counter easy hit

گستاخانہ خاکے، سب سے بڑی دہشت گردی

Charlie Hebdu

Charlie Hebdu

تحریر : عاصم علی
چارلی ایبڈو فرانسیسی میگزین میں گستاخانہ خاکوں کی ایک بار پھر اشاعت سے امت مسلمہ ایک سراپا احتجاج ہے۔ترکی نے فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا ہے جبکہ پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں خاکوں کی شدید ترین مذمت کی جارہی ہے۔پاکستان کی قومی اسمبلی سمیت صوبائی اسمبلیوں میں مذمتی قراردایں پاس ہو چکی ہیں۔پاکستان نے فرانسیسی جریدے میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عوامی جذبات اور مذہبی عقائد پر حملہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت لوگوں اور اقوام کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے، او آئی سی مجرمانہ فعل میں ملوث عناصر کے خلاف قانونی کارروائی سمیت دیگر اقدمات کرے۔ توہین آمیز خاکے قوموں اور تہذیبوں کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے حالانکہ اس وقت لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اپنے ہی ملک میں تنہا کرنے کی، او آئی سی فرانسیسی جریدے کیخلاف قانونی چارہ جوئی کرے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا ہے جس میں فرانسیسی جریدے کے خلاف قانونی کارروائی اور معافی کا مطالبہ کرتے ہوئے اس معاملے پر مسلم امہ کو متفقہ طور پر لائحہ عمل اختیار کرنے کا کہا گیا ہے۔ خط میں او آئی سی سیکرٹری جنرل سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے والے فرانسیسی میگزین کیخلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔پاکستان کی جانب سے خط کے بعد او آئی سی نے فرانسیسی جریدے کے خلاف عدالت میں جانے کا اعلان کردیا ہے۔او آئی سی سیکریٹری جنرل عیاد مدنی نے کہا ہے کہ چارلی ایبڈو نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کی۔ سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری پیغام میں عیاد مدنی نے فرانسیسی جریدے میں گستاخانہ خاکے شائع کیے جانے کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ وکلا یورپی اور فرانسیسی قوانین کا جائزہ لے رہے ہیں۔گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف پاکستان کی تمام مذہبی وسیاسی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں۔گزشتہ جمعہ کو جماعة الدعوة،جماعت اسلامی،جمعیت علماء اسلام و دیگر کی طرف سے ملک گیر یوم احتجاج کیا گیا۔تمامتر مکاتب فکر کے لوگ نکل رہے ہیں۔

تاجر، وکلائ، ڈاکٹرز، طلباء سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر مر مٹنے کے لئے تیار ہیں۔طلباء برادری کی طرف سے پنجاب اسمبلی کے سامنے زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا گیاجس میں سکولز، کالجز، یونیورسٹیز اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلباء نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔طلباء کی جانب سے فرانس، امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے خلاف سخت نعرے بازی کی گئی ۔ شرکاء نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جان بھی قربان ہے’ گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک علاج الجہاد الجہاد’غلامی رسول میںموت بھی قبول ہے اورگستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ المحمدیہ سٹوڈنٹس کے سنگ جیسی تحریریں درج تھیں۔المحمدیہ سٹوڈنٹس کے امیر انجینئر حارث ڈار نے اعلان کیا کہ تعلیمی اداروں کے طلباء تحفظ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ملک گیر تحریک میں ہراول دستہ کا کردار ادا کریں گے اور ملک بھر میں ہونے والے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مارچ، جلسوں، ریلیوں اور کانفرنسوں میں بھرپور انداز میں شریک ہوں گے۔ پورے ملک میں تعلیمی اداروں میں بھی تحفظ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک بھرپور انداز میں چلائی جائے گی۔جماعت اسلامی،جماعة الدعوة،تحریک حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم،جمعیت علماء اسلام،تحریک تحفظ قبلہ اول،اہلسنت والجماعت،مجلس وحدت المسلمین و دیگر جماعتوں نے جمعہ کو ملک گیر یوم احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

