counter easy hit

سوہانجنا ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمتوں میں سے ایک درخت کے حیران کر دینے والے فوائد ، پاک فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر کی معلوماتی تحریر

لاہور (ویب ڈیسک) اگر کالم نگاری کا مقصد قارئین کو انفارم اور ایجوکیٹ کرنا ہے تو اس مقصد کے کسی ایک موضوع کو تخصّص حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کالم نگاری کی وسعتوں کو تنگ کرکے انہیں سیاسی، نیم سیاسی یا زیادہ زیادہ ذاتی سوانحی حدود تک محدود سمجھ لیا گیا ہے۔

نامور مضمون نگار لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ذاتی امثال و واقعات کو بیان کرنا کوئی گناہ نہیں لیکن آج کل ایسے بہت سے کالم نگاہوں سے گزرتے ہیں جن میں خودستائی کا پہلو نمایاںیا نیم نمایاں ہوتا ہے۔ کالم نگاری کے پردے میں خودستائی اب ایک فن بن چکی ہے لیکن یہ ایسا فن ہے کہ جس کے فنی تقاضے بہت اشکال طلب ( چیلنجنگ) ہوتے ہیں۔اکثر کالم نویس حضرات اس ’فنکاری‘ سے آگاہ نہیں ہوتے اور ”پکڑے“ جاتے ہیں۔ بایں ہمہ بعض (لیکن بہت ہی کم تعداد میں) ایسے فنکار بھی ہوتے ہیں جو اپنی تعریف کا کوئی نہ کوئی پہلو کہیں نہ کہیں سے نکال ہی لیتے ہیں۔میری نظر میں یہ ’گناہ‘، اگر کبھی کبھار سرزد ہو جائے تو کچھ مضائقہ نہیں لیکن اگر اس کا ارتکاب تسلسل سے کیا جائے تو پڑھنے والوں کو اہتزازکی جگہ کراہت سی محسوس ہوتی ہے…. اس سے بچنا بلکہ دور بھاگنا چاہیے۔میں خود کچھ عرصے سے ”میری ڈائری“ کے چند اوراق“ کے عنوان سے ہفتہ عشرہ بعد ایک کالم لکھ رہا ہوں۔ لیکن بخدا اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں کہ برسوں پہلے جو کچھ میری سالانہ ڈائریوں میں لکھا ہوا تھا اس میں ،میں نے ایک آدھ لفظ کا اضافہ بھی نہیں کیا۔ اس کالم کا مقصد خود ستائی نہیں بلکہ ان قارئین کو عسکری معمولات سے آگاہی دینا ہے جو اس کوچے کے نشیب و فراز سے زیادہ واقف نہیں ہوتے۔ چنانچہ آج کا یہ کالم بھی ایک چوتھائی خودستائی کی ذیل میں شمار کر لینے میں کچھ ہرج نہیں،

باقی تین چوتھائی انفرمیشن اور ایجوکیشن ہے!یادش بخیر جس شہر (پاک پتن) میں میرا بچپن اور لڑکپن گزرا وہ ایک پہاڑی یا یوں سمجھ لیجئے کہ کوہستانی سطح مرتفع پر واقع تھا۔ قیامِ پاکستان تک یہ سارا شہر اسی وسیع ٹیلے پر بسا رہا اور جب اگست 1947ءکے بعد مہاجرین کی آمد آمد شروع ہوئی تو اس ٹیلے کے نیچے میدانی قرب و جوار میں جو سینکڑوں ایکڑ زرعی اراضی تھی وہ عماراتی اور تعمیراتی اراضی میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ پاک پتن ایک قصبے سے نکل کر تحصیل ہیڈکوارٹر اور آج ضلعی ہیڈکوارٹر بن چکا ہے۔ ٹیلے پر رہنے والی آبادیاں یا تو نیچے ہموار میدانوں میں آکر بس چکی ہیں یا صرف وہی لوگ وہاں باقی ہیں جو غربت اور تنگ دستی کی وجہ سے ہموار میدانی علاقوں میں بسنے کی مالی سکت سے محروم ہیں۔1947ءکے بعد چند برسوں تک اس ٹیلے کو کافی اہمیت حاصل رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس پر حضرت بابا فرید الدین گنج شکر، حضرت بدر دیوان اسحاق اور حضرت میراں شاہ کے مزارات تھے۔ وہ آج بھی ہیں اور ان کے سالانہ عرس بھی ہوتے ہیں۔ لیکن عرس کے ایام کو چھوڑ کر باقی ایام میں اولیائے کرام کی ان درگاہوں میں آج ماضی جیسی ریل پیل دیکھنے میں نہیں آتی۔ ہماری بولی میں اس وسیع ٹیلے کو ”اُتاڑ“ اور ٹیلے کے نیچے کے علاقوں کو ”ہٹھاڑ“ کہا جاتا تھا۔ اتاڑ کو ہٹھاڑ سے واصل کرنے کے لئے ٹیلے کی چاروں طرف جو تدریجی ڈھلوانی اور پختہ اینٹوں کے کافی فراخ راستے بنے ہوئے تھے ان کو ”ڈھکّی“ کہا جاتا تھا۔

یہ ڈھکیاں تعدادمیں سات تھیں۔ ان میں سے ایک ڈھکی اس لئے بھی مشہور تھی کہ وہ اس دور کا واحد بازار اور کاروباری مرکز بھی تھی۔ اس کو ’شہیدی بازار‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے دونوں اطراف میں دکانیں تھیں اور بازار کی چوڑائی 15،16فٹ تھی۔یہ شہیدی بازار اس وقت کے پاک پتن کا سب سے طویل اور بارونق اکلوتا بازار تھا….ہمارا گھر یوں سمجھ لیجئے کہ اس ٹیلے کی چوٹی پر واقع چند گھروں میں سے ایک تھا۔ اس لئے جب ہمیں سودا سلف لانے کے لئے بازار بھیجا جاتا تھا تو تقریباً ہر بار ڈیڑھ دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا۔ہم کئی کئی بار آتے جاتے تھے اور تھکاوٹ وغیرہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس ٹیلے پر کوئی سکول واقع نہیں تھا۔ ہندوﺅں کے دو سکول تھے جو ہٹھاڑ میں تھے۔ ایک کا نام آریا سماج ہائی سکول اور دوسرے کا سناتن دھرم ہائی سکول تھا۔ یعنی مسلمانوں کے لئے ان ہندو درسگاہوں کے علاوہ ایک گورنمنٹ ہائی سکول تھا۔ یہ تینوں سکول ٹیلے کے نیچے میدانی حصوں (ہٹھاڑ)میں واقع تھے۔ ہندو مسلم کی یہ تمیز دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد تب زیادہ کھل کر سامنے آنے لگی جب پاکستان کا قیام عمل میں لایا جا رہا تھا۔ اوائل 1947ءتک معلوم نہ تھا کہ پاک پتن، پاکستان میں رہے گا یا ہندوستان کا حصہ بن جائے گا۔ میری عمر ابھی ”سکول گوئنگ“ نہیں تھی۔ہمارے دور میں پانچ برس پلس کے طلبا کو پرائمری سکول میں داخلہ مل سکتا تھا، اس سے پہلے نہیں۔ اور پرائمری سکول میرے گھر سے چار کلومیٹر (یکطرفہ) دور تھا۔

اس کا نام ڈسٹرکٹ بورڈ نیلی بار پرائمری سکول تھا۔ تصور کیجئے کہ پانچ سال کے عمر کے بچے کے لئے دوبار ”ڈھکی“ سے اترناچڑھنا اور پھر سکول آنا جانا کس قدر مشکل ہوگا۔ لیکن یہ ’مشکل‘ اگر تھی تو آج کے تناظر میں تھی۔ ہم بڑی باقاعدگی سے ہر روز 8کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے بالکل فریش اور ہشّاش بشاش گھر لوٹتے تھے۔ دوپہر کا کھانا، ٹفن کیرئیر میں ساتھ ہوتا تھا جسے ہم تفریح   میں ٹاٹوں پر بیٹھ کر کھایا اور ساتھیوں کو کھلایا کرتے تھے۔ اس طویل آمد و رفت کی ایک ایک ’منزل‘ اب تک یاد ہے…. ”ڈھکی“ سے اترتے تو پہلے سبزی منڈی آتی، پھر ریلوے لائنیں، پھر ایک چھوٹی نہر (راجباہ) اور اس کے بعد سکول تھا جس کے چار پانچ کمرے تھے۔ لیکن ہم بالعموم شیشم کی چھاﺅں میں باہر گراﺅنڈ میں ٹاٹوں پر بیٹھنے کو ترجیح دیتے تھے۔ جب بارش ہوتی تو سکول روم کا ماحول گھٹا گھٹا سا لگتا۔اس سکول کے اردگرد چاروں اطراف میں شیشم، کیکر، پیپل، اکاں، آم اور سوہانجنے کے درخت ہوتے تھے۔ مکانات دور دور واقع تھے اور وہ بھی نیلی بار کالونی آفس کے افسروں کے بنگلے ہوتے تھے۔ ان میں دو سی ایس پی اور دو پی سی ایس آفیسرز پوسٹ ہوتے تھے۔ اس لئے اس پرائمری سکول میں ہمارے لئے ایک کشش یہ بھی تھی کہ ان اعلیٰ افسروں کے بچے اور بچیاں اسی سکول میں پڑھتے تھے۔ جن کو دیکھ دیکھ کر ہمیں صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا پڑتا تھا علاوہ ازیں اردو اور انگریزی مفت میں سننے اور بولنے کو مل جاتی تھی۔

کھلی فضا میں کھیلنے کودنے اسمبلی اٹنڈ کرنے ،نہروں اور راجباہوں میں نہانے اور درختوں پر چڑھنے اترنے کی ورزشوں کے مواقع عام تھے….یادش بخیر، ایک خاص بات سوہانجنے کی درخت کی پھلیوں کا اچار ہوتا تھا جو والدین کی طرف سے تقریباً ہر سٹوڈنٹ کے ٹفن میں ایک پراٹھے میں لپیٹ کر رکھ دیا جاتا تھا…. اس وقت معلوم نہ تھا کہ یہ سوہانجنا جس کی پھلیوں کا اچار کھایا جا رہا ہے ایک ہمہ صفت موصوف اور کرشماتی درخت ہے۔پھر ہم ہائی سکولوں اور کالجوں میں چلے گئے جہاں سوہانجنے کے درخت نہیں تھے اور رفتہ رفتہ اس درخت کا نام تک ذہن سے نکل گیا۔ پچھلے برس شائد موسم بہار کے ایام تھے کہ دنیا نیوز کے پروگرام ”حسبِ حال“ میں ایک پروگرام میں اس درخت کا نام سنا۔ جنید سلیم اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے۔ اس کو سن کر اگلے روز میں ایک نرسری میں پہنچا اور سوہانجنے کے دو پودے لا کر اپنے بیک یارڈلان میں لگا دیئے۔ایک کا قد 4فٹ اور دوسرے کا ایک فٹ تھا۔ نرسری والوں نے بتایا کہ اس پودے کی مانگ ایکدم بڑھ گئی ہے۔بڑا پودا 300اور چھوٹا 200روپے کا ملا (اور وہ بھی کافی بھاﺅ تاﺅ کرنے کے بعد) …. دیکھتے ہی دیکھتے یہ دونوں پودے بالیدگی کی ’منازل‘ طے کرتے چلے گئے۔ آج ایک کا قد 15فٹ ہو گیا ہے اور دوسرا بھی 4،5فٹ کا ہے۔ اس سال مارچ میں اس پر پھول اور پھلیاں بھی کافی لگ گئی تھیں جن سے اپنے پرائمری سکول کے ایام یاد آ کر ناسٹلجیا(ماضی پرستی) کا شکارکر گئے۔سوہانجنے کو انگریزی میں موری ناگا کہا جاتا ہے ۔

