counter easy hit

نامور پاکستانی کالم نگار کی ایک معلوماتی تحریر ، کم عمر بچوں کے والدین ضرور پڑھیں

An informative Pakistani columnist, read the children of underage children

لاہور (ویب ڈیسک) آپ کے گھر میں اگر بچے اور نوجوان ہیں اور ان کے پاس موبائل فون بھی ہے تو پھر انہوں نے ان موبائل فون میں دیگر ایپلی کیشنز کے ساتھ یہ گیم بھی ضرور انسٹال کی ہو گی ۔ میں نے ”پب جی‘‘ کا نام چند ہفتے قبل سنا تھا ‘تاہم اس کی حقیقت نامور کالم نگار عمار چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ پر یوں کھلی جب ٹائمز آف انڈیا کی یہ خبر انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی کہ بھارتی شہر ہریانہ میں سترہ سالہ لڑکے نے والدین کے گیم کھیلنے سے روکنے پر گزشتہ روز خودکشی کر لی۔اس کی ماں اسے ہر وقت گیم کھیلتا دیکھ کر پریشان رہتی تھی۔ چند ماہ قبل اسے سکول سے فیل ہونے پر نکال دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ اس گیم کو ضرورت سے زیادہ وقت دینے لگا۔گزشتہ روزوہ اپنے کمرے میں لیٹا پب جی کھیل رہا تھا کہ ماں کو غصہ آ گیا۔ اس کی ماں اسے کئی مرتبہ آوازیں دے چکی تھی۔ دو مرتبہ اس کا کھانا گرم کر کے اس کے آگے رکھا ‘لیکن اس نے نہیں کھایا‘ تیسری مرتبہ جب وہ اس کے کمرے میں گئی تو کھانا ویسے کا ویسا پڑا تھا۔ اس کی ماں نے غصے میں اس کے ہاتھ سے موبائل فون چھین لیا۔ وہ لڑکا گیم میں اپنے ساتھیوں کو فائرنگ کر کے قتل کر رہا تھا۔جب اس کی ماں نے اس سے موبائل چھینا تو اس نے گیم ادھوری رہنے کی خلش دل پر لگا لی ۔ اگلے روز اس کی لاش کمرے میں پنکھے سے جھولتی ہوئی ملی۔ایک اور نوجوان فرقان قریشی بھی پب جی کا ہی شکار ہوا۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق مدھیہ پردیش میں گیم کے دوران ہلاک ہونے والے لڑکے کے والد کا کہنا تھا کہ ان کا بیٹا فرقان قریشی مسلسل چھ گھنٹے سے پب جی گیم کھیل رہا تھا کہ اس دوران اسے مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑا اور وہ ہلاک ہو گیا۔ 16 سالہ فرقان قریشی 12 ویں کلاس کا طالبعلم تھا۔ حادثے سے قبل فرقان قریشی اپنے سمارٹ فون پر پب جی گیم کھیل رہا تھا کہ اچانک کہنے لگا: دھماکہ کر دو‘ دھماکہ کر دو۔ اْن کا کہنا تھا کہ میرا بیٹا انتہائی چست تھا اور وہ ہفتہ کی رات کو شروع کی گئی گیم اتوار کی صبح تک کھیل رہا تھا۔انہوں نے بتایا کہ فرقان قریشی نے رات کو کچھ گھنٹے کی نیند لی اور صبح اٹھنے کے بعد بمشکل ناشتہ کر کے دوبارہ گیم کھیلنا شروع ہو گیا۔ فرقان کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد وہ اسے فوری طور پر ہسپتال لے گئے ‘تاہم وہ جانبر نہ ہو سکا۔ڈاکٹروں کے مطابق جب لڑکے کو ہسپتال لایا گیا تو اس کے دل کی دھڑکن بند ہو چکی تھی۔پب جی اس وقت دنیا کی دوسری سب سے زیادہ کھیلی جانے والی گیم ہے۔ اسے جنوبی کوریا کی بلیو ہول نامی کمپنی نے 2017ء میں لانچ کیا تھا۔ یہ گیم پہلے تین ماہ میں ہی اتنی مشہور ہوئی کہ اسے تین کروڑ لوگ اپنا چکے تھے ۔ فی الوقت یہ سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کما رہی ہے اور اسے دنیا میں پچاس کروڑ لوگ ڈائون لوڈ کر چکے ہیں۔دنیا میں ایک وقت میں کم از کم چار کروڑ لوگ ہر وقت آن لائن ہو کر یہ گیم کھیل رہے ہوتے ہیں۔اس گیم نے ہر قسم کے معروف ایوارڈ بھی جیتے ہیں۔بنیادی طور پر یہ مار دھاڑ‘ فائرنگ ‘ تشدد اور قتلِ عام پر مبنی گیم ہے‘ جس میں دو سے لے کر ایک سو تک لوگ پیراشوٹ سے جنگ کے میدان میں اترتے ہیں۔ ان کا مقابلہ کسی اور سے نہیں‘ بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتا ہے۔یہ انٹرنیٹ سے منسلک ہو کر ایک گھنٹے تک ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں اور آخر میں جو شخص زندہ بچ جاتا ہے‘ وہ فاتح قرار پاتا ہے۔ یہ آن لائن نیٹ ورکنگ گیمنگ کی جدید شکل ہے‘ جس میں پلیئرز ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتے ہیں۔ گیم کی وجہ شہرت اس کے اعلیٰ گرافکس‘ سائونڈ اور گیمنگ سٹوری ہے۔ گیم میں ہر قسم کا جدید اسلحہ استعمال کیا گیا ہے اور آئے روز نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے نئے سے نئے فیچر شامل کئے جاتے ہیں۔ یہ گیم بنیادی طور پر سولہ برس سے زیادہ عمر کے بچوں کے لئے بنائی گئی ہے‘ لیکن انٹرنیٹ پر چونکہ کسی قسم کی روک نہیں لگائی جا سکتی ‘اس لئے آٹھ برس کا بچہ بھی اسے کھیل رہا ہوتا ہے۔ ماہرین ِ نفسیات کے مطابق؛ اس گیم کی وجہ سے دنیا بھر میں بچوں اور نوجوانوں کی شخصیت‘ مزاج اور طبیعت میں کئی طرح کی خرابیاں نمودار اور پرورش پا رہی ہیں‘ جن میں چڑچڑا پن‘ ذہنی جسمانی و نفسیاتی عارضے‘ سماجی تنہائی‘جرائم کی طرف رجحان اور اسلحے کا ناجائز استعمال ہے۔ان منفی اثرات کے باعث کئی ممالک میں اس گیم پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ان میں اردن ‘ عراق‘ نیپال اور بھارتی گجرات شامل ہیں۔ایسی مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز کی وجہ سے بچے دماغی طور پر بہت زیادہ سست ہو جاتے ہیں ۔  گیم میں وہ صرف ایک دوسرے کو گولیاں مارنا سیکھتے ہیں‘ جدید سے جدید اسلحہ استعمال کرتے ہیں‘ گرنیڈ پھینکتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روزانہ کئی کئی گھنٹے مسلسل اس میں کھوئے رہتے ہیں‘ اس لئے اس کے اثرات ان کی زندگی پر بھی آتے ہیں؛ حتیٰ کہ انہیں اپنی ماں اور اپنا باپ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ہر اس شخص سے انہیں نفرت ہو جاتی ہے‘ جو انہیں یہ گیم کھیلنے سے روکتا اور ناپسند کرتا ہے؛چونکہ یہ گیم مفت ہے اور چوبیس گھنٹوں میں جب چاہے جتناچاہے انٹرنیٹ استعمال کر کے کھیلی جاتی ہے‘ اس لئے دیگر کام‘ مثلاً: پڑھائی‘ نیند اور دیگر کام شدید متاثر ہوتے ہیں۔