
موجودہ حکومت کے لئے بھی ناکام اداروں سے جان چھڑانا مشکل ہو گا مگر انھیں مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کے لئے ہر سال 600 ارب روپے درکار ہیں جن کا انتظام ناممکن ہو گا۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ غیر ملکی قرضوں میں سے بیس ارب ڈالرچین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پیرس کلب کو واپس کرنے ہیں تاہم اگر یہ تمام ممالک قرضہ کی ادائیگی پانچ سال کے لئے موخر کر دیں تو پاکستان کوچند سال کے لئے بڑا ریلیف مل جائے گا جس سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم رہیں گے۔ ملٹی لیٹرل ادارے کبھی بھی پاکستان کاقرضہ ری شیڈول نہیں کریں گے مگر آئی ایم ایف کی وجہ سے پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی کے قابل بنانے میں دلچسپی لیں گے اور دس ارب ڈالر تک کا مزید قرضہ دے دیں گے۔ پاکستان میں اندھا دھند قرضے لینے کے خلاف ایک لولا لنگڑا قانون موجود ہے جسے ختم کر کے سخت قانون بنایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی ترقی کے نام پر ملک و قوم کا سودا کرنے کی ہمت نہ کرے۔یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ 9 ماہ کے دوران معاشی محاذوں پر چند غلطیاں تسلیم کرتے ہوئے کاروباری طبقے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ حکومت اپنی توجہ ماہانہ بنیاد پر برآمدات بڑھانے اور ٹیکس میں اضافے کے دو ترجیحی شعبوں پر کام جاری رکھے گی۔
اجلاس میں وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک نے یقین دہانی کرائی کہ ایکسچینج ریٹ ایکدم گرنے کی اجازت نہیں ہوگی جیسا کہ توازن تقریباً حاصل کرلیا گیا۔ ذرائع نے گورنر اسٹیٹ بینک کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ڈیمانڈ سپلائی پر مبنی مارکیٹ ایکسچینج ریٹ کا تعین کرے گی۔ وزیر اعظم عمران خان نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف سطح کے معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فنڈ پاکستان کی جانب سے قابل قبول شرائط پر بیل آؤٹ پیکج دینے پر رضامند ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ چند فیصلے جلد لے لینے چاہئے تھے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے معیشت پر مکمل توجہ دی جائے گی۔ اجلاس میں وزیر اعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد، گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی، پی ٹی آئی سینیٹر محسن عزیز اور لاہور اور کراچی کی کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔








