counter easy hit

ایک معلوماتی تحریر

An informal writing

لاہور (ویب ڈیسک) ایڈیٹر دی نیشن سلیم بخاری صاحب کے ای میل سے پیغام موصول ہوا ۔’’ایئرپورٹ پر ہوں فوری طور پر کیش کی ضرورت ہے، اس اکاؤنٹ میں بھیج دیں،گھر پہنچتے ہیں ہی واپس کر دوں گا‘‘۔وہ ان دنوں پرائم منسٹر کے ساتھ بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔کچھ دوستوں اخترشمار اور توفیق بٹ کی نامور کالم نگار فضل حسین اعوان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ قبل ازیں اس قسم کی میلزآ چکی تھیں لہٰذابخاری صاحب کے ای میل کے ہیک ہونے کااندازہ ہوگیا ۔ نو سر بازای میل ، فیس بک یا وٹس ایپ ہیک کرکے ایسے پیغام بھیجتے ہیں۔گزشتہ روز ایسا ہی واقعہ سامنے آیا۔ نوسربازی کی زد میں آنے والے نئے لوگ تھے،ان کے قریبی عزیز کا واٹس ایپ پر اس کے دئیے گئے اکاؤنٹ نمبر میں ایک لاکھ روپے جمع کرانے کامیسج آیا‘دوسرے عزیز کو بھی یہی کہا گیا۔ فوری طور پر دونوں نے لاکھ لاکھ روپیہ جمع کراکے فون کے ذریعے تصدیق چاہی تو لٹنے کا عقدہ کھلا۔ان لوگوں نے بینک اور ایف آئی اے سے رابطہ کیا۔ بینک والوں نے اکاؤنٹ چیک کیے ۔ایک اکاؤنٹ خالی تھا دوسرے میں 15 لاکھ روپے موجودتھے۔ایف آئی اے کو یہ اکاؤنٹ بلاک کرنے کو کہا توجواب تھا۔’’ انکوائری سے پہلے ہم کوئی اکاؤنٹ بلاک نہیں کر سکتے ،کیا پتہ آپ جھوٹ بول رہے ہوں۔ انکوائری کا انتظار کریں‘‘۔ ایف آئی اے کے لوگوں کی نیت پہ شک نہ کیا جائے تو بھی بینکوں اور متعلقہ ادراوں کی ملی بھگت کے بغیر ایسی وارداتیں ہوسکتی ہیں نہ مجرم محفوظ رہ سکتے ہیں۔اوکاڑہ سے ہمارے عزیز دبئی میں مقیم ہیں۔اوکاڑہ آتے جاتے رہتے ہیں ۔اس شہر میں بھی اکاؤنٹ ہے۔کئی سال بعد پیسوں کی ضرورت پڑی،بینک گئے توپتہ چلا ، اکاؤنٹ خالی ہے۔ 14 لاکھ روپے نکلوا لئے گئے تھے۔بینک انتظامیہ پروں پر پانی نہیں پڑنے دے رہی تھی۔کہا گیا۔’’آپ نے ہی پیسے نکلوائے ہیں‘‘۔ایف آئی آر درج کرانے کا کہا تو بینک والے پاؤں پڑ گئے اور قسطوں میں ادئیگی کردی۔فراڈ کے سلسلے کئی سال سے چل رہے ہیں۔ کیا اداروں کے پاس معلومات نہیں آئی ہونگی اگر آئی ہیں تو ان کیخلاف کیا کارروائی کی، کوئی کارروائی کی ہوتی تو میڈیاایڑیاں اُٹھاکر تحسین کر رہا ہوتا۔ بے نظیر انکم سپورٹ کے حوالے سے موبائل پر میسج آتے ہیں۔ پلاٹ ،گاڑی،نقد انعام نکلنے کا جھانسہ دے کر لوٹ مار ہورہی ہے۔اس سلسلے کے نہ رُکنے کا مطلب متعلقہ اداروں کے لوگ نااہل ہیں یا فراڈیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ ادھر پاکستان میں سیاسی ہنگامہ خیزیاں جاری ہیں۔ سیاست کھولاؤ کے عروج کو چھو کر ٹھنڈی پڑ رہی ہے۔ چنددنوں میں بجٹ منظور ہونے کے بعد شاید ٹھنڈی ٹھار ہو جائے۔بلاول بھٹو اور مریم نواز کی ملاقات کے دوران بجٹ منظور نہ ہونے دینے پر اتفاق ہوا تھا۔متحدہ اپوزیشن کی طرف بھی اسی عزم و ارادے کا اظہار کیا گیا ۔حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ کچھ مدت پوری کر جاتی ہیں کچھ درمیان تڑک کر کے ٹوٹ جاتی ہیں مگر آج تک کوئی حکومت بجٹ منظور نہ ہونے کے سبب نہیں ٹوٹی۔ظفراللہ جمالی کی ایک ووٹ کی اکثریت تھی ،عمران کی اکثریت چھ ووٹ کی ہے۔بجٹ آسانی سے پاس ہوجائیگا۔بجٹ کی منظوری کے لئے اسمبلی میں اس روز موجود ارکان کی اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے۔بے اصولیوں کیلئے حکومت کے پاس بہت کچھ، اپوزیشن محض وعدہ فردا ہی کر سکتی ہے۔ شاہد خاقان عباسی پی ٹی آئی کے وہ پندرہ لوگ ظاہر نہیں کرسکتے جن کے انکے بقول رابطے ہیں۔حکومت کو اپوزیشن کے گھوڑے شو کرنے کی ضرورت نہیں،بجٹ کی منظوری کے روز یہ اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فول پروف بہانے پیش کردینگے۔ حکومت کو شاید اس تردد کی بھی ضرورت نہ پڑے۔پی پی پی خود ہی کمک پہنچادے جو اسکی مجبوری بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی سی منعقد ہوگی اور کامیابی ہوگی مگر اس کے بطن سے کسی بڑی تحریک کا جنم ناممکن ہے۔ اندر کی خبریں باہر آرہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن لاکھوں بچوں کو لانا چاہتے ہیں،مولانا ’’نیک نیت ہیں‘‘ پرائے بچوں کو نواز زرداری کی سیاست پرنچھاور کرنے سے گریز نہیں کرینگے۔پی ٹی آئی اور ن لیگ کے لاکھوں کارکن بھی مظاہروں کیلئے بیقرار ہیں۔شدید گرمی میں صرف قیمے والے نان نہیں چلیں گے ،جو چلے گا ان کے اخراجات کون برداشت کرے گا۔ اس سوال پر مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے سے قبل ہی حتمی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس بہت پیسے ہوں گے ، وہ کیوں خرچ کریں گے؟ نون اور پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ اور انکے ماضی کے فنانسرز خود ان دی لائن آف فائر اور انکے اکاؤنٹس پر اداروں کی نظر ہے۔ایک حیران کن پیشرفت قومی اسمبلی کے اجلاس میں نظر آئی۔ غیر روایتی طور پر پہلی مرتبہ حکومت نے اپوزیشن کو بجٹ پر بولنے نہیں دیا۔ چار دن شہبازشریف بجٹ تقریر ہی نہ کر سکے۔یہ سلسلہ برقرار رہتا تومعاملات بگڑ سکتے تھے۔حکومت اوراپوزیشن کے پیچ کس دیئے گئے تو اجلاس میں تاریخ ساز امن وسکون تھا۔ بظاہر حکومت اور اپوزیشن نے مل بیٹھ کے کارروائی پر امن طریقے سے چلانے پر اتفاق کیا‘ ایسا اتفاق پہلے بھی بارہا ہو چکا مگرنفرتوں کی حرارت سے پگھل جاتا تھا۔ عمران کو لانے والے کمزور نہیں،کیا بجٹ منظور نہ ہونے دینے کے دعویدار ان سے زیادہ طاقتور ہیں۔ویسے بھی اسمبلی میں موجود اکثر لوگ دوبارہ الیکشن نہیں چاہتے ۔ یہ صرف مولانا اور مسلم لیگ ن کی متاثرہ لیڈر شپ کی خواہش اورخواب ہوسکتا ہے۔ پیپلزپارٹی قطعی حامی نہیںاس پر واضح ہے، مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت جاتی ہے تو سندھ میں انکی حکومت بھی برقرار نہیں رہے گی جس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات معدوم ہیں۔زرداری اور فریال تالپور گو قیدہیں لیکن یہ قیدبامشقت نہیں ، معاملات گھمبیر ہوتے ہیں، کوئی مہم جوئی ہو تی ہے تو ہوسکتا ہے کہ معاملات ناقابل برداشت ہو جائیں ۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website