار اختیار کیا جائے کہ کسی حلقہ کو اعتراض کا موقع نہ ملے۔ چھوٹے صوبوں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ فارم 2 اے میں پاکستانی نژاد افغانی، برمی، بنگالیوں اور دیگر شہریوں کا علیحدہ اندراج کیا جائے، پھر دیگر صوبوں سے آنے والے افراد سے اپنا گھر چھوڑنے کی وجہ الگ خانے میں درج کی جائے۔ اس طرح مردم شماری میں ہر قسم کے اعداد و شمار حاصل ہو جائیں گے۔ قومی مالیاتی کمیشن میں چھوٹے صوبے وفاق سے یہ مطالبہ کرسکیں گے کہ دیگر صوبوں سے آنے والے افراد کی بہبود کے لیے علیحدہ فنڈ دیے جائیں۔ اسی طرح کے فنڈ ملنے سے کراچی کا انفرااسٹرکچر بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

کراچی زبوں حالی کا شکار ہے۔ وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا کو کراچی کو بچانے کے لیے مدد کرنی چاہیے۔ بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور قوم پرستوں کو مردم شماری  رکوانے یا بائیکاٹ کے بجائے افغان مہاجرین کے علیحدہ خانے میں اندراج کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ اسی طرح علاقہ چھوڑ کر جانے والے بلوچوں کو واپس بلانے کے لیے بھی اقدامات پر زور دیا جانا چاہیے۔ سندھ حکومت کا یہ مطالبہ بالکل درست ہے کہ مادری زبان کے کالم میں گجراتی اور دیگر زبانوں کا اندراج ہونا چاہیے تاکہ صحیح اعداد و شمار کے ذریعے ان گروہوں کی زبان اور شناخت کا تحفظ کیا جا سکے۔ شماریات کے ادارے کو 6 ماہ میں اعداد و شمار جاری کرنے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ اگلے انتخابات کے لیے درست حلقہ بندیاں ہوں۔ ہر فرد کو ایمانداری کے ساتھ مردم شماری کے کام میں شریک ہونا چاہیے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website