گوگل پر جا کر دیکھیں تو اس پودے کی غذائی افادیت کے قصیدے پڑھ پڑھ کر دل للچانے لگتا ہے۔ کون سا انسانی مرض ہے جس کی دوا اس درخت میں موجود نہیں۔ اس کے پتے، پھول، پھلیاں اور شاخیں قدرتی نباتاتی اجزاءکا بیش بہا خزینہ ہیں۔ شوگر، ہائی بلڈ پریشر، ہڈیوں کا بھر بھراپن، کیلسیم کی کمی اور وزن کم کرنے کے تیر بہدف نسخہ جات اسی پودے سے تیار کئے جاتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نیم کے بعد یہ سوہانجنا، طبی دنیا کا ایک ایسا امرت دھارا ہے جس کا جواب نہیں۔ اسے گملوں میں بھی کاشت کیا جا سکتا ہے۔ اس کی فی ایکڑ پیداوار سے 8سے 10لاکھ روپے سالانہ کی آمدن ہو سکتی ہے۔ اگر آپ نے اس کا تجربہ نہیں کیا تو نومبر کا مہینہ قریب آ رہا ہے۔ مارچ اور نومبر میں اس کی کاشت کی جاتی ہے اور ایک دو برس بعد اس میں پھول اور پتوں کی بہتات ہو جاتی ہے۔پتوں کو چھاﺅں میں سکھا کر اور سفوف بنا کر کیپسول بنا لئے جاتے ہیں۔ بازار میں بھی اس کا سفوف دستیاب ہے اور شائد کیپسول بھی ملتے ہیں لیکن اگر خود دوچار پودے لگا لیں تو آپ کاج مہا کاج والا معاملہ ہو جائے گا۔ دودھ دینے والے جانوروں کو بھی چارے کے طور پر سوہانجنے کے پتے کھلا کر ان سے 40فیصد زیادہ دودھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے پتوں کو سکھا کر پیسنے اور اس کا لیپ چہرے پر لگانے سے چہرے کے داغ دھبے دور ہو جاتے ہیں اور رنگت نکھر کر گوری ہو جاتی ہے۔(خواتین کو مژدہ!….)

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ڈاکٹروں کی طرف سے یوٹیوب پر اس کے بارے میں جو پروگرام اور مواد آپ سمارٹ فون پر دیکھ سکتے ہیں، وہ بہت حوصلہ افزا ہیں۔انڈیا ایک بڑا ملک ہے۔ لیکن وہاں دیسی جڑی بوٹیوں سے جو ادویات بنا کر مارکیٹ کی جاتی ہیں، ان سے اربوں ڈالر سالانہ کمائے جا رہے ہیں۔ انڈیا کئی برس سے نیم کے درختوں اور اس کے چھلکوں سے بہت سی ادویات اور ٹوتھ پیسٹیں وغیرہ بنا کر برآمد کر رہا اور زرِمبادلہ کما رہا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں نیا مکان بنانے والوں کے لئے دو درخت لگانے کی شرط عائد کی ہے۔ اگر سوہانجنے کو بالخصوص اس کے لئے منتخب کر لیا جائے تو اس کا بہت فائدہ ہو گا۔ پچھلے ماہ شجر کاری مہم کا آغاز کیا گیا تھا لیکن اس میں درختوں کی اقسام کی تخصیص نہیں کی گئی تھی۔ اگر نیم اور سوہانجنے (بالخصوص پنجاب، سندھ اور صوبہ سرحد کے میدانی علاقوں میں) کے درختوں کی تخصیص کر دی جائے تو آب و ہوا کی تبدیلی کے علاوہ ان دونوں پودوں کو دوا اور غذا کے طور پر استعمال کرنے کے فوائد اظہر من الشمس ہوں گے۔کچھ برس پہلے انڈیا کے صوبہ گجرات میں نیم کے درختوں کی کاشت پر بی بی سی نے ایک ڈاکومنٹری بنائی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ نیم کے درخت کی پرورش و پرداخت پر غیر ملکی دوا ساز کمپنیاں کس طرح ہر شہر اور قصبے میں ایک ایک درخت کو مارک کرکے اس کے مالک کو ایڈوانس پے منٹ (ڈالروں میں) کر دیتی ہیں