تحریک حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پاکستان کی اپیل پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف جمعہ کو ملک بھر میں حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مارچ، جلسوں، ریلیوں اور احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کیاجائے گا۔ پانچوں صوبوں وآزاد کشمیر میں ہونے والے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم مارچ، جلسوں اور کانفرنسوں میں ملک بھر کی مذہبی و سیاسی قیادت کو شریک کیاجائے گا۔ تحریک حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اپیل پر ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر احتجاجی مظاہروں کے پروگرام ترتیب دیے گئے ہیں۔ علماء کرام خطبات جمعہ میں بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے مسئلہ کو موضوع بنائیں گے اور مسلمانوں کو صلیبیوں و یہودیوں کی سازشوں سے آگاہ کریں گے۔ تحریک حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پاکستان کے چیئرمین مولانا امیر حمزہ نے کہا ہے کہ جمعہ کو پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں ، جلسوں اور کانفرنسوں کے ذریعہ دنیائے کفر کو پیغام دیاجائے گا کہ مسلمان شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کر سکتے۔صلیبیوں و یہودیوںنے گستاخیاں کر کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کی شہ رگ پر ہاتھ ڈالاہے۔ مغربی ملکوں کے حکمران شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخیاں کرنے والوں کو شہ دے رہے ہیں۔مسلم ممالک عالمی سطح پر تمام انبیاء کی حرمت کے تحفظ کیلئے قانون سازی کی کوشش کریں۔

ایسا کرنے سے ہی دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے۔ گستاخانہ خاکے بدترین دہشت گردی ہے۔ غیرمسلم عناصرتوہین رسالت کے مرتکب ہوکر مسلمانوں کو بھڑکانے کی سازش کررہے ہیں۔ آقا دو جہاں کی شان میں ذرہ برابر توہین برداشت نہیں کریں گے۔ ایک مرتبہ پھر ملت کفر متحد ہوکر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوئی ہے۔ آقائے نامدار شافع محشر کی حرمت کے خلاف اس جسارت کی جرات اس لئے ہوئی ہے کہ شاید عالم اسلام کی طرف سے انہیں کسی شدید ردعمل کی توقع نہیں تھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سارے مسلکی وسیاسی اختلافات بھلاکر یک جان ہوکر ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مرمٹنے اور ان گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سبق سکھانے کے لیے پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج بن جائے۔ نبی مہربان سے محبت اور عقیدت کا نعرہ اس قدر بلند ہوکہ”ورفعنا لک ذکرک” کی باز گشت بن جائے، حکومت کو توہین آمیز خاکے شائع کرنے والے ملک کے سفارت کاروں کو ملک بدر کرکے سفارت خانہ بند کردینا چاہیے۔ او آئی سی کا اجلاس بلا کر اسلامی اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے جریدے کی اس قبیج حرکت کی مذمت کے ساتھ ساتھ فرانس کی حکومت پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ امت مسلمہ کی دل آزاری پر تمام مسلمانوں سے معافی مانگے۔

اقوام متحدہ آزادی رائے کے حق کو مسلمہ اخلاقی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کا قانون بنائے اور تمام انبیائے کرام کے احترام کو لازمی قرار دے اور ان مقدس ہستیوں کی عزت و ناموس کے خلاف کسی بھی قسم کی ناپاک جسارت کو جرم قراد دیا جائے۔وزیراعظم پاکستان اس معاملے میں پہل کریںاور او آئی سی کا اجلاس طلب کر کے امت مسلمہ کی قیادت کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوارلیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اب عالم اسلام کے حکمرانوں کی حمیت،تدبر،دانش مندی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلامی ممالک کو یکجا کرنے کی کوشش کرنی چاہیں اور توہین رسالت کے خلاف سفارتی محاذ پر موثر اقدامات کرنے چاہیں۔توہین رسالت پر پوری دنیا کے مسلمان تو احتجاج کررہے ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی قیادت کی جانب سے اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے پر کوئی قابل ذکر پیش رفت ہی نہیں کی جارہی۔ اب پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کی حکومتوں کو آزادی اظہار کی مطلق آزادی اور ادیان ومذہب کی توہین اور گستاخی سے متعلق اس حساس معاملے کو فی الفور حل کر نے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔

تحریر : عاصم علی