counter easy hit

سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے:

لاہور (ویب ڈیسک) مسلم لیگ(ن) اپنے ایجنڈے کے مطابق شعبدہ گری دکھانے میں کامیاب رہی ہے۔ تحریک انصاف کو اپنا ہوش نہیں تو ایسے معاملات پر اُس کی نظر کیا ہو گی؟۔۔۔ اگر تحریک انصاف قومی اسمبلی میں جنوبی پنجاب صوبے کی قرارداد لے آتی تو آج مسلم لیگ(ن) نے جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کے لیے نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔جو قرارداد جمع کرائی ہے، وہ صحیح معنوں میں اس مطالبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش قرار پاتی۔ تحریک انصاف سے یہ نہ ہو سکا اور اب انہیں لازماً کسی ایک کو ناراض کرنا پڑے گا۔ اگر جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کی بات کرتی ہے تو صوبہ بہاولپور مانگنے والے ناراض ہو جائیں گے۔اگر اِن دونوں کی وجہ سے صوبہ بنانے کا خیال ہی دِل سے نکال دیتی ہے تو جنوبی پنجاب کے عوام اُسے جھوٹے و عدوں کا طعنہ دیں گے۔ مسلم لیگ(ن) نے ترپ کا پتہ پھینکنا تھا اور پھینک دیا، اب اُسے کچھ بھی نہیں کرنا، بس خاموش بیٹھ کے حکومت کا تماشا دیکھنا ہے، لوگ سچ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا ہوتا تو اپنے دس سالہ اقتدار میں بنا دیتی، اُس کے پاس دو تہائی اکثریت بھی تھی۔ گزشتہ پانچ برس تو اُس نے وفاق اور صوبے میں اسی اکثریت کے ساتھ حکومت بھی کی۔اُدھر وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ، جو صوبہ بہاولپور کا مطالبہ بڑھ چڑھ کے کر رہے ہیں اوریہ دھمکی تک دے دی ہے کہ بہاولپور صوبہ نہ بنا تو پھر کوئی صوبہ بھی نہیں بننے دیں گے،اُس وقت خاموش رہے،جب مسلم لیگ (ق) کی حکومت تھی ۔یہ سارے لوگ اب کیوں بیدار ہو گئے ہیں، پہلے کیوں سوئے ہوئے تھے؟ میرا تو سادہ سا جواب یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ نہیں بنانا چاہتا، حتیٰ کہ تحریک انصاف بھی نہیں۔یہ معاملہ سیاست دانوں کے بس میں ہے ہی نہیں۔ مُلک کے مقتدر حلقے ہی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔پنجابی اسٹیبلشمنٹ کسی طور نہیں چاہے گی، پنجاب کمزور ہو، چہ جائیکہ اس کے تین حصے کر دیئے جائیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگر جنوبی پنجاب میں دو صوبے بنا دیئے جاتے ہیں، تو توازن کیسے قائم رہے گا۔ ایک طرف اپر پنجاب پر مشتمل بڑا صوبہ اور دوسری طرف دو چھوٹے صوبے، بات تو پھر بھی نہیں بنے گی۔ جنوبی پنجاب صوبے کی تقسیم خود جنوبی پنجاب کے مفاد میں نہیں، البتہ اس علاقے کے تین ڈویژنوں بشمول جھنگ اور میانوالی پر مشتمل الگ صوبہ اُسی توازن کو جنم دے گا، جو پنجاب اور جنوبی پنجاب کے لئے درکار ہے۔ مسلم لیگ(ن) کی قرارداد کے بعد جنوبی پنجاب سے جو ردعمل آیا ہے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکتی۔اُس کا پہلا ہدف تو یہی ہے کہتحریک انصاف کو صوبہ جنوبی پنجاب بنانے سے روکا جائے،کیونکہ اگر اُس نے یہ کریڈٹ حاصل کر لیا تو جنوبی پنجاب سے دیگر سیاسی جماعتوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔صوبے کے قیام کو روکنا بھی مسلم لیگ(ن) کے لئے عوام کے دِلوں میں نفرت پیدا کر سکتا ہے۔سو اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ’’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘ کے مصداق صوبے کی مخالفت بھی نہ کی جائے اور صوبہ بننے بھی نہ دیا جائے کی حکمتِ عملی اختیار کی گئی۔ صوبہ جنوبی پنجاب بنانے سے روکنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اس پر ایک تنازعہ کھڑا کر دیا جائے۔ شاہ محمود قریشی نے ابھی چند روز پہلے ہی ملتان میں کہا تھا کہ ہمیں تقسیم کرنے کی سازش تیار کی گئی ہے۔ سو یہ سازش اس بِل کی صورت میں سامنے آ چکی ہے، جو مسلم لیگ (ن) نے دو صوبوں کے حوالے سے اسمبلی میں جمع کرایا ہے۔ یہاں مجھے ایک محاورہ یاد آ رہا ہے۔۔۔’’ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘۔ اس کے بعد اتفاق رائے پیدا ہوگا اور نہ صوبہ بن سکے گا اور یہ پانچ سال بھی گزر جائیں گے۔سب جانتے تھے کہ یہ شوشہ ہمیشہ الگ صوبے کے مطالبے کوسبوتاژ کرنے کے لئے چھوڑا جاتا ہے۔ سبوتاژ اِس لئے کہ جو الگ صوبہ مانگ رہے ہیں، وہ کسی صورت یہ قبول نہیں کریں گے کہ جنوبی پنجاب سے روہی کو نکال دیا جائے۔ روہی تو سرائیکی ثقافت کی پہچان ہے۔ظاہر ہے، جب بیک وقت دو صوبے مانگے جائیں گے اور سرائیکی دھرتی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے گا تو انتشار پیدا ہو گا اور وہ اتفاق رائے جنم نہیں لے سکے گا،جو ایک الگ صوبے کے لئے ضروری ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی سازش نہیں ، جو عوام کو سمجھ ہی نہ آئے۔مسلم لیگ (ن)کا بِل پیش ہوتے ہی جو ردعمل سامنے آیا ہے اس نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کر دیا ہے کہ جنوبی پنجاب یا سرائیکی صوبے سے بہاولپور کو نکال دیا جائے اور الگ صوبہ بنایا جائے۔ احسن اقبال نے اس بِل کے حوالے سے جو گفتگو کی، اس سے صاف لگا کہ وہ اس معاملے میں پی ٹی آئی کو جھوٹا ثابت کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ کہنا بہت معنی خیز ہے کہ عمران خان اپنے علیحدہ صوبے پر بھی یوٹرن لیں گے۔گویا مقصد کپتان کے یوٹرن کو بے نقاب کرنا ہے، حالانکہ عمران خان نے کبھی نہیں کہا کہ وہ بیک وقتبہاولپور اور ملتان کو صوبہ بنائیں گے۔انہوں نے انتخابات سے پہلے صوبہ محاذ والوں سے جو معاہدہ کیا، اس میں بھی کہیں یہ ذکر نہیں کہ جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور بنایا جائے گا،انتخابات کے بعد شاہ محمود قریشی اور خسرو بختیار پر مشتمل جو دو رکنی کمیٹی بنائی گئی، اُسے بھی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے پر اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا کہا گیا۔میری پیش گوئی یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے مسلم لیگ(ن) کے بِل پر اول توبحث نہیں ہو گی، اگر ہوئی تو ایک بڑے ہنگامے کی وجہ بن جائے گی اور بالآخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنوبی پنجاب صوبہ پھر ایک طویل عرصے تک لٹک جائے گا۔ یہ ایک بڑا گیم پلان ہے،جس کا مقصد ملک میں نئے صوبوں کے قیام کو روکنا ہے۔جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک چونکہ سب سے پرانی ہے اور اس میں شدت بھی آ چکی ہے، اُسے ویسے تو ناکام بنانا ممکن نہیں، اِس لئے بہاولپور صوبے کا شوشہ چھوڑ کر اسے متنازعہ بنانے کے منصوبے پر عمل ہو رہا ہے۔۔۔ ایک نہیں سب سیاسی جماعتیں اس منصوبے کا حصہ ہیں اور سب کا مقصد عوام کو بے وقوف بنانا اور سیاسی اشرافیہ کا تسلط برقرار رکھنا ہے