اور جب بہار کا موسم آتا ہے تو سارے پتے اتارکر لے جاتی اور ان سے درجنوں ادویات بناتی ہیں۔یادش بخیرجب میری پوسٹنگ کھاریاں میں تھی تو جو گھر فوج کی طرف سے الاٹ ہوا تھا وہ  جی ٹی روڈ پر واقع اس کالونی میں تھا جو منگلا ڈیم بنانے والی غیر ملکی کمپنی (شائد فرانسیسی کمپنی تھی) نے اپنی انتظامیہ کے لئے تعمیر کی تھی۔ یہ بڑے وسیع و عریض گھر تھے۔ میرا مکان 6 کنالوں میں تھا اور اس میں دوسرے پھلدار درختوں کے علاوہ بیٹری کے پتوں کے 5درخت بھی تھے۔ میں وہاں 3سال تک رہا۔ کراچی سے ہر سال ایک پارٹی آکر اس کالونی کے 5،7گھروں کے بیٹری کے درختوں کا سودا کر لیتی تھی اور ایڈوانس پے منٹ کر دیتی تھی۔بیٹری (سیگریٹ کی ایک سستی قسم جو آج کل شائد نایاب یا کمیاب ہو چکی ہے)کے درخت کے پتے سال میں دوبار لگتے تھے اور وہ پارٹی ان کو اتار کر لے جاتی تھی۔ یہ ایک قسم کی اضافی آمدنی تھی جو ان گھروں کے مکینوں کو ان درختوں کی وجہ سے ہوتی تھی۔آج میں لاہور کینٹ میں عسکری ون میں رہتا ہوں یہ اکاموڈیشن سہ منزلہ فلیٹوں پر مشتمل ہے۔ میرے پاس گراﺅنڈ فلور ہے جس کے آگے اور پیچھے 7اور5مرلے کے لان ہیں۔ ان دونوں لانوں میں، میں نے میٹھے، کینو، موسمی، مالٹے، لیموں، انور رٹول(آم) نیم اور اسٹونیا کے درخت لگائے ہوئے ہیں۔ ان پر پھل بھی لگتا ہے۔ آجکل موسمی اور دیسی لیموں کے پودے پھل سے لدے ہوئے ہیں۔ ان کے چاروں طرف باڑ  لگائی ہے اور ڈھاکہ گراس بھی عجب بہار دیتی ہے۔اور آتے جاتے دیکھتا ہوں کہ ہماری کالونی کی سڑکوں کے کناروں پر انتظامیہ نے سوہانجنے کے بہت سے درخت کاشت کروا دیئے ہیں جو ماشا اللہ کافی بڑے ہو رہے ہیں۔ ہو سکے تو آپ بھی انفرادی طور پر اپنے ہاں اس کارِ خیر میں حصہ لے کر نہ صرف آب و ہوا کو خوشگوار بنا سکتے ہیں بلکہ ان درختوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر (میری طرح) اپنے لئے ایک کیف انگیز فرحت کا سامان بھی کر سکتے ہیں…. یہ کوئی زیادہ مشکل اور محنت طلب تجربہ نہیںALLAH PAK, CREATED, A, TREE, PAK, ARMY, RETIRED, OFFICER, DESCRIBED, VERY, CLEAR, BLESSINGS, OF, A, TREE!

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website