ماضی میں جب موبائل فون نہیں تھے تو یہی گیمیں بازار میں جا کر کھیلنا پڑتی تھیں‘ ہم بھی کھیلتے تھے‘ لیکن یہ گیمیں مفت نہ تھیں‘ بلکہ ٹوکن خریدے جاتے اور ایک گیم پانچ سات منٹ میں مکمل ہو جاتی۔ جو بہت زیادہ پلیئر ہوتا وہ زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ کھیل لیتا۔ اس کے بعد یا تو اس کے پاس پیسے ختم ہو جاتے یا پھر دکان بند ہو جاتی‘ لیکن موبائل فونوں کی شکل میں جو چوبیس گھنٹے کی دکانیں ہر کسی کے ہاتھ میں کھلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے نوجوان نسل کا رہا سہا بیڑہ بھی غرق کر دیا ہے۔ بچے پہلے ہی مطالعے سے دور تھے ‘ پب جی اور فورٹ نائٹ جیسی گیموں نے انہیں خود سے بھی دور کر دیا ہے۔ وہ سماجی طور پر منقطع ہو رہے ہیں۔ ان کے لئے گیموں کے کردار ان کی زندگی کے اصل کرداروں اور پیاروں سے زیادہ اہمیت کے حامل بن چکے ہیں۔ مصیبت یہ ہے کہ والدین بچوں سے موبائل فون واپس بھی نہیں لے سکتے کہ یہ ایک طرح کی ضرورت بن چکا ہے‘ لیکن اس کا استعمال کیا ہو رہا ہے اس کے بارے میں کوئی فکر مند نہیں ہے ۔ہماری نوجوان نسل کی اکثریت بے روزگار ہے۔ وہ پہلے ہی فرسٹریشن کا شکار ہے۔ موبائل فون گیمنگ کے اس نشے نے ان کی اس فرسٹریشن کو مزید بڑھا دیاہے۔ ایسی گیموں سے نوجوان نسل کو تو پتا نہیں کچھ مل رہا ہے یا نہیں‘ لیکن گیم بنانے والی کمپنیاں اربوں ڈالر ضرور کما رہی ہے۔آج اس کے پچاس کروڑ ڈائون لوڈ ہو چکے ہیں تو ایک دو برسوں میں ایک ارب ہو جائیں گے اور منافع بھی دوگنا ہو جائے گا‘ لیکن ذرا سوچیں دنیا کی سات ارب میں سے ایک ارب نوجوان آبادی اگر ایک دن میں دس دس گھنٹے موبائل فون پر ایک دوسرے کا قتل عام اور خون بہانا سیکھنے میں گزار دے گی تو ایسی نوجوان نسل اس دنیا کو کیسا مستقبل دے گی؟ ٹیکنالوجی کی حامل عالمی کمپنیاں نوجوانوں بالخصوص بچوں کو بہت زیادہ ٹارگٹ کر رہی ہیں۔یہ بچے اور یہ نوجوان ان کے لئے بہت زیادہ نفع بخش مارکیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ پرکشش گیمیں بنا رہے ہیں اور منافع بھی کما رہے ہیں‘ لیکن یہ نہیں سوچ رہے کہ ان کے اس اقدام سے دنیا کتنی خطرناک کھائی کی جانب جا رہی ہے۔ آپ کو پب جی گیموں کے اثرات اپنے اردگرد بھی دکھائی دیں گے ۔ایسی گیموں سے چار چھ برس کے بچے بھی لڑائیاں اور ماردھاڑ ہی سیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سکولوں میں بریک کے دوران آپ کو ہر طرف لڑکے ایک دوسرے کو دھکے دیتے‘ مکے مارتے اور bullyingکرتے دکھائی دیں گے۔ پی ٹی آئی کو حکومت میں لانے میں نوجوانوں کا بہت اہم کردار ہے ‘اب اس حکومت کو اپنے انہی نوجوانوں کو اس گہری کھائی میں گرنے سے بچانے کے لئے بھی آگے بڑھنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ معاشرے میں پب جی جیسے خاموش زہر کی شکل میں عدم برداشت‘ تشدد اور جرائم میں اضافے کا تیر کمان سے نکل جائے‘ پب جی جیسی گیموں پر فوری پابندی لگا دینی چاہیے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website